1960 کی دہائی کا ایک مشہورِ زمانہ لطیفہ ہے کہ ایک بار
ٹرین میں امریکن صدر جان ایف کینڈی اور سویت یونین کے وزیراعظم خروشچیف ایک
ساتھ سفر کررہے تھے۔ان کے ہمراہ اسرائیل کی آئرن لیڈی گولڈا مائر اور ہالی
ووڈ اداکارہ الزبتھ ٹیلر بھی بیٹھی تھیں۔یہ شخصیات حالاتِ حاضرہ پر باہم
گفتگو کررہے تھے کہ ٹرین ایک ٹنل میں داخل ہو جاتی ہے۔ اندھیرے میں چومنے
کی آواز کے ساتھ تھپڑ کی آواز ڈبے میں گونجتی ہے۔ اتنے میں ٹرین ٹنل سے
نکلتی ہے تو امریکن صدر کا ہاتھ گال پہ ہوتا ہے۔یہ منظر دیکھ کر چاروں کیا
سوچتے ہیں لطیفہ اس بارے ہے۔ امریکن صدر جان ایف کینڈی سوچتا ہے کہ اندھیرے
کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خروشچیف نے الزبتھ ٹیلر کو کس(چوما) کیا اور سائڈ پے
ہوگیا جس سے الزبتھ کا تھپڑ مجھے آ لگا جبکہ الزبتھ ٹیلر سمجھتی ہے کہ صدر
نے ٹنل میں شاید گولڈا مائر کو کس کیا اور جواباً تھپڑ کھا لیا۔ گولڈا مائر
سوچتی ہے کہ امریکن صدر نے الزبتھ ٹیلر کو بوسہ دیا اور نتیجتاً دنیا کی
مشہور شخصیات کے سامنے بے عزتی کروالی جبکہ خروشچیف بیٹھا یہ سوچ رہا تھا
کہ ابھی راستے میں ایک اور ٹنل آنا باقی ہے وہ پھر منھ سے چومنے کی نقلی
آواز نکالے گا اور مخالف کو کس کے تھپڑ رسید کرے گا. خروشچیف کا کردار میرے
ملک میں آجکل عمران خان نیازی نبھا رہے ہیں اور بفضلِ خدا انھیں چومنے کا
ڈھونگ رچانے کیلئے کسی ٹنل کا انتظار بھی نھیں کرنا پڑتا کیونکہ میرے ملک
میں جہالت کے اتنے مہیب اندھیرے ہیں کہ ان کا جب دل چاہتا ہے وہ ڈھونگ کرتے
ہیں اور مخالف کے منہ پہ طمانچہ مار دیتے ہیں۔اور اب جبکہ اندھیرا بھی گہرا
ہے اور اِن کا ہاتھ بھی طمانچوں پہ چل چکا ہے تو یہ عمران خان سے عمران
ہاشمی بن چکے ہیں۔ اب یہ بوسے پہ بوسے لیے(ڈھونگ پہ ڈھونگ رچائے) چلے جاتے
ہیں اور مخالفین کے منہ طمانچوں سے لال کیے رکھتے ہیں اور اسی اندھیرے کا
فائدے اٹھاتے ہوئے یہ مخالفین میں تمیز ہی بھول بیٹھے ہیں انکا جب اور جیسے
دل کرتا ہے اپنے مخالف شخص,ادارے اور بعض اوقات پاکستان کے منہ پر طمانچے
مارے چلے جاتے ہیں۔دوسری طرف میری عوام معصوم بن کر یہی سوچتی ہے کہ مخالف
انتہائی گھٹیا ہے جو ابھی منہ پہ ہاتھ رکھے بیٹھا ہے۔اور اس بہتی گنگا میں
وہ بھی اشنان کر رہے ہیں جن کو اس تاریکی میں شمع کا کردار نبھانا
تھا۔ہمارے چند نام نہاد صحافی رپورٹرز اور فن کے شعبے سے وابستہ شخصیات ان
کے ڈھونگوں کو شرفِ قبولیت بخش رہے ہیں۔اس ضمن میں ایسے اشخاص کی فہرست تو
کافی لمبی ہے لیکن دو لوگوں کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھوں گا ایک آفتاب
اقبال اور ان کی میرے مطابق اس سستی حرکت کا جب نیازی صاحب اسلام آباد میں
ایک جج کو دھمکیاں لگا کر چلے اور خبر چلنے پر حالات ان کیلئے کشیدہ ہوئے
توآفتاب صاحب رات کے پچھلے پہر کسی نووارد رپورٹر کی طرح مانگے کا مائک لے
کر اور اپنا اصل کام(ہوسٹنگ) چھوڑ کر رپورٹر بن کھڑے ہوئے(کوا چلا ہنس کی
چال اور اپنی چال بھی بھول گیا)۔اور ریٹنگ کیلئے یہ سٹنٹ کرنے لگے او جی
میں پچھلے پہر حقیقی آزادی کی جنگ لڑرہا ہوں حالانکہ جس محاذ پر ضرورت ہے
آپ کی ادھر دیکھتے ہی آپ کے دانت کھٹے ہو جاتے ہیں۔دوسرے جاوید شیخ صاحب
نیازی صاحب کی ٹیلی تھون میں ہیڈ چمچوں کے بیچ تشریف فرما تھے۔ان کے بارے
میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک بڑے آدمی کا کہنا ہے کہ
میں ادکاروں سے بات نہیں کرتا کیونکہ ان کی کل دانشوری دوسروں کے لکھے ہوئے
مکالمے ادا کرنا ہوتی ہے اور جب آپ ان سے بات کرتے ہیں تو دو چار جملوں میں
ہی ان کی ذہنی سطح آپ پر عیاں ہو جاتی ہے۔شیخ صاحب کو بطور فنکار جن
موضوعات پر بولنا چاہیے ادھر تو گونگے بنے بیٹھے ہیں جبکہ قبولِ عام حاصل
کرنے کیلئے کہیں بھی جا کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔خداوند ان کو اوران جیسے ہر
شعبے کے سرکردہ کرداروں کو اپنے مفاد سے آگے دیکھنے کی ہمت عطا کرے جبکہ
ہماری عوام کو کم از کم اپنا مفاد سمجھنے اور پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین.
|