انسان و زمان و مکان اور قُرآن !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالدھر ، اٰیت 1 تا 22 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھل اتٰی
علی الانسان حین
من الدھر لم یکن شئا
مذکورا 1 انا خلقنا الانسان
من نطفة امشاج نبتلیہ فجعلنٰہ
سمیعا بصیر 2 انا ھدینٰہ السبیل اما
شاکرا و اما کفورا 3 انا اعتدنا للکٰفرین
سلٰسلا و اغلٰلا و سعیرا 4 ان الابرار یشربون
من کاس کان مزجھا کافورا 5 عینا یشرب بھا عباد
اللہ یفجرونھا تفجیرا 6 یوفون بالنذر و یخافون یوما
کان شرہ مستطیرا 7 ویطعمون الطعام علٰی حبہ مسکینا
و یتیما و اسیرا 8 انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء
ولا شکورا 9 انا نخاف من ربنا یوما عبوسا قمطریرا 10 فوقٰھم
اللہ شر ذٰلک الیوم و لقٰھم نضرة و سرورا 11 وجزٰہم بما صبروا
جنة و حریرا 12 متکئین فیھا علی الارائک لا یرون فیھا شمسا و لا
زمھریرا 13 ودانیة علیھم ظلٰلھا و ذللت قطوفھا تذلیلا 14 و یطاف
علیھم باٰنیة من فضة و اکواب کانت قواریر 15 کانت قواریر من فضة
قدروھا تقدیرا 16 ویسقون فیہا کاسا کان مزاجھا زنجبیلا 17 ویطوف
علیھم ولدان مخلدون اذارایتھم حسبتھم لوؑلوؑا منثورا 19 و اذا رایت ثم
رایت نعیما و ملکا کبیرا 20 عٰلیھم ثیاب سندس خضر و استبرق و حلوا
اساور من فضة و سقٰھم ربھم شرابا طھورا 21 ان ھٰذا کان لکم جزاء و کان
سعیکم مشکورا 22
اے ہمارے رسول ! کیا یہ واقعہ ایک اٙمرِ واقعہ نہیں ہے کہ آدم زاد یہ بات بُھول چکا ہے کہ اِس کی حیات پر وہ طویل المیعاد زمانہ بھی گزر چکا ہے جب یہ محض ایک زندہ وجُود تھا لیکن قابلِ ذکر وجُود نہیں تھا اور اِس کو ہم نے ارتقائے حیات کے اِس سفر میں سماعت و بصارت کا یہ جٙوہر اُس وقت دیا تھا جب یہ دو آبے کی دو طرفہ اٙمواج کی مُشترکہ یلغار سے آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزر گیا تھا اور اُس وقت ہم نے اِس کو یہ اختیار بھی دے دیا تھا کہ اٙب وہ چاہے تو ہم سے کفر اختیار کرے اور چاہے تو ہمارا شکر ادا کرے اور اُسی وقت ہم نے اِس پر یہ اٙمر بھی واضح کر دیا تھا کہ تُم میں سے جو انسان ہماری اِس قُوت و قُدرت میں کسی اور کو ہمارا شریکِ قُوت و قُدرت بنا کر ہم سے کفر کرے گا تو ہم اُس کو ایک آتشی و آہنی زمین میں لے جاکر آتش و آہن سے بنی آہنی و آتشی زنجیروں میں جکڑ دیں گے اور جو انسان ہمارا شکر ادا کرے گا تو ہم اُس کو اِس آتش گیر زمین کے بجائے اُس راحت پذیر زمین میں لے جائیں گے جہاں اُس کو پینے کے لیئے مُشک و کافور کے اٙجزا ملے اُس چشمے سے خوش ذائقہ مشوربات دیں گے جس چشمے کا پانی جس جگہ خارج ہوتا ہے دوبارہ اُسی میں جا کر داخل ہو جاتا ہے اور اُسی سے اہلِ حیات کے لیئے نئے سے نئے اٙجزائے حیات لاتا اور اُن نہروں تک پُنہچاتا ہے جن کے