آج کل معاشرے میں تبدیلی کا بہت شہرہ ہے۔ حکمرانوں سے لے
کر تعلیمی اداروں تک سب تبدیلی کے خواب دکھا کر وعدے کرتے ہیں۔ اپنی آنکھوں
کے سامنے پچھلے دس پندرہ سالوں میں ہم سب ایک بڑے سکرین(ٹی وی) سے چھوٹی
سکرین پر شفٹ ہو گئے، گھر کے مشترکہ فون سے موبائل فون پر تبدیل ہوگئے، اور
کتاب سے سوشل میڈیا کی طرف راغب ہو گئے ۔
سو میں جب یہ ساری تبدیلیاں ذات، خاندان اور معاشرے میں دیکھتی ہوں تو میرا
دل چاہتا ہے کہ ایسی ذات میں، اظہار کے ان طریقوں میں، اس ذہنی فکر کی
آبیاری میں کچھ تبدیلی لاؤں۔
اردو زبان بولنے والے کی حیثیت سے مجھے یہ لگتا ہے کہ اردو ادب چاہے وہ نثر
کی شکل میں ہو، ناول کی، نظم کی یا غزل کی، میرے اظہار اور سوچ کے انداز کو
مضبوط کرتی ہے۔
تھوڑی دیر کے لئے زندگی کی مشکلات کو بھلا کر مزاحیہ کہانیوں سے لطف اندوز
ہونا، مختلف ملکوں کی روایات سے متعارف ہونا، اور اخلاقی اسباق و ہدایات سے
روشناس ہونا وہ تجربہ ہے جس کا اندازہ اسے ہی ہوگا جس نے اس دریا میں
تیراکی کی ہو۔
ایک عام انسان کے لئے اپنے جذبات کو الفاظ کا روپ دینا اتنا آسان نہیں ہوتا
مگر اردو ادب کو پڑھنے والے اپنے جذبات کی ترجمانی اور عکاسی انتہائی لطیف
پیرائے میں آسان، مختصر اور جامع انداز میں کر دیتے ہیں
غالب کا ادب برائے ادب ہو یا اقبال کا ادب برائے زندگی، ان کی ندرت خیالی
کا ثبوت دیتے ہر لفظ نے ہمیں انسانوں سے جڑنا سکھایا، بنا الفاظ کے ایک
دوسرے کو سمجھنا سکھایا، اور سب سے بڑھ کر ہمیں سوچنے کا نیا اسلوب سکھایا۔
|