"اسلام میں جدید رجحانات"
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
"اسلام میں جدید رجحانات" از:۔اے آر ہملٹن گب ترجمہ مقدمہ تحشیہ :۔ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
|
|
|
"اسلام میں جدید رجحانات" |
|
"اسلام میں جدید رجحانات" از:۔اے آر ہملٹن گب ترجمہ مقدمہ تحشیہ :۔ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
تحریک استشراق کے حوالے سے بیسویں صدی عروج و کمال کی صدی ثابت ہوئی اس دور میں تحقیقات اسلامی کا کام جن مستشرقین نے کیاان کی ایک طویل فہرست ہے البتہ ان میں چند مشہور نام یہ ہیں۔ سرتھامس ارنلڈ (Sir Thoms Arnold 1864-1930) ولیم مونٹگمری واٹ(W.Montgomery Watt 1909-2006) اسنوک ہرگرونج(Snouck Hergronje 1857-1936) اے جے ونسنک (A.J.Wensinck 1882-1939) کارل بروکلمان (Carl Brockelmman 1868-1956) ای سخاؤ (E.Sachau1845-1930) صموئیل زویمر(Samuel Zewemer 1867-1952) ایچ جی ویلز (H.G.Wells 1866-1946) مارماڈیوک پکتھال(M.Pickthall 1875-1936) سرہملٹن گب (Sir.H.A.RGibb 1895-1971) ولفریڈ کینٹویل اسمتھ (W.C.Smith 1916-2000) جوزف شاخت (Joseph Schacht 1902-1969) اور برنارڈ لیوس (Bernard Lewis 1916-) وغیر ہم اس عہد کے چند ایسے نامور مستشرقین ہیں جنہوں نے تحریک استشراق کو ایک نئی جہت اور رفتار عطا کی، جس طرح سے ابتدائی ادوار میں مستشرقین صرف اور صرف اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف تھے ساری جدوجہد اسلام کے رخ روشن کو داغدار کرنے کی تھی۔ اب بیسویں صدی میں حالات تبدیل ہوچکے تھے استعماری قوتیں کمزور ہوچکی تھیں یورپی کالونیاں خواب غفلت سے بیدار ہورہی تھیں۔ نئی نئی تحریکیں اور نظریات جنم لے رہے تھے۔ محکوم اور غلام ممالک نے آزادی و حریت کا نعرہ بلند کیا، سائنس و ٹکنالوجی کی غیر معمولی ایجادات و اختراعات نے معیار زندگی کو کافی بلند کردیا۔ سیاسی و عسکری انقلابات نے پر سکون زندگی میں ایک طوفان برپا کردیا معاشی نظریات نے عام و خاص کے درمیان ایک ہلچل پیدا کردی۔ کمیونزم و سوشلزم کا ہر طرف بول بالا تھا کارل مارکس (Carl Marx 1818-1883)کے نظریات نے انسان کو معاشیات کا خلیہ قرار دیا۔ سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud 1856-1939) نے جنس کے پاکیزہ پردے کو تار تار کردیا اور چارلس ڈارون (Charles Darwin 1809-1882) کے نظریات نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر سوال کھڑا کردیا کہ آدمی کو خدا نے نہیں پیدا کیابلکہ وہ تو انسان نما بندر سے ارتقاء پاکر آدمی بنا ہے۔ اتنے اہم تغیرات ہونے کے باوجود مستشرقین کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ وہی پرانی روش اور طرز ادا اختیار کیے رہتے۔ اس لیے کہ اب قارئین کا ذوق مطالعہ و مشاہدہ بھی ان تبدیلیوں کے ساتھ عہد جدید میں تبدیل ہوا۔ نتیجتاً ایسے مصنفین و محققین منظر عام پر آئے جنہوں نے اپنے پیش روں پر سخت تنقید کی۔ اپنے انداز نگارش اور طرزہائے تحقیق سے بیسویں صدی کے مصنفین اپنے اسلاف سے ذرا مختلف نظر آئے لیکن مقاصد درپردہ وہی تھے یعنی اسلام کی تذلیل و تحقیر’’ اس دور میں ایک بات یہ بھی پیدا ہوگئی کہ بڑی حکومتیں خدا بیزاری اور مذہب سے نفرت کے اصول پر قائم ہوئیں۔ اس طرف توجہ 1925 کے بعد سے ہوئی اور 1945 کے بعد تو خدا بیزار مملکتوں کا مسلسل پروپیگنڈہ خود عیسائیت کے لیے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گیا۔ اس لیے باستثائے چند مستشرقین یورپ کا لب و لہجہ اسلام کے خلاف یا وہ گوئی میں نسبتہ نرم ہوگیا اور اس وجہ سے مذاہب کی کانفرنسوں، تقریروں اور مقالات صلح و آشتی میں اضافہ ہوگیاہے۔ اگر چہ اس صورتحال کا اثر سب پر نہیں پڑا۔ پادری سموئیل زویمر اور ان کے ہمنوا پوری قوت کے ساتھ اسلام، قرآن اور رسول ﷺ کے خلاف لکھتے رہے وہ اپنے لب و لہجہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکے۔ مگر پھر بھی دیگر مستشرقین کا ایک بڑا طبقہ اس خطرہ کو محسوس کرکے اپنی تحریروں کو مصلحتاً کسی قدر نرم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ جبکہ مستشرقین کی ایک معتدبہ تعداد دور جدید میں ایسی بھی رہی ہے۔ جنہوں نے اسلامی علوم و معارف کے مطالعہ میں اپنی ذہنی و علمی صلاحیتوں کا فیاضانہ استعمال کیا اور اپنی عمریں وقف کردیں۔اور ان کی کوششوں سے بہت سے نادر اسلامی مخطوطات جو صدیوں سے اندھیروں میں گم تھے نشر و اشاعت سے آشنا ہوئے ۔کتنے علمی ماخذ اور اہم تاریخی دستاویز یں اول اول انہیں کی کوششوں اور علمی دلچسپی اور شغف کے نتیجہ میں منظر عام پر آئیں جن سے مشرقی دنیا کے علماء، محققین کی آنکھیں روشن ہوئیں اور ان کا علم و تحقیق کا کام آگے بڑھا۔ ان کی یہ تمام علمی و تحقیقی کوششیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ان مصنفین و مرتبین نے اپنی جدوجہد میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی اور اس طویل جان گسل مطالعہ اور کاوش بحث و تحقیق میں اپنے موضوع کے ساتھ خلوص انہماک کا پورا ثبوت دیا ہے۔ مگر یہاں وہ دوسرا پہلو بھی پیش نظر رہے کہ کس طرح انہوں نے دجل و فریب، افتراپردازی بہتان تراشی اور طنز نگاری کا سہارا لیا اور پھر اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں بھی پوری مہارت سے کام لیا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر کا عظیم ترین مصنف سر ہملٹن گب (Sir H.A.R Gibb 1895-1971) علمی دنیا میں ایک معروف نام ہے جسے مسلمان اور مستشرقین بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسلام سے متعلق ان کی اہم کتابیں "Mohammedanism:1949" اور "Modern Trends in Islam"ہیں۔ ماڈرن ٹرینڈس ان اسلام نامی کتاب جو1947 میں لکھی گئی ’’براعظم ہندو پاک کی اسلامی تحریکات اور تحریک جدید سے بحث کرتے ہوئے مولف علی گڑھ اسکول اور سرسید کی تعریف کرتے ہیں۔ ساتھ ہی غلام احمد بانی قادیانیت اور قادیانی تحریک کی زور دار حمایت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اسلام میں احمدیہ تحریک نے ہی تجدید کو آگے بڑھایا، ایک نئے مذہب کو وجود میں لایا اوررواداری کے ساتھ تحریک اصلاحات پر زور دیا، جو لوگ قدیم اسلام میں عقیدہ کھوچکے تھے، ان میں تازہ ایمان پیدا ہوا ۔ علامہ اقبال کسی بھی مسلم قاری کے لیے محتاج تعارف نہیں، نہ ہی کوئی تعلیم یافتہ علامہ کی اسلام دوستی یا فکر و نظر اور مغربی تہذیب پر نقد و جراحت سے ناواقف ہے، پروفیسر گب علامہ اقبال کو مجموعہ اضداد قرار دیتے ہوئے ان کی معروف تصنیف کی دھجی اڑاتے ہیں۔ اور اقبال کو مجموعہ تضاد( Mass of Contradiction)قرار دیتے ہیں۔ Modern Trends in Islam،یعنی "اسلام میں جدید رجحانات"ہملٹن الیگزینڈر روسکین گب (Hamilton Alexander Rosskeen Gibb) ، کی ہی کتاب ہے ۔