پروانے شمع سے جلتے ہیں

میری تحاریر پر بعض اوقات یہ اعتراض سامنے آتاہے کہ مشکل مفہوم کے ساتھ پیچیدہ طرز تحریر اختیار کرتا ہوں ۔ جسے پڑھنے پر بعض اوقات ایسے جوابات سے بھی نوازا جاتا ہے " پیچ در پیچ اتنی پیچیدہ تحریر واللہ بندہ سمجھنے کے چکر میں پیچاں پیچ ہوجائے " ۔ اگراس کے ساتھ نصیحت بھی ہو تو مشورہ مفت دل بے رحم سے کم نہیں ہوتا ۔ اسی لئے اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر لکھنے پر کمر بستہ ہوں ۔ اب اگر شکوہ نہ جائے تو ہمیں ضرور توبہ کرنی چاہئے قاری کو پڑھنے سے اور مجھے ایسی سوچ رکھنے پر ۔

کیونکہ میرے سیاسی عزائم نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ نا عاقبت اندیشی سیاست میں کسی کام کی نہیں ۔ سیاستدان ہمارے کسی کام کے نہیں ۔ اب اگر ذوالفقار علی بھٹو بحیثیت سیاستدان یا وزیراعظم مجھے پسند ہے تو اس کی خاص وجہ یہ کہ زندگی میں ایک بار بغیر امتحان دئیے ساتویں سےآٹھویں جماعت میں پہنچ گئے تھے ۔کیونکہ نو ستارے مل کر الیکشن میں اپنے انتخابی نشان ہل جو کہ کسان کی محنت اور قوت کی غمازی ہے کے بل پر بھی ملک میں جمہوریت کی کھڑی فصل کو نہ بچا سکے ۔ اور بھٹو اپنی جان کو ۔

حکمرانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلی گئی اور اپوزیشن نئی حکومت کے پیچھے کے دروازے پر ۔ دونوں کو آخر کیا ملا ۔ ایک کو موت تو دوسری اپنی موت آپ مر گئی ۔ کیونکہ وہ آج بھی صرف ایک اپوزیشن کا ہی کردار نبھانے میں ماہر سمجھی جاتی ہے ۔جسے عوامی اعتبار حاصل کبھی نہیں ہوا ۔ لیکن امید بھی ختم نہیں ہوئی ۔علامہ اقبال کے اس شعر پر ابھی تک کامل یقین رکھتے ہیں کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ۔

مٹی زرخیز ہو بھی تو کیا ۔ہل چلانے والے ہی انجان اور نا تجربہ کار ہوں ۔ بنا محنت کے ہی فصل کاٹنے کے لئے بیتابی مہماناں کو جاناں تصور بنا کر رکھتے ہوں تو ایک کیا صدیاں تو تین بھی نا کافی ہوں گی ۔ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہو ۔ تو پھر ہاتھی میرا ساتھی نہیں ہوتا ۔

ان میں سے ہی بعض تو ایسے قد کاٹھ رکھنے والے قائد تھے ۔ کہ دل جلے پھبتی کستے کہ پوری پارٹی ایک ہی تانگہ پر پوری بیٹھ سکتی ہے ۔ اب بھلا تانگہ پر بیٹھ کر ایوان تجارت تک جانے کا راستہ نہیں رہا تو ایوان صدارت تک تو کجا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ اسلام آباد میں کئی بار اس راستے سے گزر کر قیاس کیا کہ کیسے یہاں تک پہنچنا آسان ہو سکتا ہے ۔ لیکن جہاں سے گزرنا میرا تھا وہاں سے تو روزانہ ہزاروں لوگوں کا گزرنا رہتا ہے ۔پھر ایک خیال دل میں آیا کہ جسے ہم اندر جانے کا راستہ سمجھتے ہیں دراصل وہ باہر آنے کا راستہ ہے ۔ اندر جانے کے لئے کسی دروازے کی نہیں ایک گہری سرنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ نکلتی کہاں سے ہے کسی کو معلوم نہیں ۔ جاتی کہاں ہے سب ہی جانتے ہیں ۔

حیدرآباد میں کوئلہ کی کانوں میں جو سرنگیں مجھے دکھائی گئی تھیں ۔ وہ تو ایک ہی کنویں سے چاروں اطراف پھیل جاتی تھیں اور کوئلہ نکال نکال کر اس کنویں سے باہر لایا جاتا اور ضرورت مندوں تک پہنچا بھی دیا جاتا ۔ لیکن یہ فارمولہ ہر جگہ اپلائی نہیں ہوتا ۔ضرورت مند تو وہ بھی بہت تھے جن کے گھروں پر سویت یونین نے یلغار کی تھی ۔ اور وہ خیمہ بستیوں میں پناہ لئے بارڈر کے اس طرف خیموں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ اور ان کے لئے بھیجا گیا ہالینڈ کا اعلٰی گھی ان کے ہاتھوں سے صرف پانچ سو میل دور شہروں میں دوکانوں کے باہر ڈھیر کی صورت سستے داموں بیچنے کے لئے موجود تھا ۔ ایسا ولائتی گھی دیہات میں گھروں میں نکالے جانے والے دیسی گھی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ۔ کالج یونیورسٹیز میں مجاہد عام دیکھے جا سکتے تھے ۔ نوجوانوں میں کمانڈو جیکٹ کا شوق دیدنی تھا ۔ بعض نے تحقیق پر پتہ چلایا کہ لنڈے بازار سے دو سو پاکستانی روپے میں امریکن کمانڈو جیکٹ دستیاب ہے ۔ مقصد کتنا بھی عظیم کیوں نہ ہو جب نیت میں کھوٹ ہو وہ مراد بر نہیں آتی ۔

