کانگریس پارٹی میں صدارت کی روایت

بھارتیہ جنتا پارٹی کا کانگریس پر سب سے بڑ ا الزام ہے کہ وہ ایک موروثی سیاسی جماعت ہے۔ ابھی حال میں جے پی نڈا نے کہا تھا کہ یہ بھائی بہن کی پارٹی ایک خاندان کا اقتدارقائم کرنا چاہتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود جیسے مودی بی جے پی کی ناگزیر ضرورت ہیں اسی راہل کانگریس کی مجبوری ہیں ۔ کانگریس نے بڑی ہوشیاری سے ’ بھارت جوڑو یاترا‘ کی خاطرراہل کو سڑک پر اتار کر پارٹی کی کمان غیر گاندھی کو سونپنے کا منصوبہ بنایا تاکہ موروثیت کے الزام کو کسی نہ کسی حد تک کمزور کیا جاسکے ۔ یاترا کی مانند یہ تیر بھی نشانے پر بیٹھا ۔ سونیا گاندھی نے ابتداء میں اعلان کیا تھا کہ صدارتی انتخاب غیر جانبدارانہ ہوں اور اس میں وہ کوئی مداخلت نہیں کریں گی لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکیں ۔ اس بابت یہ سوچنے والے کہ ان کا تعلق مسولینی کے اٹلی سے ہے اس لیے وہ ایساکررہی ہیں غلطی پر ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ فسطائیت کے میدان میں مودی کا ہندوستان مسولینی کے اٹلی کو بہت پیچھے چھوڑ چکا نیز یہ تو کانگریس کی قدیم روایت ہے جس اندرا گاندھی ہی نہیں بلکہ مہاتما گاندھی بھی کاربند رہے ہیں ۔ گاندھی بھگتوں کو یہ بات ناگوار ہوگی لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔

کانگریس کے صدارتی انتخابات کو گاندھی گیری نے دو مرتبہ بری طرح متاثر کیا۔ سبھاش چندر بوس سے گاندھی کے اختلافات جگ ظاہر ہیں ۔ اس کے باوجود کانگریس میں سبھاش چندر بوس اس قدر مقبول تھے کہ وہ بلا مقابلہ 1938 کےا ندرانتخاب جیت گئے۔ 1939 میں بوس نے دوسری مرتبہ اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے تو گاندھی جی نے ان کے خلاف مولانا آزاد کو میدان میں اتارنے کی کوشش کی مگر یہ حربہ کامیاب نہیں رہا کیونکہ مولانا نے معذرت چاہ لی۔ پنڈت نہرو کو تیار کرنے کی سعی کی گئی وہ بھی راضی نہیں ہوئے۔بالآخر پٹاّبی سیتارمیاّ کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور وہ تیار ہوگئے ۔ گاندھی جی کی پیروکار کانگریس کی مجلس عاملہ نے سبھاش چندر بوس پر نام واپس لینے کے لیے دباو ڈالا مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ رائے شماری ہوئی توسبھاش چندر بوس کے حق میں 1580 ووٹ پڑے اور پٹاّ بی سیتا رمیاّ 1377 ووٹ حاصل کرکے ہار گئے۔ گاندھی جی نے اس ہار کو اپنی شکست کے طور پرلیا اور نیتا جی بوس کو مجلس عاملہ تشکیل دینے کے لیے کہا۔

اس دوران مجلس عاملہ اور صدر کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے شدید اختلاف ابھر کر سامنے آگئے یہاں تک کہ سردار پٹیل نے گاندھی جی سے شکایت کی کہ بوس کے ساتھ کام کرنا مشکل ہے۔ وہ آزادی کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں یعنی مجلس عاملہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کے بعد گاندھی جی کی حامی مجلس عاملہ کے 15میں سے 13؍ارکان نے استعفی دے دیا۔ ایک ماہ بعد ہونے والے اجلاس میں علالت کے باوجود بوس نے شرکت کی مگر گاندھی جی غیر حاضر رہے۔ استعفیٰ دینے والے مجلس کے سارے ارکان نے سبھاش چندر بوس کو گاندھی جی کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی تجویز پیش کی جو ان کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔ اس دباو کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجلسِ عاملہ تشکیل دینے میں ناکامی کا حوالہ دے کر بوس نے نہ صرف صدارت بلکہ کانگریس سے استعفیٰ دے کر فارورڈ بلاک نامی نئی پارٹی بنا لی۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ کس طرح گاندھی جی نے پارٹی کے صدارتی امور میں مداخلت کرکے منتخبہ صدر کو راستہ ناپنے پر مجبور کردیا۔

