2024 کی مہا بھارت کا اعلانِ جنگ

کانگریس پارٹی کا صدارتی انتخاب فی الحال میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان میں آبو روڈ کا دورہ کیا۔ وہاں پر گجرات کے ترنگا جانے والی ریل گاڑی پروجکٹ کا سنگ بنیاد رکھا لیکن درمیان کے دو مندروں میں پوجا پاٹ اور مہاآرتی میں شرکت کے سبب جلسہ گاہ پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر ہوگئی۔ اس طرح رات کے دس بج گئے تو وزیر اعظم نے شہری قوانین کا احترام کرتے ہوئے مائیک استعمال کرنے یعنی خطاب فرمانے سے انکار کردیا۔ عام آدمی کےلیے تقریر کرنا جس قدر مشکل ہوتا ہے مودی جیسے لوگوں کے اس سے گریز اور بھی زیادہ پریشان کن ہو جاتا ہے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے ان کا اہم ترین کام بھاشن بازی ہوکر رہ گیا ہے۔ کوئی سنے نہ سنے اور سمجھے نہ سمجھے ’’ دن رات من کی بات ‘‘ کرتے رہنا ان کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ اس کے لیے ان کو کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا ۔ تقریرلکھنے کے لیے پی ایم اور ایک فوج تعینات ہے۔ دولت کے بل بوتے پرسامعین کو بی جے پی والے جمع کردیتے ہیں اور میڈیا اسے نمک مرچ لگا کر نشر کردیتا ہے اس لیے انہیں کے بقول ’’جھوٹ بولو، اور جھوٹ بولو ، بولے چلے جاو‘‘ کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ ایسے مقررین پر غلام محمد قاصر کا یہ مشہور شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
کروں گا کیا جوخطابت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

راجستھان کے شہر آبومیں اپنی تاخیر کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئےمودی جی وہاں موجود عوام کے سامنے تین بار سر بسجود ہوئے۔ اس کے بعد اپنے کو نظم وضبط کا پابند ثابت کرتے ہوئے کہا کہ’’ میری روح قوانین کی خلاف ورزی گوارہ نہیں کرتی ‘‘۔ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کرکے بے شمار بے قصور لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دینے والے والے وزیر اعظم کی زبان سے یہ جملہ سن کر بے ساختہ ’’مچھر چھانٹنا اور اونٹ نگل جانا ‘‘ والی ضرب المثل یاد آگئی۔ وزیر اعظم نے وہاں موجود’ مودی مودی‘ کا فلک شگاف نعرہ لگانے والوں سے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ پھر آوں گا اور سود سمیت آپ کا پیار لوٹا دوں گا‘‘۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قدر طمطراق سے کیا جانے والے ڈرامہ بھی ذرائع ابلاغ میں خاطر خواہ جگہ نہیں پاسکا کیونکہ گودی میڈیا کی ساری دلچسپی سچن پائلٹ ، اشوک گہلوت اور کانگریس پارٹی کے الیکشن کی جانب مرکوز تھی۔ یار دوست توقع کررہے تھے کہ راجستھان کی سرکار اب گرنے ہی والی ہے۔ کانگریس کو ملنے والی اس غیر متوقع شہرت پر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کا یہ مشہور شعر یاد آتا ہے؎
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام​
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

عصر حاضر میں سیاسی جماعتیں چونکہ مٹھی بھر ا فراد کی موروثی تجارت میں تبدیل ہوچکی ہیں اس لیے ان کے صدارتی انتخاب کو اندرونِ خانہ سرگرمی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال سماجوادی پارٹی کا لکھنو میں منعقد ہونے والا قومی اجلاس ہے ۔ وہاں پر اکھلیش یادو کو تیسری مرتبہ اتفاق رائے سے قومی صدر منتخب کیا گیا۔ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی اور وہ خبر بھی نہیں بنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ انتخاب میں اکھلیش یادو ہی اکلوتے امیدوار تھے اب اگر وہ کامیاب نہیں ہوتے تو کون ہوتا؟ اس کے برعکس اگر ان کے چچا شیوپال یادو اپنی پارٹی کو ایس پی میں ضم کرکے صدارت پر دعویٰ ٹھونک دیتے تو یقیناً میڈیا کی اور عوام کی اس میں دلچسپی بڑھ جاتی ۔ ٹیلی ویژن چینلس پر خوب بحث و مباحثہ یا قیاس آرائیاں شروع ہوجاتیں ۔ ذرائع ابلاغ کو ان باتوں میں دلچسپی نہیں ہوتی جو توقع کے مطابق ہو بلکہ وہ تو ایسی خبروں کو تلاش کرتا پھرتا ہے جو انہونی ہوں ۔اب کیا ہوگا ؟ کا تجسس خبر کو دلچسپ اور مقبولِ عام بناتا ہے۔ کانگریس کی صدارت کے لیے بھی اگر سونیا گاندھی اپنے کاغذات نامزدگی داخل کردیتیں تو کس کی مجال تھی جو انہیں چیلنج کر کے اپنا سر اوکھلی میں دیتا؟ اگر دیتا بھی تو اسے جیتندر پرساد کی مانند 7448 کے مقابلے صرف 94 ووٹ ملتےاور غالب کا یہ گھسا پٹا شعرپھر سے اخبارات کی زینت بن جاتا؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے

بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس سے بہت ساری برائیاں سیکھیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی تو اندرا گاندھی کے نقش ِ قدم اس طرح چلتے ہیں کہ کوئی کانگریسی بھی کیا چلا ہوگا۔ اندرا گاندھی نے غریبی ہٹاو کا نعرہ لگا کر عوام کا دل جیت لیا ۔ نریندر مودی نے اچھے دن آنے والے ہیں کی پکار پر رائے دہندگان کے دلوں میں گھر کرلیا۔ اندرا جی نے پارٹی کے سارے بزرگوں کو باہر کا راستہ دکھا کر کانگریس (آئی) بنالی تو مودی جی نے مارگ درشک منڈل کے پنجرے میں بزرگ رہنماوں کو قید کردیا ۔ اندرا نے بنگلا دیش بناکر خود کو آئرن لیڈی ثابت کیا مودی نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے اپنی دلیری ثابت کی۔ اندرا گاندھی کے دامن پر آپریشن بلیو اسٹار کا دھباّ ہے تو نریندرمودی گجرات فساد کے لیے بدنام ہیں ۔ نوٹ بندی دونوں نے کی اور کچن کابینہ بھی دونوں نے بنائی۔ کانگریس نے بی جے پی سے یہ سیکھا کہ پارٹی معاملات کی نگرانی اور عوامی جذبات کا استحصال ایک فرد کے ذمہ نہیں ہونا چاہیے اس لیے مودی اور شاہ کی مانند راہل اور کھڑگے کے درمیان ان ذمہ داریوں کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔

ملک ارجن کھڑگے کی شخصیت پارٹی کے اندر اس قدر مقبولِ عام ہے کہ ان کا سبھی نے استقبال کیا۔ اشوک گہلوت تو دور ششی تھرور نے بھی ان کے لیے کلماتِ خیرادا کیےحالانکہ اس نئی صورتحال میں وہ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں ؟ وہ اب کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پرانی کانگریس چاہتے ہیں وہ کھڑگے کو ووٹ دیں اور جو تبدیلی کے خواہاں ہیں انہیں ان کے حق میں رائے دینی چاہیے۔کانگریس کے حق میں یہ خوش آئند بات ہے کہ لوگوں کو اپنی پسند کے انتخاب کا موقع دیا جارہا ہےلیکن مخالف امیدواروں کے درمیان نہ تو کوئی تلخی ہے اور نہ پارٹی کے اندر کسی قسم کا فکری انتشار پایا جاتا ہے۔ فی الحال قوی امکان ہے کہ ملک ارجن کھڑگے پارٹی کے صدر منتخب ہوجائیں۔ اس سے پارٹی کے اندر اتحاد بڑھے گا لیکن اس کے ساتھ تقسیم کار بھی ہوگی۔ عوام میں بیداری پیدا کرنے اور تحریک چلانے کا کام تو راہل گاندھی کے ذمہ ہوگا مگر تنظیمی امور ملک ارجن کھڑگے دیکھیں گے اور ان کا وسیع تجربہ پارٹی کے مسائل حل کرنے میں کارگر ثابت ہوگا۔
اقتدار کا فیویکول اپنے آپ لوگوں کو پارٹی سے جوڑے رکھتا ہے لیکن سرکار کے ہاتھ سے نکل جانے پر پیدا ہونے والی مایوسی تنظیم کو کمزور کردیتی ہے۔ ایسے میں تنظیم کو متحد و متحرک رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ بی جے پی میں مودی اور شاہ جو کام کرتے ہیں اب وہ کام کانگریس کے اندر راہل اور کھڑگے کی جوڑی کرےگی ۔یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جئے اور ویرو کی یہ جوڑی گبر اور سانبھا کو کیسا سبق سکھاتی ہے؟ پچھلے نو سالوں میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ قومی انتخاب ہو یا صوبائی الیکشن ،مہم کاآغاز ہمیشہ بی جے پی کی جانب سے ہوتا ہے لیکن اب یہ ترتیب بدل رہی ہے۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا دراصل 2024؍ کی تیاری ہے۔ راہل گاندھی جیسا غیر سنجیدہ سیاستداں کبھی پانچ ماہ کی’’ پدیاترا‘‘(پیدل جلوس) پر نکلے گا یہ بات سنگھ پریوار کے خواب و خیال میں نہیں تھی۔ وہ لوگ جس رہنما کا شہزادہ کہہ کر مذاق اڑاتے تھے وہ کنٹینر میں سوئے گا یہ بھی کسی نے سوچا نہیں تھا ۔

نفرت چھوڑ اور بھارت جوڑو مہم کا آغاز 2؍ اکتوبر سے ہونا تھا مگر وہ پچیس دن قبل سات ستمبر سے شروع ہوگئی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ گاندھی جینتی کے آنے تک یہ نعرہ زبان زدِ عام ہوگیا۔ اس بارپورے ملک میں مختلف سیاسی و سماجی و تنظیموں نے گاندھی جینتی بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ نعرہ لگا کر منائی ۔کرناٹک میں راہل گاندھی کا استقبال ڈھائی لاکھ کے جم غفیر نے کیا۔ ملک ارجن کھڑگے کو ابھی سے کانگریس کا بھیشم پتامہ کہا جانے لگا ہے ۔ وہ اگر کانگریس کے صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو ان کے ساتھ ارجن کا کردار راہل گاندھی ادا کریں گے ۔ اس بار کی مہا بھارت میں پانڈو جیتیں گے یا پھر سے کورو فاتح ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بی جے پی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ در پردہ انتخابی تیاری میں مشغول رہتی ہے فی الحال حیران و پریشان ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کو کیسے توڑا جائے۔ اس بار راہل گاندھی کے اقدامی تیور پر بزرگ شاعر شوکت واسطی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
تم نے چھپ کر محاذ کھولا ہے تم سے کھل کر مقابلہ ہوگا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449815 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.