مجازی حقیقت میں گہری ڈبکی

ہمارے ملک کے مسائل تجزیہ کاروں اور ماہرین پر بے شمار سوالات اٹھاتے ہیں کہ ان کی اصل ترجیحات کیا ہیں۔ حکمت عملی کے انتخاب کے لیے کیا معیار مختص کیا جاتا ہے، اس سے شاید صرف وہی ہی نہیں بلکہ ہم بھی لاعلم ہیں۔ آج کے دور میں بڑے پیمانے پر ہدف کا تعین کرنا مشکل ہے۔ خاص طور پر اس کے نتائج کا مرتب ہوکر کسی بھی طرح کے منصوبے کو مجسم کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ سیاستدان زور دیتے ہیں کہ موجودہ غیر یقینی حالات کی ذمے داری ان پر عائد کرنا یکطرفہ عمل ہے ، اگر پالیسیاں ناکام ہو رہی ہیں تو اس کے مثبت نتیجے کو حاصل کرنا ان کے لیے آسان نہیں۔ قومی ایشوز کو موجودہ کردار پر قابو پانے کے لیے ’’جنٹل مین سیٹ ‘‘کا حصہ بنا کر اس کی اصلاح کرنا ضروری ہو گا۔ حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر تحقیقی عمل کی طرف ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ سے مدد لی جاسکتی ہے۔

مؤخر الذکر پر غور کرتے ہوئے، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ حالات کا ایک ٹھوس پس منظر ہے، جس کا مطلب اس خیال کا واضح طریقہ کار کی سمت متعین ہونا ہے کہ کس ادارے یا شخص کو کیا کرنے کی ضرورت ہے اور تھی، نیز اسے مقبول بنانے والوں کے لیے نئے بیانیہ یا کوشش کیا قابل رسائی تھی۔ ہم مقبولیت کی انتہا پر پہنچنے کے طریقہ کار کے بارے میں بات کرسکتے ہیں کہ پیچیدہ نظاموں میں مقبولیت کا عروج حاصل کرکے اسے سنبھالنا اور اس کا درست استعمال کس طرح کیا جاسکتا تھا۔ خیال رہے کہ مقبولیت ایک عام جملہ نہیں، بلکہ پیچیدہ بیانیہ کو عوام تک پہنچانے کا ایک طریقہ بھی ہے۔ دریں اثنا، سیاسی ہم آہنگی کے اصولوں کو پیش کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔مقبولیت میں خطرات کی حد تک آزادی فراہم کرنا کا ایک وہم ہے اور وہ کئی بار ایک دوسرے کو جوڑ سکتے اور مضبوط کر سکتے ہیں۔ ایک نظام اس خطرے سے مکمل طور پر محفوظ ہو سکتا ہے، لیکن ان کے امتزاج سے بے دفاع ہے۔سب سے پہلے بیشتر سیاست دانوں او ر عملیات میں بعض اداروں کا ہمارے ملک میں فطرت، انسانی ساختہ اور سماجی شعبوں میں خطرناک مظاہر اور نگرانی کے لیے ایک قومی نظام بنانے کی فوری ضرورت کی طرف توجہ مبذول کرنے میںترجیحات کو جانچنا ضروری ہے ۔ ان کے بغیر، پیشن گوئی کا اُفق یقینی طور پر بہت کم واضح ہے۔

خطرے کے معاشرے کو خوابوں اور ذمہ داریوں کے معاشرے سے بدلنا چاہیے، جس میں معاشرہ رجحان’’فضول کی تہذیب‘‘ سے بدل جائے گا۔فروعی مقاصد کے لیے کسی کو پکڑ کر آگے نکل جانے کی تھیوری غلط ثابت ہوچکی ۔ یہ تمام تعمیرات ملک کے سیاسی اور تکنیکی مستقبل کے بارے میں طریقہ کار کے ماہرین کی عکاسی کے خاکے میں باضابطہ طور پر فٹ ہیں۔کئی دہائیوں قبل ہمارا ملک عالمی سطح پر ایک خصوصی طاقتور وجود رکھتا تھا اسے بعض عناصر انتہائی متنازع قرار دے سکتے ہیں تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر، انا پرستی اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندیوں پر بہت زیادہ توجہ منفی پر دی گئی۔ راقم کی رائے میں، تنقید اپنے آپ میں کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور اس کے برعکس، ہمیشہ تعمیری تبدیلیوں کے خیالات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جب بات پیشین گوئی کی ہو۔

