حضرت مولانا عزیزاللہ شاہ عزیزؔصفی پوری علیہ الرحمہ کے
منتخب دیوان
’مجموعہ ختم فکر‘کا تعارف وتجزیہ
خامہ بکف:صادق رضامصباحی
برقی رابطہ:[email protected]
حضرت مولاناولایت علی خان المعروف ب حضرت عزیزاللہ شاہ عزیزؔصفی پوری علیہ
الرحمہ تاریخِ ادب وتصوف کے ان نادرِ روزگار شخصیات میں سے ہیں جن کی خدمات
اورکارنامے افقِ تاریخ پرہمیشہ جگمگاتے رہیں گے ۔آپ کاسلسلہ نسب خلیفہ او
ل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔آپ کے آبا واجدادایک طویل
عرصے تک شاہان اودھ کے درباروں میں اعلیٰ مناصب پرفائزرہے چنانچہ آپ کی
ولادت تو،صفی پورضلع انائومیں صفرالمظفر۱۲۵۹ھ بمطابق مارچ ۱۸۴۳ء میں ہوئی
مگرآپ کی پرورش و پرداخت اور ابتدائی تعلیم وتربیت سلطنت اودھ کی راجدھانی
لکھنومیں ہوئی جہاں آپ کاخاندان کئی دہائیوں سے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کی
زندگی گزاررہاتھا۔ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد ماجدیحییٰ علی خان صاحب
(متوفی:۸؍رمضان المبارک ۱۲۸۷ھ مطابق ۲؍دسمبر۱۸۷۰ء)کے زیرسایہ یہیں
پائی۔ابتدامیں مولانامحمدحسن اور پھر مولانامحمدرضاصاحبان کی خدمات حاصل کی
گئیں۔ مؤخرالذکراستادکی تعلیم وتربیت کا اثریہ ہواکہ ان کے اندر نظم
ونثرمیں اپنے مافی الضمیراداکرنے کی قوت پیدا ہوگئی جس کااعتراف خود انہوں
نے اپنی کتاب سوانح اسلاف ص ۱۰۳پر کیا ہے ۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں جب پوراملک
ہنگامے کی نذرہوا تو سلطنت اودھ کی بھی شام ہوگئی جس کے نتیجے میں محلات
شاہی کے اِردگردان کےخاندان کے جو مکانات تھے، سب تباہ وبربادہو گئے اوریوں
یہ پوراخاندان بے چارگی کےعالم میں لکھنو سے صفی پورمنتقل ہو گیا ۔ اس
حادثے کے بعدچوں کہ ذرائع آمدنی بند ہوگئے تھے اس لیے عزیزؔصفی پوری کو
مختلف جگہوں پرملازمت کرکے اپنی گزربسرکرنی پڑی ۔
صفی پورمیں قیام کے دوران وہ اپنازیادہ تروقت مجددِسلسلۂ صفویہ قطب العالم
حضرت شاہ خادم صفی ،صفی پوری علیہ الرحمہ (م:۱۳؍رجب المرجب ۱۲۸۷ھ بمطابق
۱۹؍ اکتوبر ۱۸۷۰ء)کی خدمت میں گزارتے تھے ۔ یہ ان کے والد منشی یحییٰ خان
کے پیرومرشدتھے۔لکھنومیں ہی عہدطفولیت میں والد ماجدنے انہیں حضرت
مولانافتح علی رحمۃ اللہ علیہ (م:۱۸۵۷ء)کے دست اقدس پر بیعت کرادیاتھامگران
کاتذکیروتزکیہ اورباطنی تربیت حضرت شاہ خادم صفی علیہ الرحمہ نے فرمائی۔
بعدمیں انہیں کلا ہ وشال بھی عنایت فرمائی اوران کانام بدل کر ولایت علی سے
عزیزاللہ شاہ کردیا۔ان کے شیخ تربیت کایہ رنگ اتنا گہرا چڑھا کہ زندگی
