اندرونی اور بیرونی مار

جوں جوں وقت گذر رہا ہے ہم مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں آنے والا دور کیسا ہوگا اور ہم کیسے زندہ رہیں گے وہ اس مقامی اور انترنیشنل رپوٹ سے بخوبی اندازہ ہو جائیگاخاص کر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی زندگی کہاں تک ان مصائب کو برداشت کرسکے گی جو ہم پر نازل ہونے والے ہیں اقوام متحدہ کی چونکا دینے والی اس رپورٹ کا میں بعد میں ذکر کرونگاجو ہمیں بیرونی خطرے سے خبرادر کررہی ہے پہلے محکمہ داخلہ کی رپورٹ کا ذکر کرونگا جسکے مطابق ہماری جیلوں کا کیا حشر ہو گیا ہے جسکی وجہ سے ایک ملزم جب رہا ہوتا ہے تو پھر وہ مجرم کیسے بن جاتا ہے حالانکہ جیل میں جاکر انسان کو اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ ہونے کے بعد اپنی آئندہ کی زندگی کسی بھی جرم کے بغیر گذارنے کا عہد کرنا چاہیے مگر جیل کا عملہ ہی اصل میں وہ خرابی کی جڑ ہے جو جیل کواصلاح کا گھر بنانے کی بجائے جرائم کی یونیورسٹی بنانے میں مصروف ہے ابھی دو روز قبل محکمہ داخلہ کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جسے پڑھ کر بہت سے افراد حیران و پریشان بھی ہوئے مگر مجھے اس پر حیرانگی بلکل نہیں ہوئی کیونکہ یہی باتیں میں عرصہ دراز سے اپنی تحریروں میں لکھ رہا ہوں جہاں اچھے کام ہوئے انکی تعریفیں بھی کھل کرکی مگر جہاں جہاں خامیاں ہیں انکی نشاندہی بھی برملا کرتا رہا ہوں ابھی سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی کے بعد ڈسڑکٹ جیل اٹک کے حوالے سے بھی صوبائی انٹیلی جنس سینٹر محکمہ داخلہ پنجاب کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے اسکے مطابق ملاقاتی خواتین کو ہراساں کرنے سمیت کئی دیگر بدترین جرائم کا انکشاف ہوا ہے اٹک جیل میں ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے علاوہ جیل سپرنٹنڈنٹ ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت 8اہل کاروں کا مبینہ رشوت خوری میں ملوث ہونے کابھی انکشاف ہے جیل میں اسیر منشیات فروش جن پر مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں وہ خواتین کے ذریعے منشیات جیل میں منگواتے ہیں منشیات جیل کی کینٹین پر منگوائی جاتی ہے جسے جیل کا اہلکار وہاں سے اندر پہنچاتا ہے جیل کیاندر منشیات فروشی میں ملوث عناصر اس قدر بااثر ہیں کہ وہ بے خوف ہوکر دھڑلے سے کام کرتے ہیں جیل میں ہر قسم کی منشیات مہنگے داموں دستیاب ہے جب کہ لنگر خانے پر بھی رشوت لی جاتی ہے جہاں تقریبا 100اسیران تعینات کیے گئے ہیں مگر 70 ایسے ہیں جو 5ہزار فی کس ماہانہ دے کر مشقت نہیں کرتے اور ان کی جگہ غریب اسیران سے مشقت کروائی جاتی ہے جیل میں مریضوں کو چند ادویات ہی دی جاتی ہیں دیگر ادویہ کی ضرورت ہو تو ڈاکٹر سے لکھوا کر باہر سے منگوائی جاتی ہیں غریب اسیران کوجیل میں کوئی سہولت میسر نہیں جیل میں اسیران سے ملاقات کے لیے دن مقرر ہیں تاہم ملاقاتی کی حیثیت دیکھ کر 500سے 2ہزار روپے وصول کرکے کسی بھی دن ملاقات کروادی جاتی ہے جب کہ صاحبِ ثروت افراد 10ہزار روپے تک دے کر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں روبرو ملاقات کرسکتے ہیں یہ کوئی عام رپورٹ نہیں بلکہ محکمہ داخلہ کی سرکاری رپورٹ ہے اور یہ صرف ایک جیل کا قصہ نہیں یہاں ہر جیل کی یہی کہانی ہے افسران سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بھرتی ہوکر کوئی بہت بڑا احسان کردیا ہے میں بہت سے ایسے افراد کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو سرکاری ملازمت میں