ہملٹن الیگزینڈر روسکین گب کی پیدائش2 جنوری 1895ء میں اور وفات 22 اکتوبر 1971ء کو ہوئی ۔گب کا تعلق اسکاٹ لینڈ تھا۔اُسے مختصراً ایچ۔ اے۔ آر۔ گب بھی کہا جاتا ہے۔اُس نے اسلام کے حوالے سے کافی کام کیا۔وہ ایک مشہور مستشرق اور عالم تھا۔ زیر نظر Modern Trends in Islam چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔اس کتاب کا موضوع فکر جدید ( جدیدیت ) کا اسلامی دنیا میں نشو وارتقاء ہے۔اس کتاب میں مصنف نے تیرھویں تا انیسویں صدی کے درمیان اسلامی فکر کے ارتقاء کا جائزہ لیا ہے۔عربی زبان کے جدید ادب اور مسلمانوں کی سیاسی،فکری اور اصلاحی تحریکوں سے جو دلچسپی رہی اس کا اندازہ اس کتاب کے مطالعہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ پروفیسر گب کتاب کے موضوع کے حوالے سے ابتدائیہ میں یہ تسلیم کرتا ہے کہ ان کے ماخذ ثانوی درجے کےاور محدود ہیں ۔وہ لکھتا ہے "اسلام کے جدید رجحانات کے مطالعہ کے لیے دستیاب مطبوعہ مواد کے اِس مختصر جائزے سے یہ عیاں ہوگیا کہ بحیثیت مجموعی یہ مواد کس قدر قلیل اور غیر تسلی بخش ہے۔صرف اس مواد کی بنیاد پر مسلم افکار کے ارتقاء کی کوئی واضح تصویر بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ہمیں ایسا بہت کچھ چاہیے جو ان ترقیوں کو دیکھنے اور انہیں ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے سلسلے میں بنیاد کا کام دے سکے۔۔۔لہذا اس موجودہ مرحلے میں محدود تجربے کی بنیاد پر عمومی اصول قائم کرنے میں جو خطرات مضمر ہیں ان سے دامن بچانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔کوئی تنہا شخص عالم اسلام کے طول وعرض میں پائے جانے والے ایمان اور عمل کے تمام تنوعات کو اپنے براہ راست علم و مشاہدے کے تحت لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔نہ ہی وہ بربروں ،عربوں،ترکوں،فارسیوں ، افغانوں ، پنجابیوں اور بنگالیوں کے ذہنوں میں داخل ہونے کا سوچ سکتا ہے۔مشرقی اور مغربی افریقہ کی مالے،جاوائی اور حبشی اقوام کو تو رہنے دیجئے ،حتیٰ کہ اس دائرہ کار کو مسلمان اقوام میں دو سب سے زیادہ متحرک تشکیلی قوموں یعنی عربوں اور ہندوستانی مسلمانیوں تک محدود کردیا جائے تب بھی یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ موجودہ کتاب میں ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق تمام تر معلومات بالواسطہ حاصل ہوئی ہیں۔" اسلام سے متعلق وہ اپنا زاویہ نگاہ چرچ کے مماثل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ"اس کے ارکان یکساں مرکب تشکیل دیتے ہیں ۔ان میں سے ہر ایک اس وقت تک خود بھی تشکیل پاتا رہے گا اور دوسروں پر بھی اثرانداز ہوتا رہے جب تک اسلام ایک زندہ وجود رہے گا۔اور جب تک اس کے عقائدوافکار اپنے متبعین کے مذہبی شعورو احساس کے اطمینان کا سامان کرتے رہیں گے۔اسلامی فکر اور تجربہ کے تاریخی ڈھانچے کو پوری وقعت دیتے ہوئے میں اسے ترقی پذیر ہیئت بھی گردانتا ہوں جو وقتاً فوقتاً اپنی علامات اور تماثیل کی صورت گری کرتی رہی ہے۔"آگے چل کر وہ کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "اس کتاب کا مقصد صرف یہ تلاش کرنا ہے کہ وہ اپنی راہ میں کتنا سفر طے کرچکے ہیں۔