صرف جیکٹ یا یونیفارم پہن لینے سے ہر ڈیوٹی پوری نہیں ہوتی اور نہ کوئی ڈگری ہاتھ لگتی ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نکاح کا کاغذ بیوی کے ساتھ رکھنا ضروری تھا ۔ ڈیوٹی ادا کرنے والے نانی تک یاد کروا دیتے تھے ۔ کیونکہ شوہر و بیوی کو اپنا نکاح سچ ثابت کرنے کے لئے الگ الگ عزیز رشتہ داروں کے نام بتانے پر جان چھوٹنے کا سرٹیفیکیٹ جاری ہوتا ۔

وقت ا ور حالات کبھی یکساں نہیں رہتے ۔ ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ۔ منہ سونگھنے سے بھی کئی دفعات نافذالعمل ہوجاتی تھیں ۔بعد کا ایک وقت وہ بھی گزرا جب سونگھنا ایک اچھا فعل نہیں مانا جاتا تھا ۔ کیونکہ یہ آزادی حق کلام سے ہاتھ دھونے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ۔ کیونکہ صرف بات کرنے سے ذہنی فتور کےپکڑے جانے کا اندیشہ تھا ۔

لیکن جن کے بات کہنے سے پوری قوم کی نمائندہ اسمبلی گھر وں کو روانہ ہو گئی ۔ انہیں صرف اتنی تنقید کا سامنا رہا کہ جو منہ سے بادام نہیں توڑ سکتے انہوں نے اسی منہ سے اسمبلی توڑ دی ۔ لیکن ذہنی فتور پکڑنے کا کسی کو خیال کبھی نہیں آیا ۔خیال تو ان سیاسی بازیگروں کو بھی نہیں آیا جب مینار پاکستان پر جلسہ غیر منتخب حکمرانوں کا ہو بسیں بھر بھر سرکاری ملازم لائیں جائیں ۔ اور جھنڈے اُٹھائے ان کے پارٹی ورکر اپنے اپنے قائدین کے وزیراعظم ہونے کا خود ہی ڈھنڈورا پیٹتے رہیں ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو پٹتے ہیں وہ قائدین کی صفوں میں شامل نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ قائد وہ ہوتا ہے جو پٹوا سکے نہ کہ خود پٹتا پھرے ۔ تاریخ شاہد ہے صرف ہماری کہ جن کے سر پھٹے وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے"روز ہوتا ہے ایک نیا تماشا میری نظروں کے سامنے " دیکھتے رہے ۔

مصر تیونس میں سر تو ضرور پھٹے جانیں بھی گنوائی گئیں مگر آنکھیں پوری کھل چکی ہیں ۔ اب لیبیا اور اس کے بعد شام میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے حکمران "روز ہوتا ہے ایک نیا تماشا میری نظروں کے سامنے " دیکھ رہے ہیں ۔ امیدیں تو کچھ مہربانوں کو یہاں بھی ہیں ۔ عوام نے کئی بار نئی امید سے کبھی ایک کبھی دوسرے کو کندھوں پر بھٹا کر سر کا تاج بنایا ۔ مگر وہ تاج ور نہ بن سکے ۔ محتاج ہی رہے امداد کے ، سہارے کے ۔

جو حکمران خود محتاج ہوں ۔عوام سے ووٹوں کی بھیک مانگ کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کے اہل ہوئے ہوں ۔ ایسے اخلاقی طور پر مرے ہوئے دوبارہ مرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔

جن کے پاس انقلاب کے ارادے ہیں ۔ ان کے پاس عوام نہیں ۔ جن کے پاس عوام ہیں انہیں سوچنے کی فرصت نہیں ۔سالہا سال وہ جلا وطنی کے دور میں تنہا سوچ سوچ کر اب کسی نئی سوچ کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔
گھر کی مرغی دال برابر کی مثال تو سن رکھی ہے ۔ مگر ملک میں لیڈر بھی مرغ برابر ہی رہتا ہے ۔ جو وقت بے وقت ہڑتال ، ریلی کی بانگ دیتا رہتا ہے ۔

قوم کی ہمدردی کی عرق ریزی وہ کامیابی سے کرتے ہیں جو جلا وطن ہوں چاہے خود ساختہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ اس بات پر یقین کرنے کے علاوہ کیا چارہ ہے ۔ اگر نہیں تو خود ہی دیکھ لیں تین بڑی حکمران پارٹیاں تینوں کے رہنما جلا وطن ہیں یا رہ چکے ہیں ۔

لیڈرجلا وطن ہوتے ہیں توحکمران بنتے ہیں ۔

عوام وطن کو جلا بخشتے ہیں ۔تو جلادوں کے ہاتھوں پٹتے ہیں ۔جیسے پروانے شمع سے جلتے ہیں ۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96152 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.