بہت پہلے اپنے بچپن ہی سے ہم اپنے بڑوں سے ایک بات سنتے
تھے کہ دو باراتیں ایک ساتھ گھر پر آنا اچھا نہیں ہوتا اسی طرح دو باراتوں
کا ایک ساتھ گھر سے نکلنا بھی نحوست کا باعث ہوتا ہے ۔ جب ذرا سمجھ آئی تو
ہم نے کئی گھرانوں میں دو بہنیں بلکہ کہیں تو تین بہنیں تین سگے بھائیوں سے
بیاہی ہوئی دیکھیں ۔ اب یہ تو نہیں معلوم کہ وہ شادیاں کس ترتیب سے ہوئیں
مگر پھر بعد میں ہمیں ایسی ہی کئی شادیوں میں شرکت کا اتفاق ہؤا کہ دو
بہنوں کی ایک ہی روز ایک ہی گھر سے دو بھائیوں کی یا پھر کہیں الگ الگ
گھروں سے دو باراتیں آئیں ۔ مگر ایک شادی بہت ہی انوکھی تھی جس میں دو
بہنوں کا ایک ہی گھر میں دو بھائیوں سے رشتہ طے ہؤا ۔ شادی کی تقریب ایک ہی
دن رکھی گئی ۔
بارات والے دن دونوں دلہنوں کے سٹیج بالکل الگ الگ بنائے گئے ۔ پہلے بڑی
بہن کی بارات آئی جھٹ پٹ نکاح ہؤا اور اس کے فوراً بعد دولہے کے والدین اور
کچھ قریبی عزیز واپس گھر لوٹ گئے جو بہت زیادہ دور واقع نہیں تھا ۔ وہاں
چھوٹا بھائی دولہا بنا ہؤا اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی بارات کی روانگی کا
منتظر تھا ۔ پھر اس کی بارات آئی نکاح ہؤا کھانا کھل گیا اس کے بعد رسومات
کا سلسلہ شروع ہؤا ۔ دونوں جوڑوں کو ہنوز الگ الگ ہی بٹھایا گیا پہلے بڑی
بہن کو نمٹایا گیا اور اس کی رخصتی ہو گئی ۔ اسے گھر چھوڑ کر دولہے والے
واپس آئے اور چھوٹی بہن کی رخصتی ہوئی ۔ یہ ساری ڈرامے بازی دیکھ کر ہمارے
دل میں یہی خیال آ رہا تھا کہ جب اتنا ہی وہم تھا تو دونوں شادیاں ایک ہی
دن رکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بات اگر اخراجات کی تھی تو پہلے بڑے لڑکے
اور لڑکی کی شادی ہو جاتی پھر اس کے ایک دو سال بعد چھوٹی لڑکی اور لڑکے کی
کرتے ۔ ویسے بھی عمروں میں بھی اتنا تو فرق ہو گا ہی ۔ اگر سال دو سال
چھوٹی بہن یا بھائی کی شادی بھی بڑے بھائی سے ایک دو سال بعد ہوتی تو اس
میں ہرج ہی کیا تھا ۔ ایک ساتھ ہی کرنا ایسا کیا ضروری تھا جب کسی نحوست یا
بد شگونی کا اتنا ہی خوف تھا ۔
خیر بعد میں معلوم ہؤا تھا کہ وہ دونوں بہنیں اپنی چھوٹی بہن کو بھی اپنے
دیور کے لئے بیاہ کر لے گئی تھیں ۔ سسرال میں بحیثیت مجموعی ان کی زندگی
کافی اچھی تھی اور اس بات کا کریڈٹ اسی حکمت عملی کو دیا جاتا تھا جس کے
تحت دو باراتیں ایک ساتھ نہ تو گھر پر آئیں اور نہ ہی ایک ہی وقت میں روانہ
ہوئیں ۔ الگ الگ رخصتی کے بعد انہیں وہاں بھی الگ الگ بٹھا کر رسومات ادا
کی گئیں ۔ ولیمے والے روز جانے کیا ہؤا اس کا ہمیں علم نہیں ہو سکا ورنہ ہم
اس کے بارے میں بھی ضرور لکھتے ۔
(رعنا تبسم پاشا)
|