سبھاش چندر بوس کے بعد 6؍سالوں تک مولانا ابوالکلام آزاد نے صدر کی حیثیت سے پارٹی کو چلانے کا کام کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی کا سورج نکلنے والا تھا اور کانگریس کے صدر کا وزیر اعظم بننا طے تھا ایسے میں مولانا نے پھر سے پارٹی کی صدارت کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا لیکن گاندھی جی نے پنڈت جواہر لال نہرو کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔ اس وقت صدر کے انتخاب میں علاقائی کمیٹیوں کے ارکان حصہ لیتے تھے ۔ کانگریس کی 15میں سے 12 کمیٹیاں سردار ولبھ بھائی پٹیل کو صدر اور مستقبل کا وزیر اعظم بنانا چاہتی تھیں اور ایک بھی کمیٹی پنڈت نہرو کی حامی نہیں تھی ۔ کانگریس کی مجلس عاملہ کے جن ارکان نے پنڈت نہرو کے نام کی حمایت کی تھی ان کو صدارت کے انتخاب میں عمل دخل کا حق ہی حاصل نہیں تھا۔ ایسے میں گاندھی جی نےپنڈت نہرو کو دوسرے نمبر کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے تو پٹیل کو نام واپس لینے کے لیے کہہ کر وزیراعظم کا عہدہ ان سے چھین لیا۔ اس مداخلت سے پنڈت نہرو کو وزیر اعظم بنا دیا۔

مولانا آزاد نے اپنی سوانح حیات میں سردار پٹیل کی حمایت نہ کرنے کو اپنی سب سے بڑی سیاسی غلطی بتایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پٹیل نے جواہر لال نہرو جیسی غلطی کبھی نہیں کی ہوتی ۔ یہ سوچ کر میں کبھی خودکو معاف نہیں کرسکتا کہ اگر میں نے یہ غلطی نہیں کی ہوتی پچھلے دس سالوں کی تاریخ مختلف ہوتی۔گاندھی جی کے اس کردار کی روشنی میں اگر سونیا گاندھی کا اشوک گہلوت اور دگوجئے سنگھ کے ساتھ اختیار کیے جانے والےرویہ کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ بھی مختلف نظر نہیں آتا۔ یہ تو کانگریس کی پرانی پرمپرا ہے جس کو سونیا گاندھی آگے بڑھا رہی ہیں ۔اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس میں کم از کم انتخاب تو منعقد ہورہا ہے۔ اس کے برعکس دیگرسیاسی جماعتوں میں اس کا نام و نشان نہیں ہے ۔ بی جے پی میں آمریت اس قدر بڑھ گئی کہ مودی جی جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیں ، کس کی مجال ہے کہ اس کے سوا کسی اور کے بارے میں سوچے ؟ایسے میں مصنوعی اتفاق رائے ہے جبر کی علامت بن جاتی ہے۔

کانگریس کے اندر گزشتہ دو سالوں سے جی 23 نامی گروہ نے سونیا گاندھی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ اس میں سے دو رہنما کپل سبل اور غلام نبی آزاد توپارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اس بار جب ششی تھرور کا نام سامنے آیا تو انہیں باغی گروہ کا نمائندہ سمجھا گیا ۔ ششی تھرور کے بعد جب اشوک گہلوت میدان میں اترےتو اچانک انتخابی گہما گہمی میں تیزی آگئی۔ اشوک گہلوت کانگریس کے وہ وزیر اعلیٰ ہیں جن کو ہٹانے میں بی جے پی ناکام ہوچکی ہے۔ وہ زعفرانیوں کے داوں پیچ سے خوب واقف ہیں لیکن اپنی عوامی مقبولیت کےسبب سونیا اور راہل کے لیے ایک خطرہ بھی ہو سکتے تھے ۔ اشوک گہلوت کو توقع رہی ہوگی کہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے وفادار کو راجستھان کا وزیر اعلیٰ نامزد کردیں گے لیکن سونیا گاندھی نے اشوک گہلوت کا کانٹا نکالنے کے لیے ان کے بعد حریف اول سچن پائلٹ کو وزیر اعلیٰ بنانے کی تجویز رکھ دی ۔وزیر اعظم نرسمھا راو نےاسی حکمت عملی کا استعمال کرکے شرد پوا رکو وزیر دفاع سے ہٹا کر مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ بننے پر مجبور کردیا تھا ۔

