عمیر الیاسی کے ذریعہ بابائے قوم کا پونرجنم

 آر ایس ایس کی سب سے اہم سالانہ تقریب دسہرہ کے موقع پر اسلحہ کی پوجا ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں کے پاس اسلحہ کی تصویردیکھ کر تھر تھر کانپنے والا سنگھ پریوار خود ہتھیاروں کی پوجا کیوں کرتا ہے؟ یہ کوئی نمائشی حرکت ہے یا ہندو عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی کوئی سوچی سمجھی سازش ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں اس کے ذریعہ یہ یقین دہانی کی جاتی ہے کہ اگر ان پر حملہ ہوجائے تو سنگھ نے اس کی تیاری کر رکھی ہے؟ ان سوالات کا جواب تو سنگھ کے رہنما ہی دے سکتے ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ مذکورہ حکمت عملی سے وہ بھولے بھالے ہندو عوام کو بیوقوف بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اس بار دسہرہ سے قبل سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے مولانا عمیر الیاسی سمیت کئی مسلم دانشوروں سے ملاقات کی اور مسجد ومدرسہ میں بھی گئے ۔ اس تناظر میں امید تھی کہ ان ملاقاتوں کا اثر ان کے خطاب پر نظر آئے گا لیکن آبادی کے توازن کا راگ چھیڑ کر انہوں نے بتا دیا کہ ’’پرنالہ وہیں گرے گا‘‘۔ ایسا پہلی بار نہیں بلکہ بارہا ہوچکا ہے اس لیے کسی کو اس پر حیرت نہیں ہے۔ سنگھ کے لوگ جب کہتے ہیں کہ سب کا ڈی این اے ایک ہے تو اس کا معنیٰ کوئی اور سمجھے یا نہ سمجھے پوری بنی نوع انسانی کو حضرت آدم ؑ کا کنبہ سمجھنے والا مسلمان بخوبی سمجھ جاتا ہے کہ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

سنگھ پریوار نے ہندو سماج کے ایک انتہا پسند طبقہ کا دماغ اس قدر پراگندہ کردیا ہے کہ وہ اپنا کوئی تہوار ہنسی خوشی نہیں مناتا بلکہ ہر بار بی جے پی کے کسی نہ کسی سیاسی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ امسال اپریل میں رام نومی کے موقع پر ملک بھر میں تشدد کی وارداتیں وقوع پذیر ہوئیں اور جگہ جگہ بلڈوزر چلے ۔ اس کے بعد دسہرا پر بھی اسے دوہرانے کی سعی کی گئی ۔ رام نومی کے وقت جو نوراتر ہوتی ہے اس کے پیش نظر جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے میئر مکیش سوریان نے گوشت کی فروخت پر پابندی لگا کر دوکانوں کو بند کرنے کا احمقانہ فرمان جاری کردیا تھا ۔ ان کی دلیل تھی کہ اس سے ہندووں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے لیکن اب کی بار دسہر کے جشن میں زور و شور کے ساتھ بکروں کو بلی چڑھایا جارہا ہے۔ اس کا پتہ یوں چلا کہ جھارکھنڈ میں درگا نومی کے موقع پر بکرا بلی چڑھاتے ہوئےتیز دھار ہتھیار کے پھسل جانے کی وجہ سے قریب کھڑا تین سالہ ویمل اوراوں لہولہان ہوگیا اور اسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گیا۔ درگا پوجا منڈپ میں تیسرے بکرے کی بلی چڑھاتے وقت یہ حادثہ رونما ہوا۔

یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف بی جے پی کا میئر گوشت کے دوکان بند کرواتا ہے دوسری جانب مہاراشٹر کی حکومت ناسک کے قریب سپت شنگاری مندر میں بکرے کی بلی پر لگی ہوئی پابندی اٹھواتی ہے۔ پانچ سال قبل اس مندر میں بلی چڑھاتے وقت کی جانے فائرنگ میں بارہ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اس لیے عدالت نے اس پر پابندی لگا دی ۔ عدالت نے نوٹس اس لیے لیا کہ ایک سال قبل ایک درجن لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔دنیا بھر میں کروڈوں مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے ہیں مگر ایسا سانحہ کبھی رونما نہیں ہوتا کیونکہ وہ کوئی شور شرابا نہیں بلکہ ایک پروقار عبادت ہوتی ہے۔ مہار اشٹر کے اندر اس پابندی کے خاتمہ پر کسی مویشی پسند کی آنکھ سے ایک قطرہ نہیں نکلا۔ مسلمانوں کو قربانی کے حوالے سے اوٹ پٹانگ مشورہ دینے والے سارے ہمدردان مویشیان کو سانپ سونگھ گیا۔

جنوبی دہلی کے سبزی خود میئر کے ساتھ ایک عجب حادثہ ہوگیا کہ امسال اپریل میں تو اس نے اعلان کیا کہ ’نوراتری کے دوران دہلی کے 99 فیصد گھرانے لہسن اور پیاز کا استعمال بھی نہیں کرتے، اس لیے جنوبی دہلی کی میونسپلٹی علاقے میں گوشت کی کوئی دکان کھولنے والوں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔‘ اور اس فرمان کے ۶؍ ماہ بعدجنوبی دہلی کی لودھی کالونی میں انسانی بلی کے نام پر چھ سالہ معصوم دھرمیندر کے قتل کا سنسنی خیز انکشاف ہوگیا ۔ اس واقعہ نے عام لوگوں کے دل و دماغ ہلاکر رکھ دیا مگر میئر صاحب کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ دارالخلافہ دہلی میں مرکزی حکومت کی ناک نیچے اپنی اندھی بھکتی کا وحشیانہ مظاہرہ کرتے ہوئے وجے کمار اور امر کمار نے ایک معصوم بچے کا گلا کاٹا، اس کا خون اپنے ہاتھوں میں لیا اور شیو دیوتا کے کیلنڈر پر خون چھڑکا۔ جنوبی ڈسٹرکٹ کے پولیس حکام نے کچی بستی میں خون کے دھبے والا وہ کیلنڈر برآمد بھی کرلیا ۔

