مصنف اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی طرح، میں
بھی ایک مسلمان کے گھر انے میں پیدا ہوا، اس لیے پیدائیشی مسلمان ہوں۔مجھے
کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ میرا مسلمان ہونا مجھ سے کیا تقاضہ کرتا ہے۔
میرے والد میری کمسنی میں ہی اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ میں اپنے والد کے پیار و
محبت سے محروم رہا ۔ میری والدہ صاحبہ(مرحومہ) نے مجھے چار بہنوں اور ایک
بھائی کے ساتھ محنت مزدوری کر کے پالا۔۱۹۶۲ء اپنے شہر حضرو سے میں میٹرک
پاس کیا۔ رزق کی تلاش میں کراچی گیا۔وہاں ایک بنک میں میں سو روپے ماہوار
پر جونیئر کلرک کی نوکری کی۔ اسی دوران سندھ مدرسہ سے انٹر کام کا امتحان
پاس کیا۔بنک کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کی۔کراچی یونیورسٹی سے
بی اے کی ڈگری لی۔ نصف صدی سے زیادہ کراچی میں رہنے کے بعد۲۰۱۷ء میں کراچی
سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ اب یہیں زندگی کے دن گزار رہاہوں کہ کب اﷲ کی
طرف سے بلاوا آ جائے۔
کراچی ۱۹۶۸ء میں ایک دوست کے ذریعے جماعت اسلامی سے تعارف ہوا۔ جماعت کے
کارکنوں نے ہفتہ وار درس قرآن میں بلانا شروع کیا۔مولاناسید ابواعلی
مودودیؒ کا لٹریچر مطالعہ کے لیے دیا۔سید موددیؒ کی تفسیر، تفہیم القرآن
اور لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ بندہ
مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے اس لیے ہی مسلمان ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے
ضروری ہے کہ اسے دین کا علم ہو۔ وہ شعوری مسلمان ہو۔ اُسے یہ معلوم ہونا
چاہیے کہ اﷲ کا دین ایک مسلمان سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ اس مطالعہ سے آہستہ
آہستہ دین اسلام کی سمجھ آئی کہ دین ایک مسلمان سے کیا تقاضہ کرتا ہے ۔کیا
انسان بھی دوسرے حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے یا اﷲ نے انسان کو اشرف
المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کو ارادے کی اجازت دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔
انسان چاہے نیک عمل کرے ۔چاہے برے عمل کرے۔مگرمسلمان یاد رکھے کہ نیک عمل
کی وجہ سے اﷲ اس کو جنت میں داخل کرے گا اور برے عمل کی وجہ سے دوزخ میں
ڈالے گا۔ یعنی یہ دنیا انسان کے لیے مہلت عمل ہے۔ انسان کو اﷲ نے اس دنیا
میں اس لیے بھیجا کہ وہ اﷲ کو واحد مانے۔ اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائے۔اپنی
آخرت کی فکر کرے۔ اﷲ کی جنت کے حصول کے لیے اﷲ کے دین کو قائم کرنے کی جد
وجہد میں نیک لوگوں کے ساتھ شامل ہو جائے۔ خود اﷲ کے دین پر عمل کرے اور
دوسروں کو بھی اس طرف آنے کی دعوت دی۔جماعت اسلامی کا یہ ہی پیغام ہے
۔جماعت کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہدکا مقصد عملاً اقامت دین(
حکومت الہیہ، اسلامی نظام زندگی، نظام مصطفےٰ ؐ کا قیام) اور حقیقتاً رضائے
الہٰی اور فلاح اُخروی کا حصول ہے۔ اﷲ نے مجھے بھی اس قافلہ حق میں شامل
ہونے کی سعادت عطا کی۔ ۱۹۶۸ء سے میں اس قافلہ میں شریک ہوں۔ میں مطالعہ
قرآن و حدیث اور سیرت صحابہؓ کا مستقل طالب علم ہوں۔
الحمد اﷲ، تفہیم القرآن کا مستقل طالب علم ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسری
تفاسیر کا تقا بلی مطالعہ بھی کیا۔چھوٹی چھوٹی حدیث کی کتابوں کے مطالعہ کے
بعد صحاح ستہ کا مطالعہ شروع کیا جو مکمل ہو گیا۔ اب موطا امام مالک ؒ کا