اٙطراف میں اللہ کے وہ شکر گزار بندے پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ اللہ کے وہ شکر گزار بندے ہوتے ہیں جو یومِ حساب کی جواب دہی کے لئے اللہ سے جن اعمالِ خیر کا وعدہ کرتے ہیں اُن اعمالِ خیر کو اٙنجام دیتے ہوئے اللہ سے اپنے ظہارِ تعلق و اظہارِ محبت کے لئے بستی کے مسکینوں اور یتیموں تک سامانِ خورد و نوش پُہنچاتے ہیں اور اپنے اِس عملِ خیر کے بدلے میں اللہ کی رضا کی سوا کُچھ بھی نہیں چاہتے ہیں اور اللہ اِن کو اعمالِ شر سے بچا کر اور اعمالِ خیر پر لگا کر اِن پر اپنی خوشنُودی کا اظہار کرتا ہے اور یہ لوگ قیامت کے خوف اور سختی سے بچاکر ایک نئی سرشاری سے سرشار کردیئے جاتے ہیں اور اِن کو بیٹھنے اُٹھنے کے لیئے وہ باغات دیئے جاتے ہیں جن کے درختوں کے پٙھل اور سائے اِن پر چھائے ہوئے اور اِن کو سردی و گرمی کے احساس سے بچائے ہوتے ہیں اور اِن کی خاطر داری پر جو اہلِ جنت مامُور ہوتے ہیں اُن کو بچپن اور بڑھاپے کے اٙدوار سے نکال کر جوانی کے اُس دور میں داخل کیا ہوا ہوتا ہے جس دور میں اُن کی حرکت و عمل کی پُھرتی و تیزی بکھرنے والی جگہ پر تیزی سے بکھرنے والے موتیوں کی طرح تیز ہوتی ہے اور وہ ہر طرف پھیل پھیل کر اہلِ خدمت کی خدمت بجا لاتے ہیں ، جب آپ اُن کی خدمت گزاری کو دیکھیں گے تو بٙس دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جائیں گے ، اہلِ جنت کے یہ خدمت گزار بذاتِ خود بھی اپنے عطا کار کی ہر عطا کے حق دار ہوں گے جن کو سرد موسم میں موٹی سبز رنگ اور گرم موسم میں باریک سبز رنگ ریشمی پوشاک عطا کی جائے گی اور اِن کو بھی دُوسرے اہل جنت کی طرح جسمانی آرائش کا سامان مُہیا ہو گا اور اِن کو بھی دُوسرے اہلِ جنت کی طرح جنت کے وہ رُوح پرور مشروبات ملیں گے جو دُوسرے اہلِ جنت کو ملیں گے اور اِن کو کہا جائے گا کہ یہ تُم پر کی گئی محض ایک مہربانی نہیں ہے بلکہ یہ تُمہارے اعلٰی اعمال کی ایک اعلٰی قدر دانی پے جو تُمہارے ساتھ کی گئی ہے اِس لیئے کہ اللہ کی اُس جنت میں اہلِ جنت آقا و غلام کے درجوں میں تقسیم نہیں ہوں گے بلکہ وہ محبت و مہربانی کے اُس اعلٰی نظام کے تابع ہوں گے جس اعلٰی نظام کے تحت وہ اسی طرح پر اٙدل بٙدل کر ایک دُوسرے کے لیئے یہ اعلٰی خدمات اٙنجام دیا کریں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا ایک نام سُورٙةُالانسان ہے جس سے مُراد زمین کی وہ ذی شعور ہستی ہے جو اپنی تخلیقِ ذات اور اپنے اتقائے حیات کو بالکُل اسی طرح بُھول چکی ہے جس طرح کہ وہ اپنی پیدائش سے پہلے اپنے اٙیامِ رحمِ مادر اور اپنی پیدائش کے بعد اپنے اٙیامِ شیر خوارگی کو بالکُل بُھول چکی ہے اور اِس سُورت کا دُوسرا نام سُورٙةُالدھر ہے جس سے مُراد زمین کی وہ ذی شعور ہستی ہے جو اپنی حیات و ارتقائے حیات کے وہ زمان