اب سے محض چند روز بعد کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی)
کی 20 ویں قومی کانگریس بیجنگ میں منعقد ہو گی۔آج سے تقریباً ایک دہائی قبل
سی پی سی کی نو منتخب قیادت نے سی پی سی کی 18 ویں مرکزی کمیٹی کے پہلے کل
رکنی اجلاس کے بعد بیجنگ کے عظیم عوامی ہال سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ان دس
سالوں میں صدر شی جن پھنگ کی قیادت میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی کے حامل
ملک نے اپنی تیز رفتار ترقی سے دنیا کو حیران کر دیا ہے اور دنیا کی دوسری
بڑی معیشت کے طور پر چین بڑھتی ہوئی تبدیلیوں اور عالمی چیلنجوں کے دور میں
، دنیا میں خوشحالی ،استحکام اور ترقی میں ایک ستون کا کردار نبھا رہا
ہے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران شی جن پھنگ کی قیادت میں ایک جانب جہاں چین
پرامن ترقی کی راہ پر گامزن رہا ہے وہاں اُس نے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے
لیے بھی خود کو وقف کیے رکھا ہے۔
سنہ2013 میں چینی صدر نے قازقستان اور انڈونیشیا کے اپنے دوروں میں سلک روڈ
اکنامک بیلٹ اور 21 ویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ کی تجویز پیش کی تھی۔یوں
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) نے عملی شکل اختیار کی ، جو آج دنیا میں
رابطہ سازی کا سب سے بڑا پلیٹ فارم کہلاتا ہے۔نو سالوں میں، اس اقدام نے
شراکت داری کو نمایاں حد تک مضبوط کیا ہے، رابطے کو فروغ دیا ہے اور دنیا
بھر میں مشترکہ ترقی کو آگے بڑھایا ہے. چین اور بی آر آئی میں شریک تقریباً
150 ممالک کے درمیان سالانہ تجارتی حجم 2013 میں 1.04 ٹریلین امریکی ڈالر
سے بڑھ کر 2021 میں 1.8 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو آٹھ سالوں میں 73
فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہے۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس اقدام سے
عالمی سطح پر 7.6 ملین افراد کو انتہائی غربت سے نکالنے اور 32 ملین افراد
کو معتدل غربت سے نکالنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کی اہم ترجیحات
میں سے ایک عالمی گورننس کی بہتری بھی ہے۔ کووڈ۔ 19 وبا ، علاقائی تنازعات
، عالمگیریت کے خلاف رد عمل اور دیگر پیچیدہ عوامل ایک دوسرے کے ساتھ جڑ
رہے ہیں اور امن ، سلامتی ، اعتماد اور گورننس میں مسائل بڑھتے جارہے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں مختلف مواقع پر چینی صدر نے اس بات
پر زور دیا کہ مختلف عالمی مسائل کا حل حقیقی کثیر الجہتی اور اقوام متحدہ
پر مبنی بین الاقوامی نظام کے ساتھ ساتھ ایک نئی قسم کے بین الاقوامی
تعلقات قائم کرنے کی مشترکہ کوششوں میں مضمر ہے۔ جس میں باہمی احترام،
مساوات اور انصاف،سودمند تعاون، اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی
تعمیر شامل ہے۔
اسی وژن کی روشنی میں چین، گزشتہ برسوں کے دوران، انسداد وبا، غربت میں کمی،
موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات،قیام امن اور ایک کھلی عالمی معیشت کی تعمیر
جیسے بین الاقوامی امور میں فعال طور پر شریک رہا ہے. چین نے خود کو عالمی
امن کا معمار، عالمی ترقی میں شراکت دار، بین الاقوامی نظام کا محافظ اور
عوامی فلاح و بہبود کا علمبردار ثابت کیاہے۔بلاشبہ ایک مزید منصفانہ اور
موثر عالمی گورننس کی تشکیل کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے
کہ چین اس مقصد کے لیے دیگر ممالک بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر
مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)، جو دنیا کی سب
سے بڑی اور سب سے زیادہ آبادی کی حامل علاقائی تنظیم ہے، اس بات کی ایک
اچھی مثال ہے کہ چین کیسے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر نئی قسم کے بین
الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ ایس سی او کے رکن ممالک
اپنی 21 سالہ تاریخ میں سلامتی، معیشت اور تجارت، صحت عامہ اور ثقافت سمیت
مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تنظیم عالمی
گورننس کو بہتر بنانے اور استحکام اور ترقی کو فروغ دینے میں ایک تعمیری
قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ کو اس بات کا سہرا بھی جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا کی
مشترکہ امنگوں کے حوالے سے اپنی گہری بصیرت کے ساتھ ، گلوبل ڈویلپمنٹ
انیشیٹو اور گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو پیش کیے ہیں ، جس سے عالمی امن و
استحکام اور ترقی و خوشحالی کے لیے چینی دانش کے تحت نمایاں مدد ملے گی۔چین
آج بھی بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے تصور پر عمل کرتے ہوئے
حقیقی کثیر الجہتی کے تحفظ ، مستحکم عالمی سپلائی چینز کو برقرار رکھنے ،
آزاد تجارت اور سرمایہ کاری کو آسان بنانے ، اور سبز اور کم کاربن ترقی کو
آگے بڑھانے کے لئے باقی دنیا کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ایک کھلی عالمی
معیشت کے لئے مضبوط حمایت سے لے کر کاربن میں کمی اور کاربن نیوٹرل کے لئے
اپنے پختہ عزم تک ، چین نے ہمیشہ عملی اقدامات سے خود کو دنیا کا گلوبل
لیڈر منوایا ہے۔یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی آئندہ
20 ویں قومی کانگریس چین کی ان عالمی قائدانہ صلاحیتوں کو مزید آگے بڑھانے
میں ایک اہم سنگ میل اور مضبوط کڑی ثابت ہو گی۔
|