بھروہ اسی رنگ میں رنگے رہے۔شیخ تربیت کے دیے گئے نام کوانہوں نے بطورتخلص
استعمال کرناشروع کردیاحالاں کہ پہلے ولایت تخلص کرتے تھے۔شیخ تربیت کی
توجہات باطنی نے یہ اثردکھایا کہ اصلی وپیدائشی نام پس منظرمیں چلاگیااوروہ
عزیزؔصفی پوری کے نام سے تصوف و ادب کے آسمان پر بدر منیر بن کرچمکے ۔شیخ
تربیت حضرت شاہ خادم صفی کے وصال اور پھر چندایام کے بعداپنے والدماجدمنشی
یحییٰ علی خان کی رحلت(۸؍رمضان المبارک ۱۲۸۷ھ بمطابق ۲؍دسمبر ۱۸۷۰ء ) کے
بعد ان کی زندگی کا دوسرادورشروع ہوااوران کے گردمریدوں اورعقیدت مندوں کی
ایک کثیرتعدادجمع ہوگئی چنانچہ وہ تادم وصال اپنے مریدوں کی تربیت فرماتے
رہے اورسلسلہ صفویہ کی اشاعت فرماتے رہے یہاں تک کہ۱۳؍محرم الحرام۱۳۴۷ھ
بمطابق ۲ ؍جولائی ۱۹۲۸ء کو ان کا وقت اجل آ پہنچا۔ان کا مزار مبارک صفی
پورمیں خانقاہ صفویہ کے مشرقی دروازے پرمرجع خلائق ہے ۔
شعروسخن سے انہیں فطر ی مناسبت تھی ۔عہدطالب علمی میں ہی انہوں نے کسی شخص
کی زبانی چنداشعارسن کراسی اندازکے گیارہ اشعار موزوں کرلیے تھے۔گرچہ ان
میں لسانی اورفنی اسقام تھیں تاہم یہ بات توطے ہی ہوجاتی ہے کہ مذاق
شعروسخن ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھااورکیوں نہ ہوتاکہ یہ ا ن کاپیشہ آبائی
تھا۔ ان کے آباواجدادکی وراثت ، خاندانی ماحول ،ذہنی وفکری تربیت
اورمزیدمشق وممارست نےانہیں اسی سمت میں ڈال دیاتھا جس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ
اس میدان کے بطل جلیل بن کرابھرے۔اپنی بالکل ابتدائی عہدکی سخن فہمی اورتک
بندی کے متعلق ایک مقام پرخودفرماتے ہیں :
’’ایک بارمیں آسیون میں تھا۔میرے ایک محب مرزااحمد....کچھ شعرکہہ کرلائے
اورمجھے سنائے۔میں نے دوجگہ کہا:اس کویوں کردو توصحیح ہوجائے ،اس طرح غلط
ہے۔انہوں نے کہا:’’کیاتم شعرکہتے ہو۔؟‘‘میں نے کہاکہ کہتا تو نہیں
مگرسمجھتاہوں۔وہ میرے پیچھے پڑے کہ شعرکہو۔ان کے اصرارپررغبت پیداہوئی
اورشعرکہنے لگا۔‘‘(سوانح اسلاف:ص۱۱۶)
انہیں مرزاغالب(م:۱۸۶۹ء) سے شرف تلمذحاصل تھا۔قریب تین سال وہ غالب کی
شاگردی میں رہے ۔ان کے کمال فن، طباعی، بلندفکری ، رعنائی خیال اورپرگوئی
کااندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک قصیدہ لکھ کرغالب کی
خدمت میں اصلاح کے لیے روانہ کیا مگر غالب نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اس
میں اصلاح کی گنجائش نہیں ۔فارسی و اردو نثرونظم میں قریب تینتالیس(۴۳)
کتابیں ان کی عبقریت اوران کے کمال فن پرشاہدہیں ۔زیر نظر تحریر میں ان
