اسلام مکمل سماجی نظام پیش کرتا ہے اور حکمرانی اور معیشت
کے قوانین کے ساتھ ثقافتی و تہذیبی رویوں نیز عائلی زندگی کی بھی تربیت
کرتا ہے۔ اسلام کے نام پر کج فھم اور بے ایمان قسم کے لوگ خواہ کسی لباس
میں ہوں اپنے مادّی مفادات کی خاطر ہر تقدس کو پائمال کررہے ہیں لیکن ان کے
مادّی مفادات کا تحفظ کرنے والے وہ ہیں جن کے پاس سرمایہ ہے اور کثیر تعدار
میں ہے لہذا یہ سرمایہ دار عالمی تسلط قائم کرنے کیلئے نہ صرف مذہب کے
کمزور ایمان افراد کو استعمال کررہے ہیں بلکہ ہر شعبے میں اپنے خزانوں کو
رشوت دے کر فسادات کو فروغ دے رہے ہیں۔ عالمی حکم نامہ اگر مثبت روایات اور
شستہ تہذیب کو فروغ دے ، انسانیت کی کرامت کا قائل ہو اور سرمایہ کو مقصد
زندگی نہ سمجے تو بہت احسن فعل ہے مگر خواہ وہ مغربی جمہوریت ہو جس کو دنیا
کی اقوام پر مختلف حیلے بہانوں سے مسلط کیے جانے کی کوششیں جاری ہیں یا پھر
اشتراکی اور اشتمالی نظام ہو یہ سب اسلام کی نظر میں صرف جذاب نعرے ہیں مگر
حقیقت میں یہ انسان کے حقوق میں رکاوٹ انسانی سماج کی تباہی کے فارمولے
ہیں۔اسلام اپنے تربیتی اسلوب کے باعث جنگ و جہاد کے بھی تہذیب و ثقافت کا
حامل ہے جہاں مثلہ کرنا ( دشمن کی لاش کے ناک، کان، ہونٹ کاٹ لینا) حرام ہے
اور جنگی قیدیوں کے بھی بہت سے حقوق کا قائل ہے۔ ہمیں اسلام کے دعوے داروں
اور خود اسلام کی تعلیمات میں فرق کرنا چاہیے، اگر انسان اپنی تربیت نہ کرے
تو وہ ممکن ہے علم توحید، علم قرآن و تفسیر جاننے کے باوجود مشرک و ملحد
واقع ہوا ہو۔ لہذا اس انداز سے دیکھیں تو بہت سے مکاتیب اور مذاہب ہیں جن
کے پیرکار اپنے مذہب کی بہترین تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے اس میں ان کی
کمزوری ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تعلیمات بری ہیں۔ آج کے دور میں
اسلام بطور مذہب عالمی معاشرے کیلئے بہار کی حیثیت رکھتا ہے اور تیزی کے
ساتھ افراد کا قبول اسلام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حق چھا جانے والا ہے
اور باطل مٹ جانے والا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے افضل جہاد بے جا
خواہشات کے مقابلے پر جدوجہد کو کہتے ہیں۔ سب سے پہلے جو چیز فاسد ہوتی ہے
وہ انسانی افکار اور خواہشات ہوتی ہیں اس کے بعد پھر ایسا شخص جس جس شعبہء
زندگی سے تعلق رکھتا ہے وہاں وہاں فساد پیدا ہونے لگتا ہے، ابتدائی مرحلے
پر ایسے شخص کی تربیت مقصود ہے اور اگر تربیت کے قابل نہیں تو سزا و عتاب
کے ذریعے اس کے فساد کی بیخ کنی کی جاتی ہے۔ آج کے دور میں سیاسی معاشی
ثقافتی علمی فساد کے مقابلے پر بھرپور قوت سے جواب دینا ضروری ہے۔ کیونکہ
عالمی مسائل میں سب سے زیادہ جو چیز مہلک ہورہی ہے وہ اقتصادی قوت کی خاطر
سیاست، میڈیا، تعلیمات، مذہب وغیرہ کو استعمال کیا جارہا ہے اور ایک عرصے
سے موجود اس فاسد نظام جس میں سرمایہ داری کو دنیا کے مسائل کا مداوا بتایا