بہر کیف اس سے زیادہ سے زیادہ جزوی اور عارضی بیان ہی حاصل ہوگا تاہم یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی اگر یہ نوع انسانی کی مذہبی حیات سے متعلق ایک انتہائی اہم سوال کی جانب اپنی توجہ مبذول کروادیتی ہے۔" فکر اسلامی کی بنیادیں بیان کرتے ہوئے گب لکھتا ہے کہ"ہم اسلام کی جدید تحریکوں کو سمجھنے کی امید اس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک ہم انہیں افکار اسلامی کے قائم شدہ پس منظر میں نہ دیکھیں۔۔۔اسلام پر لکھنے والوں کا طریقہ عموماً یہ رہا ہے کہ وہ اپنی توجہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اعتقادی اور فقہی ارتقاء ،فرقہ وارانہ اختلافات اور صوفیانہ تحریکوں کے آغاز پر مرکوز رکھتے ہیں۔(اور) یہ مان لیا گیا ہے کہ لگ بھگ تیرھویں صدی کے بعد مذہبی طور پر اسلام انجماد کا شکار ہوگیا۔تشکیلی صدیوں میں جو کچھ علما،فقہا،متکلمین اور صوفیہ نے طے کردیا اسلام انہی سانچوں میں محدود ہوکر رہ گیا۔اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہے تو وہ زوال ہی ہے ترقی نہیں۔بظاہر کئی اعتبار سے یہ خیال درست ہے اور خود مسلمان علما کی معتدبہ تعداد اس کی قائل ہے لیکن انسانی عقیدے اور فکروعمل کا کوئی بھی بڑا نظام چھ صدیوں تک غیر متبدل نہیں رہ سکتا۔یہ درست ہے کہ مسلم عقیدے کے ظاہری ضابطے نے ان چھ صدیوں میں بہت ہی خفیف نشونما وارتقاءکا مظاہرہ کیا ہے۔تاہم درحقیقت مسلم حیات مذہبی کا اندرونی ڈھانچہ بدرجہ غایت دوبارا ترتیب پزید ہوا اور دوسرے مذہبی گروہوں کی طرح اس عمل نے ایسی توانائی پیدا کی جس نے مختلف النوع سرگرمیوں میں اپنا اظہار کیا۔" گب کے نزدیک"مسلم ذہن پر کنٹرول کے لیے عقلانیت اور وجدانی فکر کے درمیان پہلی کشمکش اسلام کی ابتدائی صدیوں میں یونانی قیاسی فلسفے کے ساتھ تھی۔اس انزاع کے عقلی نتائج فیصلہ کن ثابت ہوئے ان نتائج نے نہ صرف روایتی مسلم الہیات کی تشکیل کو مشروط کردیا بلکہ اسلامی کلچر پر بھی مستقل چھاپ ثبت کردی اور مغربی فکر کے ساتھ حالیہ برسوں کے براہ راست روابط میں سر اٹھانے والے نزاعات کے پیچھے اب تک یہی ٹکراؤ کار فرما ہے۔فکر کے عقلی طریقوں کے انکار اور افادی اخلاقیات کے رد کی جڑیں مسلم متکلمین کی نام نہاد دشمن تحقیق قدامت پسندی (تاریک ذہنی) میں نہیں بلکہ عرب تخیل کے امتیازات میں مضمر ہے۔نتیجہ یہ کہ عرب اور ان کے ساتھ عام مسلمان بھی تمام تجریدی یا بدیہی آفاقی تصورات سے بدگمانی پر مجبور ہوگئے مثلاً قانون فطرت یا مثالی انصاف کے تصورات،ایسے تصورات کو وہ ثنویت یا مادیت قرار دیتے ہیں جو باطل طرز فکر پر مبنی ہیں اور جو خیرکم اور شر کا زیادہ باعث بنتے ہیں۔" وہ مزیدلکھتا ہے کہ"ہر چند کہ مسلم متکلمین نے منطق اور یاضیات جیسے معاون علوم کو کارآمد پایا اور کافی حد تک انہوں نے فکر کا سائنسی طریقہ بھی اختیار کیا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی تاہم ان علوم کو بھی انہوں نے ماتحت درجہ ہی میں رکھا ۔۔۔وہ یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ "انفرادی حوادث پر عربی فکر کے ارتکاز توجہ سے مسلمان علماء نے سائنس میں ایک تجربی منہج کو پروان چڑھایا وہ بھی اس بلند درجہ تک جہاں ان کے یونانی اور اسکندری پیشرو نہ پہنچ پائے۔۔۔ مسلمانوں کی مفصل تحقیات نے سائنسی علم کی پیش رفت میں ٹھوس اضافہ کیا اور انہی سے یہ تجربی منہج قرون وسطی کے یورپ میں متعارف اور بحال ہوا۔"اُس کے نزدیک نتائج مشاہدہ ،تجربے کی یکجائی اور قوانین قدرت کے ذریعے انہیں باہم مربوط کرنا ،مسلم سائنس دانوں کی صلاحیت اور کسی نہ کسی حد تک ان کے اعتقادی تصورات کا مرہون منت ہے۔