کےمنتخب دیوان’’ مجموعہ ختم فکر‘‘کاتعارف وتجزیہ مقصودہے۔اس میں عزیزؔصفی
پوری کا وہ کلا م شامل ہے جوان کے قلم سے عمرکے آخری حصے میں نکلا ۔بقیہ
پہلے کا کلام تومختلف دیوان اورمثنویوں کی شکل میں شائع ہوچکاتھا ۔’’مجموعہ
ختم فکر‘‘تاریخی نام ہےاس سے ۱۳۴۰ھ کے اعدادبرآمدہوتے ہیں یعنی یہ مجموعہ
۱۳۴۰ھ میں مرتب ومتشکل ہوااورچارسال بعدیعنی ۱۳۴۴ھ /۱۹۲۶ءمیں ڈاکٹراحسان
علی انصاری کی کوششوں سے ادبی پریس،لاٹوش روڈ، لکھنو سے شائع ہوا۔یہ مجموعہ
۶۲؍صفحات پرمشتمل ہے۔حضرت عزیزؔصفی پوری اس کے تعارفی کلمات تحریرکرتے ہوئے
فرماتے ہیں:
’’.......فقیرخاد م محمدعزیزاللہ عزیزؔعرف منشی محمدولایت علی خاںبن منشی
محمدیحییٰ علی خاں مرحوم اب اسّی سال کاہے۔نظم و نثر کی فکرنہیں کرتا۔جوش
دل سے جوکچھ زبا ن پرآتاہے،لکھ لیتا ہوں۔البتہ اگرکوئی تاریخ کی فرمائش
کرتا ہےتوکسی قدرفکرواقع ہوتی ہے۔یہ مجموعہ بے ترتیب ہے۔ کسی حرف کی ردیف
میں چندغزلیں نہیں ہیں کہ مرتب ہوسکے ۔سب سے پہلے غزلیات فارسی ہیں بے
ترتیب ردیف ۔اس کے بعدایک قصیدہ ہے ’محامدحامد‘۔پھردوسراقصیدہ جس کامطلع بے
فکر آیا، باقی اشعارفکرسے لکھے۔ پھر قطعات یامثنویات پھررباعیات پھر قطعات
تاریخ۔سب کے بعدجوکچھ جوش دل سے نکلاہے ،جمع ہے۔ختم فکر (۱۳۴۰ھ) اس مجموعہ
آخر کانام تاریخی ہے۔.....‘‘
یہ تعارفی کلمات کتاب کے بالکل آغازمیں ہیں اس کے معاًبعداردوکی دوغزلیں
ہیں۔اس کتاب میں زیادہ ترکلا م فارسی غزلیات ، رباعیات اور قطعات ہیں بلکہ
یوں کہیے کہ نوّے (۹۰فیصد)کلام فارسی کاہے اورپھراخیرمیں چندغزلیں اردومیں
ہیں اوراخیرمیں تصحیح اغلاط کاایک صفحہ ہے ۔اس مجموعے کی اشاعت کے متعلق
ڈاکٹرحنیف نقوی رقم طرازہیں:
’’اشاعت اول کے تھوڑے ہی دنوں بعداس مجموعۂ آخرکوکسی قدراضافہ وترمیم کے
ساتھ دوباردوعلاحدہ علاحدہ مجموعوں کی صورت میں شائع کیاگیا۔’’ختم فکرفارسی
‘‘اسی اشاعت ثانی کے حصہ او ل کانام ہے۔‘‘
(غالب اورجہان غالب:ص۱۲۹،غالب انسٹی ٹیوٹ،ایوا ن غالب مارگ،نئی دہلی،سنہ
اشاعت۲۰۱۲)
ہمارے پاس جونسخہ ہے وہ اس کی پہلی اشاعت ہے ۔پہلی باریہ ایک ہزارکی
تعدادمیں شائع ہوااوراس کی قیمت ۵؍روپے رکھی گئی۔اس نسخے کے صفحہ او ل
پردرج عزیزؔصفی پوری کی پہلی غزل دیکھیے:
کیاشہیدقاتل نے اورخون بہا بھی دیا
دوبارہ وار کیا اور خون بہا بھی دیا
کبھی لیابھی اگر ہاتھ میں مرے دل کو
الٹ پلٹ کے دکھاکرمجھے دکھابھی دیا
وہ آئے دل میں جلن دفع ہوگئی بالکل
جلاکے آتش فرقت سے پھرجلابھی دیا
فقط خیال عیادت سے وہ نہیں آئے