ملک کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا جا رہا ہے ، بادی النظر لگتا ہے کہ اس پر غور وخوص کرنا ہم سب نے چھوڑ دیا ہے ، بیشتر ادارے وہ کام نہیں کررہے جو ان کے فرائض میں شامل میں ہیں، مقبولیت کی بلندی تک پہنچنے والوں کی سوئی ایک مقام پر اٹک چکی ، تاویلیں اور گھما پھیرا کر بیانیہ بنانے والوں نے بالآخر اپنا مدعا ظاہر کردیا کہ ان کے نزدیک کون ، کیوں اور کتنا ضروری ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں۔پچھلی دو دہائیوں نے ’’پاکستان کے مستقبل پربریک تھرو اسٹریٹجی ‘‘ کے تجزیہ کے لیے بہت سے نئے تجربات کئے جاچکے ہیں ، تاہم اسے مکمل طور پر استعمال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن ان کے پاس اب بھی بہت کچھ ہے۔

عوام جو وقت کے سلگتےہوئے سوالات کے جوابات کے لیے قابل احترام طریقہ کار کے ماہرین تلاش کر رہے تھے، اب ان میں بھی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے اور یہ سب ماضی کے مقابلے میں بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارے ملک کی سیاسی اور تکنیکی ترقی کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی جامع تجزیاتی جواب نہیں مل رہا۔ اس کی وجہ ارباب اختیار کا انتہائی پراناوطیرہ اور ساتھ ہی ساتھ مملکت کی ترقی میں مثبت پہلوؤں کو دیکھنے کے لیے ان کی عدم دلچسپی ہے۔بظاہر بنیادی طور پر تسلیم شدہ عناصر کے ساتھ پورے اختراعی دور کے بارے میں بات کرنی چاہیے جیسے بنیادی ڈھانچے کا معیار، مختلف قسم کے وسائل کی دستیابی اور لاگت، قانونی ماحول کا ہموار کام کرنا، سیاسی و غیر سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا وغیرہ۔

تاریخ، بلاشبہ، ضمنی مزاج کو نہیں جانتی، وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر نہیں دہرا سکتی۔ تاہم، ایک طویل وقت کے لیے ماضی کو قبول حد تک متاثر کر سکتے ہیں۔حقیقی سیاسی فیصلوں میں طاقت کا انحصار ایک بار پھر تیار شدہ طریقوں کی سوچ اور ضرورت پر، ان کا دفاع کرنے کی خواہش پر ہے۔ مزید یہ کہ بہت کچھ بہت آہستہ آہستہ بدل رہا ہے۔ مملکت تاریخ کے اس نازک دوراہے پر ہے جس کا اندازہ نہ تو ارباب اختیار لگانا چاہتے ہیں اور سیاسی جماعتوںکو شاید اس کا ادارک نہیں ، ان کے فروعی مفادات ، اجتماعی ضروریات پر حاوی ہو رہے ہیں ، ادارے مقبولیت کے پیمانے پر شخصیت کے انتخاب پر فیصلے اور سوچ بچار کررہے ہیں ، اس امر سے لاتعلق ہوکر کہ ان میں صلاحیت کا وہ معیار موجود بھی ہے یانہیں ، جس سے منجدھار میں پھنسی کشتی کو باہر نکالا جاسکے ۔ تجربہ کار اور ناتجربہ کار ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ۔ ان میں محمود ایاز جیسی خصوصیات ، صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نظر آتی ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ سب اچھا نہیں ہے ۔ آگہی کا وہ معیار ناپید ہے جو ہمارا خاصہ ہوا کرتا تھا ۔ صرف ایسے بیانیہ کا زور و شور ہے جو خود ساختہ ذرائع سے پیدا کردہ ہے ۔ اسے عوام کی وہ مقبولیت حاصل نہیں جس کا مقابلہ بعض شخصیات سے کیا جاسکے۔

 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 652663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.