قدیم روایتوں کے پاسدار اور جدید انداز فکر کے نمایاں شاعر: زبیر علی تابش
(Asif Jaleel, All Cities)
|
مسلسل محنت، جانفشانی، یکسوئی ، مستقل جہد و عمل ، بیحد سنجیدگی، محنت اور لگن کے ذریعے شہرت کی بلندی کو چھونے والے منفرد شاعر زبیر علی تابش کی پیدائش مہاراشٹر جلگاؤں کے تعلقہ پاچورہ کے مضافاتی علاقے نگر دیولہ میں ہوئی۔ موصوف ضلع پریشد اردو اسکول میں درس و تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، الحمدللہ ایک ہی تحصیل میں راقم بھی ہے جس کی وجہ سے زبیر علی تابش سے مزید تعلقات استوار ہوئے اور یہ جاننے کے مواقع بھی ملے کہ محترم موصوف خیال و فکر کے گھوڑے پر سوار ہو کر تجربات و مشاہدات کی خاردار وادیوں کی بادۂ پیمائی کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ ایسی نسلِ نو جو صنفِ ادب سے آشنا ہے اور ادبی شعور کا ادراک رکھتی ہیں وہ زبیر علی تابش کی شاعری کے دیوانے ہیں۔ جو بھی اِن کے اشعار سے محظوظ ہوا ہے انھوں نے یہ ضرور جانا کہ زبیر علی تابش نہ صرف کم الفاظ میں بڑی بات کرنا جانتے ہیں بلکہ بظاہر بڑی بڑی مگر غیر ضروری باتوں کو خوبصورتی سے نظر انداز کرنے کے ہنر سے بھی آشنا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں چھوٹی بحر کے بڑے شاعر کہا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کی دُنیا میں شعر و شاعری سے شغف رکھنے والی نسل نو انہیں شوق سے سرچ کرتی ہیں اور ان کے کلام سے محظوظ ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے اور ملک و بیرون کے ہر مشاعروں میں جناب زبیر علی تابش کو سُننے کے لئے سامعین بے تاب ہوتے ہیں۔ منتظمین ، حاضرین نیز سامعین بھر پور تالیوں سے استقبال کرتے ہیں، بلا مبالغہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ موصوف مشاعرے کے ادبی معیار میں اضافہ اور سامعین کے ذوق سماعت کی آبیاری کی کوششوں میں ہمہ وقت پیش پیش رہتے ہیں۔ان کو سننے کے بعد سامعین کا ذوق سخن اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ پھر کسی خاص خاص شاعرکا کلام ہی پسند آتا ہے۔ خصوصاً رومانوی لب و لہجہ کی بدولت نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں۔ وہ ایسے انداز میں شعر کہہ جاتے ہیں کہ سننے والا اس خیال سے واقفیت کے باوجود ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ اس انداز سے بھی اس خیال کوشعر میں ڈھالا جا سکتا تھا اور ان کے اسلوب نے ایک عام سی بات کو لفظوں کا وہ لباس پہنایا ہے کہ اسے ہی اتنا خاص بنا دیا ہے۔ عام طور پر سامعین شعر سن سن کراتنے ماہر ہو جاتے ہیں کہ آدھے مصرعے سے ہی اگلے حصے کا اندازہ لگا لیتے ہیں اور خیال کی سمت دیکھ کر ہی قافیہ پہچان لیتے ہیں مگر زبیر علی تابش کے حوالے سے کوئی ایسا سوچ ہی نہیں سکتا۔ ان کی ادائیگی میں خیالات کا ایسا گھماؤ پایا جاتا ہے جو ان کے سنانے سے پہلے کسی سامع کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا ۔ذرا یہ شعر دیکھیں۔
تمہارا صرف ہواؤں پہ شک گیا ہوگا
چراغ خود بھی تو جل جل کے تھک گیا ہوگا ۔ اونچے نیچے گھر تھے بستی میں بہت
زلزلے نے سب برابر کر دیئے
فنی اعتبار سے ان کی شاعری میں جو چیز ہمیں سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے وہ لفظوں کا آہنگ اور اشعار میں ان کی موزوں نشست ہے ۔ شاعر کا اپنا ذخیرہ الفاظ ہے اور یہ الفاظ مطلب و معانی کی امانت کو بلا تاخیر قاری کے ذہن تک پہنچا دیتے ہیں۔ اعلیٰ شاعری کے اوصاف میں لفظ و معانی کی ہم آہنگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ موصوف کی کچھ غزلیں اور اشعار الگ الگ اور اپنی جگہ مکمل اکائی ہونے کے باوجود بھی ایک ہی طرح کاموڈ اور کیفیت لیے محسوس ہوتے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ زبیر علی تابش کی غزل اپنی عمومی اور مجموعی فضا کے اعتبار سے روایت کی پابند نظرآتی ہے۔ اس کے محدود موضوعات کے سوتے اُس کی ذاتی محسوسات اور اردگرد کے ماحول ہی سے پھوٹے ہیں۔موصوف اپنی منفرد شاعری کے حوالے سے غیر مسلموں میں بھی خاصے مقبول ہیں، اپنے مذہب کے ساتھ ہی ساتھ دوسروں کے مذاہب اور بانیانِ مذاہب کا احترام بھی ضروری ہے اور آج دنیا کو اسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت ہے۔ دنیا اس وقت تنگ نظری ،تنگ خیالی اور تعصب کے پھندے میں گرفتار ہے۔ عملی طور پر لوگ مذہب سے بیگانہ ہورہے ہیں اور مذہب کے نام پر فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے زبیر علی تابش نے اپنے ہم وطن بھائیوں کے لئے ان کے مذہب کے متعلق وسیع المشربی کے ساتھ نظم نثر و اشعار میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے جن میں چند اشعار و نثر کافی مقبول و مشہور بھی ہوئے۔
بنسی سب سُر تیاگے ہے ایک سُر میں باجے ہے حال نہ پوچھو موہن کا سب کچھ رادھے رادھے ہے
بہر کیف، ان کا اسلوب خاص اپنا ہے کہیں سے بھی مستعار نظر نہیں آتا۔ یہی ان کی انفرادیت عظمت کی دلیل ہے۔ لفظیات اور تلازمے خود ہی بتا دیتے ہیں کہ ایسے اشعار زبیر علی تابش ہی کے ہوسکتے ہیں۔محترم زبیر علی تابش سے مستقبل میں متعدد نئے امکانات وابستہ ہیں۔مقصدیت،دلچسپی اور افادیت سے لبریز موصوف کی شاعری کا مستقبل بہت روشن ہے ۔مجھے یقین ہے قارئین ادب ان کی شاعری سے ضرور محظوظ ہونگے۔
از:آصف جلیل احمد۔ (معلّم ضلع پریشد اردو اسکول جارگاؤں تعلقہ پاچورہ ضلع جلگاؤں) [email protected]
|