جارہاہے انتہائی مغالطے پید اکیے جارہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ
داری نے اپنے ابتدائی ادوار میں جن دعووں کو پیش کیا تھا یعنی سرمایہ داری
کے ذریعے دنیا خوش حال ہوجائے گی، ہر شخص سکھ و چین کی بنسری بجائے گا
وغیرہ ، پہلی اور دوسری عالمی جنگ جس میں کروڑوں انسان موت کے منہ میں چلے
گئے نیز دنیا میں سیاسی، معاشی، تہذیبی ، اخلاقی اور علمی مسائل بڑھتے چلے
گئے۔ لہذا سرمایہ داری نظام کے دعووں اور آج کی دنیا کی حالت دونوں سے
مقایسہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روشن خیالی کے پروجیکٹ ناکام ہوچکے
ہیں۔ تاریخی طور پر ہر مکتب و مذہب نے عالمی مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی
اپنی کوششیں انجام دے دیں مگر مسائل ختم نہیں ہوئے بلکہ بڑھتے ہی چلے گئے
اس سیناریو میں ایک مکتب یعنی مکتب اھلبیت ؑ کو بطور نظام و سسٹم ابھی تک
رائج نہیں کرنے کی صلاح دی گئی شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ واحد مکتب ہے
جو ہر طرح کے ظلم و فساد کی صرف باتیں نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر اپنے
تاریخی کرداروں سے الہام و جذبہ لیتے ہوئے عملی کردار کا حامل ہے۔ مگر یہاں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ایسے ایسے ادارے جو بظاہر امن و اتحاد و
مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ کرتے
ہیں۔چونکہ اسلام اور مکتب اھلبیت ؑ خصوصا اپنے عملی کردار سے ایسے زر
پرستوں کا دشمن ہے تو عالمی میڈیا کے خدا اس مکتب کو دہشت گرد کے طور پر
تعارف کراتے ہیں اور اس طرح مکرر یہ تبلیغات جاری ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے
لکھے لوگ اسلام کو دہشت گرد سمجھنے لگے ہیں۔ لہذا اس بیانیے کے مقابلے پر
مظلوموں کو بھی اپنے داد سر مکتب یعنی اسلام کی تعلیمات کو اسی طرح جامع
انداز سے نظریاتی اور عملی انداز میں پیش کرنا چاہیے تاکہ ظالم سرمایہ دار
اپنے مقاصد کو حاصل نہ کرسکے۔ اخلاق ہر شعبہ میں ہونے سے کارکردگی میں
بہتری آتی ہے، نظم و ضبط قائم رہتا ہے حتیٰ جنگ و جدال اور پیسے کے حساب
کتاب تک کے شعبوں میں اخلاق و تہذہب خوشحالی پیدا کرتی ہے۔ آج اقتصادی
اہداف کے حصول کیلئے مغرب نے تیسری دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اپنے
اقتصادی مقاصد کے حصول کیلئے ہر طرح کے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔
آج جدید انفارمیشن کے دور میں حقیقت حال کو دیکھا جائے تو مغرب کی طاقتیں
اسلام اور دیگر مذاہب کے مقابلے پر عالمی انسانی معاشرے کے شدید خطرات کا
باعث ہیں,انسان کے مسائل حل کرنے کے جذاب نعروں کے پس پردہ چھپے فرعونی
عزائم اور پالیسیاں دنیا کو نظر آرہی ہیں۔ یہ باتیں صرف فکری تجزیہ نہیں
ہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں کہ مغرب اس وقت عالمی انسانی سماج کیلئے ناسور
بنا ہوا ہے۔ اور 20 فیصد عالمی اشرافیہ 80 فیصد انسانوں کے استحصال میں
ملوث ہے۔
|