کہ نوش لب مجھے شربت شفابھی دیا
عزیزؔ حضرت خادم کا شکربے پایاں
دکھاکے راہ خدا،راہ کاپتہ بھی دیا
حضرت خادم صفی صفو ی، عزیزؔصفی پوری کے شیخ تربیت تھے چنانچہ مقطع میں انہی
کے لیے عقیدت ومحبت کااظہارکیاگیاہے۔حضرت عزیزؔصفی پوری نے زیادہ ترمقامات
پراپنے شیخ تربیت سے والہانہ عقیدتوں کاخوب صورت اظہارکیاہے۔اس کے
فوراًبعدوالی غزل کامقطع دیکھیے ،اس میں بھی انہوں نے اپنے شیخ سے اپنی بے
پایاں محبتوں اورعقیدتوں کااظہارکیاہےاوربڑاخوبصورت مضمون باندھاہے:
عزیزؔاب تمہیں خادم صفی ہو
تمہیں کومیں ان کانشاں دیکھتاہوں
اس کے بعدص نمبر۱سے ص ۵تک کاساراکلام فارسی مثنویات ،قطعات ،رباعیات
اورقطعات تاریخ پرمشتمل ہےجس میں حمدیہ اورنعتیہ اشعاربھی شامل ہیں۔حضرت
عزیزؔصفی پوری کازیادہ ترکلام چوں کہ فارسی زبان میں ہے اس لیے ان کے
کمالات کا جوہر فارسی ہی میں زیادہ کھلتاہےمگران کااردوکلام بھی کمال
فن،رعنائی ،برجستگی ،مضمون آفرینی اوروفورِجذباتِ عشق سے معمور
ہے۔مجموعےکی پہلی فارسی غزل بھی ان کے شیخ تربیت کی منقبت ہے،آپ بھی پڑھیے
اوران کے جذبہ دروں میں جھانک کردیکھیے کہ اپنے مرشدومربی کے لیے وہ کس
قدروارفتگی محسوس کررہے ہیں۔
گرچہ اندرل است جائے شما
می کندنالہ دل برائے شما
بہ شماراجعست وچیزے نیست
بودماجزکرشمہ ہائے شما
ظاہروباطن او ل وآخر
ایں ہمہ چیست ماجرائے شما
ہمہ تن ہاشماست نسبت ما
صورت مابودلقائے شما
مرشدپاک بازگفت عزیز ؔ
ذات مانیست ماورائے شما
ان تمام اشعارمیں عزیزؔصفی پوری اپنے شیخ تربیت کے لیے جس طرح اپنی خاص
کیفیات ،اپنی غیرمعمولی وارفتگی وشیفتگی کااظہارفرمارہے ہیں،وہ ایک جھلک ہے
اس قلبی تعلق کی جوعزیزؔصفی پوری کوحضرت مجددسلسلہ صفویہ سے تھا۔
اس کے بعدایک عربی نعت ہے ۔یہ نعت بھی اردواورفارسی کی طرح ان کی
قادرالکلامی کاپختہ ثبوت پیش کررہی ہے ۔آپ بھی ان کے مذاق سخن اور
قادرالکلامی کی داددیجیے:
مصطفی خاطبنی بالکرم والرغب
کیف لاارقص حبابہجوم الطرب
خبراللہ بلولاک فطوباہ لنا
بشرآدم شیئاً فنبی بنبی
افضل العالم بالشان فلامثل لہ
اکرم الناس بغرالحسب والنسب
ادرک اللذۃ یاشیخ وذوق من شعری
مااقول بثناءہ کحلوالرطب
فضل العرب تولاہ بفضل کاف
قال انی عرب لولاء العرب
حبہ خلقہ خلق الآفاق لہ
یخلق اللہ بامرہ سبباًللسبب
ادع یاسامع بالحب محباًلعزیز
اسمع الثعث بشوق وبہ یسمع بی
پھراس کے بعدبالترتیب چارنعتیہ کلام ہیں۔یہ نعتیں ان کے عشق رسول کی منہ
بولتی تصویریں ہیں اوران سے اہل سنت کے اس اجماعی عقیدے کابھی اعلان ہوتاہے