مطالعہ شروع کیا ہے۔میں نے سوچا کہ جو میں نے مطالعہ کیا ہے اس سے تو مجھے
ضرور فاہدہ ہوا مگر کیا اس علم سے دوسروں کو بھی فاہدہ ہوا۔ جب میں تعلیم
حاصل کرنے کے سندھ مدرسہ کراچی میں داخل ہوا تو اس کے مین گیٹ پر یہ لکھا
ہوا تھا( inter to learn go forth to serve) یعنی علم سیکھنے کے لیے مندرسہ
میں داخل ہو اور سیکھنے کے بعد اسے پھیلانے کی کوشش کرو۔پھر میں نے جو کچھ
مطالعہ کیا اس کو کالم کی شکل میں لکھ کر اخبارات میں شائع کرنے کے لیے
بھیجا شروع کیا۔ اﷲ کا شکر کہ اخبارات نے میرے کالم جو حالات حاضرہ، اسلام
اور جماعت اسلامی پر مشتمل ہیں شائع ہونے شروع ہوئے۔ میرے دل میں خواہش
پیدا ہوئی کہ ان کالموں کو کتابی شکل دی جائے۔میں نے حالات حاضرہ پرکچھ
عرصہ قبل ’’ مشرقی اُفق‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی۔اب آپ کے ہاتھ میں’’ دین
اسلام اور ہم۔ بنیادی تاریخی جائزہ‘‘ کتاب موجود ہے۔ اس کے بعد ان شاء اﷲ
جلد ہی ’’ جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے‘‘ پیش کی جائے گی۔ میں نے قرآن کو اﷲ
کی طرف سے اپنے لیے ایک خط سمجھا۔ قرآن کے مضامین جو میری سمجھ میں آئے،
میں نے انہیں تحریری شکل دے دی۔خاص کرموجودہ دور کے دین بیزار لوگوں کو
جواب دینے کی کوشش کی۔مصنف نے ’’دین اسلام اور ہم کتاب میں قرآن کو انسانیت
کی طرف ایک خط جان کر اسے جیسے خود سمجھا ویسا ہی دورسروں کو سجمجھانے کی
کو شش کی ہے۔خاص کر مغرب زدہ، روشن خیال، لبرل، سیکولر اور مذہب بے زار
حضرت کو۔اس کتاب میں اﷲ کے آخری پیغام قرآن کے بتائے ہوئے ا س آخری دین کا
تعارف،اس کی تشریع کرنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کی
سنت اور صحابہ اکرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہ اجمعین نے اس پر کیسے عمل کیا،
بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔آخری امت کو اﷲ تعالیٰ کیا س آخری پیغام پر کیسے
عمل کرنا چاہیے۔دین اسلام کیا ہے، اس دین کا انسانیت سے کیا مطالبہ ہے اور
اس دیں کو ماننے والے مسلمانوں کا کیا رویہ ہے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
حج الودع کے موقعہ پر اﷲ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم نے
صحابہ اکرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپ
کو اﷲ کا پیغام پہنچا دیا۔صحابہ اکرام ؓ نے فرمایاجی بل کل آپ صلی اﷲ علیہ
و سلم نے اﷲ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔اﷲ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھا کر فرمایا کی اے اﷲ میں نے تیرا
پیغام تیری مخلوق تک پہنچا دیاہے۔تیری مخلوق اس بات کی گوہی دے رہی ہے۔ تو
بھی گواہ رہنا۔ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی کہ میں نے آج دین مکمل کر دیا
ہے۔ اسی دین کو قیامت تک رہنا ہے۔ اس دین کو آگے پہنچانے کا کا م اب
مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ انہیں فریضہ شہادت حق ادا کرنا ہے۔ یعنی اس دین کے
پیغام کو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچانا ہے۔دین اسلام ایک پر امن اور آشتی
والا دین ہے۔ یہ کوشش مصنف نے اس کتاب کے ذریعہ کرنے کی کی کوشش کی ہے۔ اﷲ
تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔ آمین۔ میری کتاب ’’ دین اسلاام اور ہم بنیادی
تاریخی جائزہ‘‘ میں جو اچھی باتیں ہیں وہ میرے رب کی طرف سے ہیں اور اگر
کچھ کمزوری رہ گئی ہے تو اس میں ذمہ دار ہوں۔میں اپنی کمزوری پر معافی کا
درخواست گزار ہوں۔
|