و مکان بھی اسی طرح بُھول چکی ہے جس طرح وہ ہستی اپنی پیدائش سے پہلے اپنی تخلیق و تجسیم کے اٙیام و ماہ کو اور اپنی پیداِش کے بعد اپنی شیر خوارگی اٙیام و ماہ کو بالکُل بھول چکی ہے تاہم اِس کی حیاتِ رفتہ کی کُچھ دُھندلی دُھندلی یادیں کبھی کبھی اِس کے لاشعور سے شعور میں خود بھی آتی رہتی ہیں اور کُچھ باتیں اِس کو اٙنبیائے کرام پر نازل ہونے والی اِس تنزیلِ حق کے ذریعے بھی یاد دلائی جاتی ہیں تاکہ اِس کو اپنے وہ وعدے وعید یاد آتے رہیں جو اُس نے مُختلف زمان و مکان میں اپنے خالق کے ساتھ کیئے ہیں اِس لیئے اِس سُورت کا پہلا مضمون انسان اور زمان و مکان ہے تو دُوسرا مضمون قُرآن ہے اور اِس اعتبار سے اِس سُورت کا موضوعِ سُخن بھی وہی ہے جو سُورٙہِ رٙحمٰن کا موضوعِ سُخن ہے ، فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ سُورٙہِ رحمٰن میں تعلیمِ قُرآن کا ذکر پہلے ہوا ہے اور انسان کا ذکر اُس کے بعد میں ہوا ہے جب کہ اِس سُورت میں انسان کا ذکر پہلے ہوا ہے اور قُرآن کا ذکر انسان کے بعد میں کیا گیا ہے ، اسی طرح اِس سُورت کے اِن مضامین اور سُورٙہِ رحمٰن کے اُن مضامین کے درمیان دُوسری مشابہت یہ ہے کہ جس طرح سُورٙہِ رحمٰن کے پہلے اور آخری مضمون کے درمیان یومِ حساب و جنت و اہلِ جنت کا ذکر کیا گیا ہے اسی طرح اِس سُورت کے پہلے اور آخری مضمون کے درمیان بھی یومِ حساب و جنت و اہلِ جنت کا ذکر کیا گیا ہے ، اِس لحاظ سے اگر سُورٙہِ رحمٰن اِس موضوع کا پہلا مُفصل بیانیہ ہے تو یہ سُورتِ انسان اِس موضوع کا دُوسرا مُجمل بیانیہ اور سُورٙةُالاِنفطار اِن دو سُورٙتوں کا ایک مُختصر بیانیہ اور سُورٙةُالعصر اِن تین سُورتوں کا ایک مُختصر ترین بیانیہ ہے ، اِس سُورت کے اِن مضامین سے اہلِ روایت نے انسان کا جو ارتقائے حیات مُراد لیا ہے وہ انسان کا جسمانی ارتقائے حیات ہے اور اُن کے اِس جسمانی ارتقائے حیات کے سارے فلسفے کی اِساس اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں وارد ہونے والا لفظی مُرکب { نُطفہِ اٙمشاج } ہے جس کے بارے میں اہلِ روایت کہتے ہیں کہ اِس سے مُراد مرد و زن کے نطفے کا اجتماع ہے جس سے انسان سمع و بصر کا مالک بنا ہے اور اسی سمع و بصر کے استعمال کے حوالے سے وہ اپنے اعمال کا جواب دہ بھی ہے لیکن اگر یہ لا یعقل بات درست مان لی جائے تو رُوئے زمین کی ہر مخلوق کی تخلیق کو اِس { نطفہِ اٙمشاج } کے بغیر اور صرف انسان کی تخلیق کو اِس { نطفہِ اٙمشاج } کے ساتھ تسلیم کرنا لازم ہو گا اور اِس صورتِ میں نطفہِ اٙمشاج سے پیدا ہونے والے دیگر جانداروں کو بھی اُسی سمع و بصر کا مالک سمجھا جائے گا جس سمع و بصر کا مالک انسان ہے اور ہر جاندار کو اعمالِ حیات کا بھی اسی طرح جواب دہ سمجھا جائے گا جس طرح انسان اپنے اعمالِ حیات کا