جوہرمسلمان کواپنے آقاے کریم علیہ التحیۃ والتسلیم سے رکھناچاہیے۔چندفارسی
غزلوں کے فاصلے پرایک فارسی نعت اوربھی ہے جسے بار بار پڑھنے کودل کرتاہے
اوراسے پڑھ کرحضرت علامہ جامی علیہ الرحمہ(م:۱۴۹۲ء) کی وہ شہرۂ آفاق نعت
یادآجاتی ہے جسے بارگاہ رسول میں بھی شرف قبول حاصل ہے :
نسیماجانب بطحاگزرکن
زاحوالم محمدراخبرکن
یا
تنم فرسودہ جاں پارہ زہجراں یارسول اللہ
دِلم پژمردہ آوارہ ، زِعصیاں یا رسول اللہ
عزیزؔصفی پوری کی عشق رسول میں ڈوبی ہوئی اس نعت مبارک کے مضامین
تقریباًتقریباًوہی ہیں جوحضرت جامی کی ان دونعتوں کے ہیں بس فرق یہ ہے کہ
حضرت جامی دردفرقت میں تڑپ کرمدینہ منورہ سے دورپیارے حبیب صلی اللہ علیہ
وسلم کی بارگاہ نازمیں استغاثہ پیش فرمارہے ہیں اورعزیزؔصفی پوری
ایسالگتاہےکہ بنفیس نفیس بارگاہ رسالت میں حاضر ہیں ۔آپ بھی پڑھیے اوراپنے
عشق رسول کی لو تیزکیجیے:
باہزاران گناہ آمدہ ام
بامیدپناہ آمدہ ام
الغیاث اے محمدعربی
نادم وعذرخواہ آمدہ ام
کہ کندجزتوروسپیدمرا
بردرت روسیاہ آمدہ ام
نفس وابلیس رہزنان من اند
بے سروپابراہ آمدہ ام
یامحمدکہ پرسدم جزتو
بس خراب وتباہ آمدہ ام
پابرہنہ ،برہنہ سرمفلس
بردرچوں توشاہ آمدہ ام
احمداگرچہ بس بداعمالم
بررسالت گواہ آمدہ ام
تابہ بینی مراورحم آری
طالب یک نگاہ آمدہ ام
پرگنہ روسیہ عزیزبنام
خستہ ما آہ آہ آمدہ ام
جذبات عشق کارنگ لیے ہوئے ایک نعت مبارکہ اوربھی ہے ،وہ بھی یقیناًعاشقوں
کے دلوں کوگرمادے گی ،چنداشعارملاحظہ ہوں:
قبلہ کوئے تویارسول اللہ
سجدہ سوئے تویارسول اللہ
آرزوبازدل کندبیروں
آرزوئے تویارسول اللہ
رحمت عا م شیوہ مدام تو
لطف خوئے تویارسول اللہ
قدسیاں می برندہرقطرہ
ازوضوئے تویارسول اللہ
لرزہ برجان جبرئیل افتاد
ازعلوئے تویارسول اللہ
ہرزماںدارداندرون عزیزؔ
ہائے وہوئے تویارسول اللہ
اپنے شیخ تربیت کی شان میں عزیزؔصفی پوری نے تین سے چارمناقب پیش کیے ہیں
۔پہلی منقبت آپ پڑھ چکے ،اب درج ذیل منقبت کارنگ و آہنگ بھی ملاحظہ کیجیے
اوراندازہ لگائیے کہ عزیزؔصفی پوری اپنے شیخ کی محبت میں کہاں سے کہاں تک
سفرکرچکے تھے:
خبرگیریاشاہ خادم صفی
شدم پیریاشاہ خادم صفی
بکن محواعمال زشت مرا
زتقدیریا شاہ خادم صفی
بیاازکرم وارہانم بخاک
زتشویریاشاہ خادم صفی
منورنماگورتاریک من
بہ تنویریا شاہ خادم صفی
عزیزؔآمدہ بردرت برگناہ
خبرگیریا شاہ خادم صفی
ایک سچے مریدکوجس طرح کی عقیدت اپنے پیرومرشدسے ہونی چاہیے ،یہ منقبت اسی
کی عکاس ہے ۔
ص۸پرایک قدرے طویل حمدبصورت قصیدہ ہےاس میں تقریباًپچیس اشعارہیں،اس کامطلع
اورمقطع ملاحظہ کرتے چلیں:
اے غمت عشاق راآتش بجاں اندوختہ
سوزے انی آنست نارادرنہاں اندوختہ
زندہ میگردددل مردہ زتاثیراے عزیزؔ
جانے ازاللہ اکبردراذاں اندوختہ
فارسی کابڑامشہورشاعرقاآنی(م:۱۸۵۴ء) شعروسخن میں جس کی قادرالکلامی
اوربرتری ضرب المثل ہے ،کے ایک قصیدے پرحضرت عزیزؔصفی پوری نے ایک خاصاطویل
قصیدہ قلم بندفرمایاہےجوسیرت نبوی کے مختلف واقعات اورتاریخی حقائق کولفظوں
کی لڑی میں پروتاچلاجاتاہےاورفارسی زبان کا مذاق رکھنے والوں کوعجیب
سروردیتاہے۔یہ قصیدہ بھی گویانعت ہی ہے ۔یہ ص۹سے شروع ہوتاہے اور۱۳پرمکمل
ہوتاہے۔اس میں قریب ۱۰۰؍ اشعار ہیں ۔ اس کے بعدایک قصیدہ مرزاغالب کے قصیدے
کی زمین پربھی ہےلیکن پہلے قصیدے کاایک چوتھائی بھی نہیں ہےیعنی یہ صرف
۲۱؍اشعارپرمشتمل ہے ۔اس کے چند صفحات کے بعدمختلف قطعات ورباعیات درج ہیں
جن میں کہیں کہیں حمدکے مضامین ہیں،کہیں نعت کے ،کہیں غزل کے اورکہیں منقبت
کے ۔ پھر ص ۲۰سے ص۲۹تک رباعیاں پھیلی ہوئی ہیں جن میں پہلی تین رباعیاں وہ
ہیں جوحضرت عزیزؔصفی پوری کی اہلیہ کے وصال پربے اختیاران کے قلم سے اشک بن
کرکاغذپرجم گئی تھیں۔عزیزؔصفی پوری کے جذبات دروں کایہ آئینہ بھی دیکھیے:
اے مونسہ بخاک خفتی ناگاہ
ہیہات زہجرحال من گشتہ تباہ
گردیدعزیزمبتلائے وحشت
اللہ اللہ آہ اناللہ
..........
اے مونسہ ام زہدوایام شباب
رفتی وغم توحالی من کردہ خراب
دل خستہ عزیزبے توتنہاماندہ
جانے داردزدردفرقت بیتاب
...........
اے ہمدم شصت وچارسالہ زشباب
رفتی ودلم کردفراقت بیتاب
اللہ معی مراببخشدتسکین
اللہ معک ترادہداجروثواب
ان تینوں میں عزیزؔ صفی پوری نے اپنی فرقت،بے تابی اوربے چارگی کاجس طرح
اظہارکیا ہے،یہ ان کے دل کانوحہ بھی بن گیاہے اوراظہارمحبت کا طریقہ بھی
۔آخرمیں وہ ان کے ترقی درجات کے لیے دعاگوہیں اوراپنے لیے دعاجوبھی کہ
اللہ ان کی اہلیہ کو اجروثواب سے محروم نہ کرے اورانہیں بھی سکون وطمانیت
عطافرمادے۔
دیگررباعیات مختلف النوع مضامین اورالگ الگ قسم کے واردات قلبی اوراحوال
وکیفیات سمیٹے ہوئے ہیں۔اس کے بعدقطعات تاریخ پرمشتمل رباعیات کاایک طویل
ترین سلسلہ ہے جو اخیر تک چلاگیاہےان میں سے بعض کسی فرمائش پرلکھی گئی
ہیں،بعض کسی کتاب کی اشاعت پر،بعض وہ بھی ہیں جوکسی کے سانحہ ارتحال سے
مغلوب ہوکرنوک قلم پرچڑھ گئیں اور بعض وہ بھی جن میں واقعات ، حالات
،کیفیات اوران کے واردات قلبی منعکس ہورہے ہیں۔اس میں تین رباعیاں ایسی بھی
ہیں جومختلف مساجدکی بناوتاسیس کے موقع پرقلم سے نکلیں لیکن یہ تعین
کرنامشکل ہے کس مسجدکے لیے اورکہاں کی مسجد کے لیے لکھی گئی تھیں البتہ ایک