اشوک گہلوت نے اپنی مقبولیت کا مظاہرہ کرنے کے لیے 92؍ارکان اسمبلی سے استعفیٰ پیش کروا دیا ۔ سونیا گاندھی کوامید نہیں تھی اس طرح کا سخت ردعمل سامنے آئے گا اور ا یک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوجائےگئی جس میں دونوں پھنس جائیں گے ۔ ایسے میں اگر سونیا اصرار کرتیں تو راجستھان بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ۔ اس لیے درمیان کا راستہ نکالا گیا جس میں اشوک گہلوت کی کرسی تو محفوظ رہی مگر صدارت کی دوڑ سے وہ باہر ہوگئے ۔ اشوک گہلوت نے جاتے جاتے سونیا گاندھی سے معافی تو مانگی لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ ان کے ساتھ 102 اور سچن پائلٹ کے پاس صرف 18؍ ارکان اسمبلی کی حمایت ہے نیز پائلٹ کےامیت شاہ سے ملاقات کے سارے ثبوت بھی پیش کردیئے۔ آگے چل کر انہوں نے ہائی کمان سے یہ تحقیق کرنے کی گزارش کی کہ آخر کس شئے نے اتنی بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کو اپنا اجتماعی استعفیٰ اسپیکر کو سونپنے پر مجبور کردیا۔ اس اٹھا پٹخ سے یہ ثابت ہوگیا کہ اشوک گہلوت کی طرح سونیا گاندھی بھی اب ایک گھاگ سیاستداں میں تبدیل ہوچکی ہیں اور جو بھی پارٹی کا صدر بنے گا وہ انہیں نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ اس حقیقت کا اعتراف تو اب ششی تھرور نے بھی کرلیا ہے۔

اس کہانی میں دوسرا موڑ دگوجئے سنگھ کی انٹری سے آیا۔ ان کی آمد پر لوگوں نے سمجھ لیا کہ وہ سونیا گاندھی کے آشیرواد سے میدان میں اترے ہیں اور صدارت کا تاج انہیں کے سر پر سجے گا لیکن پھر نہ جانے کس سمجھدار آدمی نے یہ مشورہ دے دیا کہ دگوجئے سنگھ کے بیانات تو بی جے پی کے لیے نعمتِ غیر مرتقبہ ثابت ہوں گے۔ ماضی میں منی شنکر ائیر اور دگوجئے سنگھ نے بی جے پی کا جتنا بھلا کیاتھا اتنا تو کوئی آرایس ایس کا رہنما بھی نہیں کرسکا ہے۔دگوجئے کے بعد اس کہانی کے اندر ملک ارجن کھڑگے شامل ہوئے ۔ ان کے صدارت کی دوڑ میں شامل ہونے سے ایک نہایت دلچسپ موڑ آگیا۔ کھڑگے کی گاندھی پریوار سے قربت جگ ظاہر ہے اس لیے ان کو سونیا گاندھی کا کٹھ پتلی بتایا گیا لیکن مزے کی بات یہ ہے جس وقت وہ اپنا پرچہ داخل کرنے کے لیے پہنچے تو ان کے ساتھ جی 23؍ منیش تیواری اور دیگر لوگ بھی موجود تھے ۔ اس طرح گویا ملک ارجن کھڑگے دونوں متحارب گروہوں کے مشترکہ امیدوار بن گئے اور کانگریس کے اندر جو دراڑ تھی وہ ختم ہوگئی۔ یہ پارٹی کے لیے ایک اچھا شگون ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450411 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.