اُس کے نزدیک مسلمان دانشور فکر کے سائنسی منہج سے کبھی محروم نہیں رہے ۔گب کے خیال میں مسلمانوں کے لیے ترقی کی راہ محض مغربی تاریخی منہج میں مضمر ہے۔عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ خود اپنی ابتدائی تاریخی تنقید کی بنیادوں پر تخلیق نو اور تعمیر کے لیے کوشاں ہوں اس میں وہ مغربی منہج کے ایسے عناصر سے بھی مدد لیں جنہیں وہ قابل اطلاق اور ضروری سمجھیں۔ یہ وہ چند اہم اقتباسات ہیں جو ہم نے اِس کتاب سے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ چھ ابواب "فکراسلامی کی بنیادیں"،"اسلام میں مذہبی تناؤ"،"جدیدیت کے اصول"،"جدت پسند مذہب"،"قانون اور سماج" اور "اسلام عالمی تناظر میں" جیسے اہم مباحث پر مبنی یہ بہت اہم کتاب ہے۔جس میں مصنف نے تیرہویں سے انیسویں صدی کے درمیان اسلام کے داخلی ارتقاء کا جائزہ لیا ہے۔اور اس جائزے میں اُس نے عرب دنیا بالخصوص مصر اور جنوب ایشیائی خطے یعنی ہندوستان تک اپنے آپ کو محدود رکھا ہے۔ خیال رہے کہ کتاب میں شامل یہ ابواب پروفیسر گب کے وہ محاضرات ہیں جنہیں1939ء میں تیار کیا گیا اور بعد میں مرتب کر کے کتابی شکل دے دی گئی ۔ یہاں یہ بات پیچ نظر رہے کہ کسی اور زبان میں مصنف کے بیان کردہ اشارات کے مفاہم کو بھی من وعن دوسری زبان میں منتقل کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ جب تک جس زبان میں ہم ترجمہ کر رہے ہیں اس زبان پر ویسا ہی عبور حاصل نہ ہو جیسا اپنی مادری زبان پر حاصل ہے۔ ترجمہ کرتے وقت کانٹ چھانٹ کو دیانت داری کے خلاف تصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بھی زبان کے شہہ پارے کو دوسری زبان میں من وعن بیان کرنا ایک نہایت مشکل ترین امر ہے۔پھرمترجم کا زبان پر قدرت ہی اہم نہیں بلکہ دونوں زبانوں کے کلچر سے بھی اسی طرح آگاہ ہونا چاہئے۔ جس طرح مصنف آگاہ رہا ۔ اورترجمہ کرتے وقت منشائے مصنف پر بھی گہری نظر ہونی چاہئے۔پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ نے ان تمام امور کو جس خوبی سے ادا کیا ہے اُس سے اصل عبارت کے ساتھ مصنف کے نظریات، معتقدات، تصورات واحساسات کی صحیح ترجمانی بھی سامنے آجاتی ہے اور اصل متن کی روح اِس طرح برقرار رہتی ہے کہ محض لفظی ترجمہ اور ترجمانی کا فرق واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ Modern Trends in Islam پروفیسر گب کی مشہور مگر مشکل کتاب مانی جاتی ہے۔اور شاید اسی وجہ سے اب تک اس کتاب کا اردو ترجمہ نہیں ہوا تھا۔"اسلام میں جدید رجحانات" اِس کتاب کا وہ اردو ترجمہ ہے جو حال ہی میں ادارہ" قرطاس "کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے اور ترجمہ اور تحشیہ کی اِس مشکل ذمہ داری کو محترمہ پروفیسرڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ نےاس احسن طریقے سے ادا کیا ہے کہ قاری کی دلچسپی اول تا آخر نہ صرف براقرار رہتی ہے بلکہ اُسے گب کا مافی الضمیراور نفس مضمون سمجھنے میں کہیں بھی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔پروفیسر گب کے مشکل پیرائیہ بیان اور اسلوب کو سامنے رکھتے ہوئےیہ ترجمہ کی وہ خوبی جوہماری زبان میں اخذ واستفادے کا درجہ اتم ہے۔کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ نے لکھا ہے ،ہم اس شاندار ترجمہ اور اشاعت پر ہم ادارہ قرطاس کی روح رواں محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔
|