سے اندازہ ہوتاہے کہ اس مسجدکاسنگ بنیادحضرت مولاناعبدالباری فرنگی
محلی(م:۱۹۲۶ء) نے رکھا تھا ۔قطعہ تاریخ یہ ہے:
شیخ میناکعبہ مسجدکعبہ آبادپاک
اس کے نیچے ۱۳۴۳سنہ ہجری درج ہے ۔یہ مسجدکہاں ہے ،یہ نہیں معلوم ہوا۔
ایک رباعی میں ایک قطعہ تاریخ حضرت عزیزؔصفی پوری نے اپنے لیے بھی
لکھاتھاجس میں انہوں نے اپنی سنہ وصال کے بارے میں بتایا تھا:
برجاں عزیزحق چہ رحمت ہاکرد
اس سے ۱۳۴۴ ھ برآمدہوتاہےلیکن ان کاسنہ وصا ل ۱۳۴۷ھ بتایاجاتاہے اوریہی
میں نے بھی اس تحریرمیں لکھاہے۔پوری رباعی یہ ہے :
ایوائے پیام اجل آمدایوائے
ایوائے عزیزسخت غفلت ہاکرد
تاریخ وفات خودنوشتہ بحیات
برجان عزیزحق چہ رحمت ہاکرد
خودفرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی تاریخ وصال تحریرکردی ہے
اورخودکومتنبہ بھی کررہےہیں کہ اے عزیز!توسخت غفلت میں مبتلاہے جب کہ پیام
اجل آپہنچا ہے۔لگتاہے یہ رباعی حضرت عزیزؔصفی پوری نے اپنی ایک خاص کیفیت
میں لکھی ہوگی اوراس حال وکیفیت کے غلبے میں اپنی سنہ وصال بھی بتادی
مگرقدرت کوکچھ اورہی منظورتھا۔اس طرح کی کیفیات کا بزرگوں سے صدورہوتاہے۔
ص۴۹پرقریب اٹھارہ انیس اشعارپرمشتمل حمدیہ اشعارہیںجس کے ابتدائی اشعاریہ
ہیں:
اے منزہ ترزادراک عقول
پاک ترازانچہ بستایم فضول
انبیادرکنہ توحیراں شدہ
اولیامبہوت وسرگرداں شدہ
اے دراول ازازل بے ابتدا
اے درآخرازابدبے انتہا
اسی کامقطع ہے:
بندہ مسکیں وناچیزت عزیز
ازتوجزرحمت نخواہدہیچ چیز
عزیزؔصفی پوری خداکی شا ن اوراس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
تیری ذات انسانی عقل سے ماوراہے ،تیری حقیقت تک رسائی حاصل کرنے میں
انبیابھی ناکام رہے اوراولیاآج بھی تیری حقیقت تک پہنچنے کی جستجو میں
حیران وششدرہیں ۔تیری ذات ابدسے ازل تک اورابتداسے لے کرانتہاتک محیط ہے
۔یہ ناچیزبندہ عاجزومسکین سوائے تیری رحمت کے کسی اورچیزکاامیدوارنہیں ہے۔
مولاناعبدالباری فرنگی محلی کے وصال پرانہوں نے چارچارقطعات تاریخ رقم
فرمائے تھے ،ان میں ایک قطعہ عربی میں بھی ہے :
مات العلامۃوحیداًوحداً
صوفیاصافیاتقیابالجد
عبدالباری فازبوردفی خلد
قلت التاریخ یاعزیزغدد
فارسی واردوقطعات تاریخ میں وہ مولاناکے وصال پراپنے رنج وغم کااظہارکرتے
ہوئے یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
صدحیف غم مولوی ومولانا
بردش زجہاںگردش افلاک بخلد
ای وای بمن کہ گوش کردخبرش
ہرچنداورفت طربناک بخلد
گفتم بقلق مصرع تاریخ عزیز
عبدالبار ی بجان شدہ پاک بخلد
...........