جواب دہ ہے لیکن یہ بات کم اٙز کم اِس وقت تک تو خلافِ عقل و خلافِ واقعہ ہی سمجھی جاتی ہے اور سمجھی جانی چاہیئے ، زبان و لُغت کے اعتبار سے نطفة کا معنٰی کم رفتار سے بہنے والا پانی ہوتا ہے جس کا پہلا معنوی اطلاق سمندر کے پُرسکون و پُر سکوت پانی پر ہوتا ہے اور اِس کا دُوسرا استعمال اگرچہ مرد کے جسم سے خارج ہونے والے مادہ تولید پر بھی ہوتا ہے لیکن جہاں پر اِس کا اِس معنی میں استعمال ہوتا ہے وہاں پر اِس کے اِس استعمال کا وہ قرینہِ استعمال بھی موجُود ہوتا ہے جو اِس سُورت کی اِس اٰیت میں موجُود نہیں ہے کیونکہ یہاں پر موجُودہ انسان کے موجُودہ اٙحوال کا ذکر نہیں ہے بلکہ اِس کے اُس زمانے کا اٙحوال ہے جس کو وہ فراموش کر چکا ہے اور چونکہ ہر زندگی کا آغاز سمندر سے ہوا ہے اور ہر زندگی سمندر سے گزر کر زمین پر آئی ہے اِس لیئے اِس خاص پس منظر میں اِس سے انسانی ارتقائے حیات کا وہ لٙمحہِ خاص مُراد ہے جس لٙمحہِ خاص میں انسان کے اٙجزائے حیات سمندر کے دو آبے سے گزر کر ساحلِ سمندر تک آئے تھے اور پھر اُس ساحلِ حیات پر آنے کے بعد انسان اُس سمع و بصر سے آشنا ہوا تھا جس سمع و بصر کا اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں ذکر ہوا ہے ، اسی طرح ذکرِ جنت و اہلِ جنت میں جن { ولدان } کا ذکر ہوا ہے وہ بھی اہلِ جنت کے غلام نہیں ہوں گے بلکہ وہ خود بھی وہ اہلِ جنت ہوں گے جن کی زندگی سے بچپن اور بڑھاپے کو نکال کر اُن کی عمر کو جوانی کی عمر پر روک دیا جائے گا اور اُن کی زندگی پر کیا جانے والا یہ عمل بھی اُن اہلِ جنت کی خواہش کے مطابق کیا جائے گا اور یہ وہی جنتی نوجوان ہوں گے جو اہلِ جنت نظامِ جنت کے مطابق کبھی ایک دُوسرے کی خدمت پرمامُور ہوں گے اور کبھی وہ ایک دُوسرے کی مخدومیت سے لُطف اندوز ہوں گے اور اِس سلسلہِ کلام کی آخری بات یہ ہے کہ انسان کا اگرچہ اِس کے ابتدائی حیاتیاتی خلیئے سے لے کر اِس کے اِس انتہائی ترقی یافتہ وجُود تک ایک ارتقاء ہوتا رہا ہے لیکن اِس سُورت کے اِس موضوعِ سُخن میں انسانی جسم اور اِس کے اعضا کی حیثیت محض اُس گواہ کی ہے جس نے اپنے اندر کے اُن تین حقیقی انسانوں کے اُن اٙحکام کی گواہی دینی ہے جو اٙحکام وہ اِس کو دیتے رہے ہیں اور جو اِس جسم سے اپنی مرضی کے مطابق جائز و ناجائز کام لیتے رہے ہیں ، اُن میں تُو اور مٙیں کہلانے والے اُن تین انسانوں میں سے ایک انسان نفسِ امارہ ہے جو جسم سے بدی کے کام لیتا ہے ، دُوسرا انسان نفسِ لوّامہ ہے جو جسم کو بدی کے کام سے روکتا ہے اور تیسرا انسان وہ نفسِ مُطمئنہ ہے جو خود بھی جنت میں جانا چاہتا اور اِس جسم کو بھی اپنے ساتھ جنت میں لیجانا چاہتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455342 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More