آنے سے قبل کیا تھے اور پھر افسر بن کر کیا سے کیا بن گئے جیلوں کے ڈی آئی جی مبینہ طور پر اس کرپشن کے سرپرست جنہوں نے سپرنٹنڈنٹس کو کمائی کا زریعہ بنارکھا ہے یہ صورتحال اپر پنجاب کی ہے اگر جنوبی پنجاب کی جیلوں کی رپورٹ بھی منگوائی جائے تو کرپشن اور لوٹ مار میں ان علاقوں کی جیلیں اڈیالہ اور اٹک سے دو ہاتھ آگے ہونگی خیر اس رپورٹ کی مزے دار صورتحال یہ ہے کہ اس رپورٹ کے کی تیاری سے منظر عام تک آنے پر کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ محکمہ داخلہ کے اعلی افسران بھی اس رپورٹ کے بعد ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ یہ رپورٹ کہاں سے آگئی بہرحال یہ رپورٹ جہاں سے بھی آئی بلکل درست ہے کیونکہ جیلوں کے اندر جو مافیا بیٹھا ہوا ہے وہ بھی جب کام ڈالتے ہیں تو کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے موجودہ آئی جی مرزا شاہد سلیم بیگ نے اس نظام کو تبدیل کرنے کی بہت کوشش کی خاص کر جیل ملازمین کی فلاح وبہبود کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا مگر اسکے باوجود شاطر قسم کے افسران انہیں بھی چکر دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اب کچھ ذکر اس بین القوامی رپورٹ کا جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ آنے والے دور میں ہمارا کیا حشر ہونے جارہا ہے یو این کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ (یو این سی ٹی اے ڈی)کی اس رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ امیر ممالک کی جانب سے مہنگائی سے مقابلے کے لیے شرح سود میں اضافے اور کفایت شعاری کے منصوبوں سے عالمی کساد بازاری کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے بڑے مرکزی بینکوں کی جانب سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی روک تھام کے لیے شرح سود میں اضافہ ایک خطرناک جوا ہے جو غیرمتوقع نتائج کا باعث بن سکتا ہے اس حوالے سے معاملات کو فوری درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریب ممالک کو قرضوں، صحت اور موسمیاتی بحران سے بچایا جاسکے جو پہلے ہی کووڈ کی وبا اور یوکرین میں روسی جنگ کے باعث اقتصادی مشکلات کے شکار ہیں ترقی یافتہ ممالک کے سیاسی رہنمااور مرکزی بینکوں کی جانب سے 70 اور 80 کی دہائی کی سخت گیر پالیسیوں پر عملدرآمد کرکے غلطی کررہے ہیں کیونکہ اس وقت مہنگائی کی وجہ طلب بڑھنے کی بجائے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے اسٹرٹیجک حکمت عملیوں جیسے قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے اقدامات، ٹیکسوں میں کمی اور اجناس کے حوالے سے افواہوں کی روک تھام کے سخت قوانین سے مہنگائی کے دبا پر قابو پانے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو غریب ممالک متاثر نہیں ہوں گے جبکہ امریکا کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے امکان سے ترقی پذیر ممالک کو مستقبل میں 3.6 ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہوسکتا ہے کچھ ممالک جیسے سری لنکا حالیہ بحران سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان جیسے ممالک کے معاشی استحکام کو شدید نقصان پہنچایا ہے اس وقت ہمیں اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے اگر ہم نے اپنا آپ درست نہ کیا تو آنے والے دور میں حالات اس قدر خراب ہوسکتے ہیں کہ پھر شائد سنبھلنا مشکل ہو جائے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611810 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.