عبدباری فقیہ ومولانا
صوفی باصفاوراہ نمائے
کرگیاانتقال اورہوا
باغ جنت میں انجمن آرائے
دل کوصدمہ ہواعزیزبہت
گل ہواکیاہے چراغ ہے ہےدائے
خط کشیدہ مصرعوں سے ۱۳۴۴ھ برآمدہوتی ہے جومولاناعبدالباری فرنگی محلی
کاسنہ وصال ہے۔ان چاروں میں پہلاقدرے طویل ہے اسی لیے اسے قصداًیہاں قلم
اندازکردیاگیاہے۔ان اشعارسے اس تعلق خاطراورمحبت کااندازہ ہوتاہے
جوعزیزؔصفی پوری کوحضرت مولانا سے تھا۔
یہاں آکرفارسی کلام اختتام کوپہنچ جاتاہےاوراردوغزلیات کاآغازہوجاتاہے
البتہ اردوغزلیات کے درمیان میں بھی ایک فارسی غزل موجودہے ،ممکن ہے مرتب
کی بھول چوک سے ایساہوگیاہوورنہ کیاوجہ ہے کہ شروع صفحے پردواردوغزلوں کے
بعدیہاں تک سارا کا سارا کلام فارسی میں ہے(ہاں درمیان میں دو تین جگہ عربی
کلام بھی آگیاہے) اور اب یہا ں سے اردوکلام شروع ہوتا ہےاورپھرکتاب ختم
ہوجاتی ہے ۔یہ اردوکی قریب ۱۳؍ غزلیں ہیں اورہرغزل کئی کئی اشعار کومحیط۔اس
میں دونعتیہ کلام بھی ہیں بقیہ دیگرکلام اپنے اندر عشقیہ مضامین لیے ہوئے
ہےمگریہ عشق مجازی نہیں ہے کہ جس میں زلف وکاکل کی اسیری سے بندہ،بے دام
وبے مرادہوجاتاہے بلکہ یہ عشق حقیقی ہے اورایساعشق ہے جس کی آتش کے سامنے
جہنم کی آتش بھی کچھ نہیں کرتی ،یہ اس عشق کی آگ ہے جو جہنم کی آگ بھی
بجھادیتی ہے ۔۶۲؍صفحات کے اس مجموعے میں چودہ سے پندرہ فارسی نعتیں ،پندرہ
سے سولہ اردوغزلیں(جس میں دونعتیں بھی شامل ہیں) ، تین حمدیں،دوسے عربی
نعتیں اوربقیہ قطعات ،رباعیات ،مثنویاں اورقطعات تاریخ ہیں۔اب اخیرمیں کلام
کے چندنمونے پیش کرکے قلم رکھتاہوں۔
اٹھاتے منہ سے نہ وہ گرنقاب ،کیاکرتے
میں حجاب میں ملاپھرحجاب کیاکرتے
لبالب اس کواناالحق کے جوش سے دیکھا
نہ پیتے ہم جووہ جام شراب کیاکرتے
ہم اپنے ساتھ نوریقین لے گئے تھے
لحدمیں روشنی آفتاب کیاکرتے
مزہ ہے عشق ہے گرکچھ مزہے جینے میں
نہ کرتے عمرجواس میں خراب ،کیاکرتے
عزیزان کوجودیکھاتوہوگئے بے خود
نہ کرتے شوق سے گراضطراب کیا کرتے
..................
روح کوجسم میں پھونکاہے نکلنے کے لیے
کیوں بنے جسم مزارات میں گلنے کے لیے
مہندی ملنے کوبنائے ہیں خدانے وہ پائوں
اوربنایاہے میرے ہاتھوں کوملنے کے لیے
دیکھ کران کوجوچاہے کہ سنبھالے دل کو
ہوش درکارہیں زاہدکوسنبھلنے کے لیے
ہم توزنگ میں پہچان لیتے ہیں انہیں
لاکھ وہ غازہ ملیں رنگ بدلنے کے لیے
لب کوپرنوش کیامیں نے توبولے کہ اے عزیزؔ
تیرے منہ میں ہے زبان زہراگلنے کے لیے
.................
عرش پرحق نے بلایاسب سے اونچاکردیا
عالم بالاسے احمدکودوبالاکردیا
اپنی ذات پاک کامظہربنایاآپ کو
عالم ایجادپیش چشمہ بیناکردیا
لکھ کریہ اشعارنعتیہ میں رویاذوق سے
قطرہ ہائے اشک کولولوئے لالہ کردیا
زندہ کردیں جس دل مردہ کوچاہیں اے عزیزؔ
ہرولی کوآپ نے رشک مسیحاکردیا
.............
شگفتہ ہے بہاروں سے یہ گلزارجہاں کیسا؟
تماشادیکھوہرگل کا،نہ پوچھویہ کہ ہا ںکیسا
مکان ہے اک تعین لامکاںبھی ک تعین ہے
وہی موجودہے بے شک مکان والامکاں کیسا
وہی ریحاں وہی سنبل وہی قمری وہی بلبل
اسی کاہے یہ سب غلغل ،بناہے نغمہ خواں کیسا
وہی دنیامیں دائرہے وہی عقبیٰ میں سائرہے
وہی دونوںمیں ظاہرہے زمیں کیسی زماں کیسا
کہا ہے نحن اقرب صاف صاف آمنت بالقرآں
عزیزاللہ نے کھولاہے خودرازنہاں کیسا
|