بھجن کیرتن کے بعد بلی چڑھانے والے ملزمان کا کہنا ہے کہ خواب میں دھرمیندر ان کے سامنے آیا تھا ۔ اس وجہ سے انہوں نے اس کی بلی چڑھا دی ۔ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں نوپور شرما معاملے میں اودے پور اور امراوتی میں ہونے والے قتل کا تو ذکر کیا اور مسلم رہنماوں کے ذریعہ اس کی مذمت کو سراہا اور کہا کہ یہ کبھی کبھار نہیں ہمیشہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو سماج میں ایسے واقعات کی پر زور مذمت ہوتی ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ راجستھان کے راجسمند میں شمبھولا ل ریگر نے افرازلاسلام کا قتل کرکے ویڈیو بنائی ۔ اس کی حمایت ہندوتواوادی عدالت پر چڑھ گئے۔ تین لاکھ روپیہ چندہ جمع کیا ۔ سنگھ کے کسی رہنما نے اس کی مذمت نہیں کی ۔ یہی معاملہ جموں کے کٹھوا میں پیش آیا جب ایک معصوم بچی آصفہ کو مندر کے اندر آبروریزی کرنے کے قتل کردیا گیا تو ہندو وکلاء نے مقدمہ چلنے نہیں دیا۔ بالآخر اسے چنڈی گڑھ منتقل کرنا پڑتا ۔ اس وقت بھی سنگھ پریوار ووٹ کے خوف سے خاموش تماشائی بنارہا۔ موہن بھاگوت کی یادداشت کمزور ہوسکتی ہے مگر عوام کی نہیں ہے۔ اس لیے دوسروں کو پروچن دینے سے قبل آئینہ دیکھ لینے میں بھلائی ہے ورنہ ان کےبیانات کیوقعت کسی لطیفے سے زیادہ نہیں ہوگی ۔

مولانا عمیر الیاسی نے موہن بھاگوت سے ملاقات کے بعد انہیں بابائے قوم (راشٹرپتا ) کےخطاب سے نوازدیا ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس لقب سے نوازے جانے کی خاطر ہی وہ مسجدو مدرسہ کا دورہ کیا گیا تھا ۔ فی الحال بی جے پی سمیت کوئی بھی سیاسی رہنما موہن بھاگوت کو بابائے قوم نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ ایسا کرنے میں سیاسی نقصان ہے۔ سادھوی پرگیہ نے جب گوڈسے کی تعریف میں گاندھی جی کے خلاف لب کشائی کی تھی تو وزیر اعظم نے سیاسی نقصان سے بچنے کی خاطر اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ ان مگر مچھ کے آنسووں سے قطع نظر ہندوتوا وادی تنظیموں کے دل میں گاندھی جی کے تئیں کتنی نفرت ہے اس کا اظہار اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے اپنے درگا پوجا پنڈال میں کردیا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسی مذموم حرکت مغربی بنگال جیسے صوبے میں گاندھی جینتی کے موقع پر کی گئی۔

ہندو مہا سبھا کے پنڈال میں گاندھی جی کو اسور (شیطان ) کے طور پر دکھایا گیا۔ اس اسور کے سر پر بال نہیں تھے، وہ چشمہ لگائے اور دھوتی پہنے ہوئےتھا نیز اس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی بھی تھی ۔ درگا پنڈال میں درگا کو گاندھی جی کی طرح نظر آنے والے اسورکا قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔ اس پر ہنگامہ ہوا تو پولیس نے مداخلت کی ۔ اس کے بعد منتظمین نے بادلِ ناخواستہ اسور کے مجسمہ کے سر پر وگ اور چہرے پر مونچھیں لگا دیں۔جوائنٹ کمشنر آف پولیس مرلی دھر شرما کے مطابق منتظمین پر تعزیرات ہند کی دفعہ 188، 283، 153 بی اور 34 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ۔ اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے رہنما گوسوامی نے کہا کہ روبی کراسنگ پر درگا پوجاکو سیاسی طاقتوں سے سیدھا خطرہ ہے۔وہ اس کو بند کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سال کی درگا پوجا کامرکزی موضوع بدعنوانی ہے ۔

یہ تو گاندھی جی مقبولیت ہے کہ ٹی ایم سی اور بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے گاندھی کو ‘مہیش اسور’ کے طور پر پیش کیے جانے پر تنقید کی۔ سوشل میڈیا پر پوجا کا اہتمام کرنے والے ہندو مہاسبھا کے رہنماؤں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ۔شیوسینا لیڈر پرینکا چترویدی نے الزام لگایا کہ یہ مجاہدین آزادی کو نیچا دکھانے کی دانستہ کوشش ہے۔ ایسے میں جبکہ ہندوتوا کے حامی گاندھی مکت بھارت کا اعلیٰ الاعلان نعرہ لگا رہے ہیں موہن بھاگوت اپنے دوست مولانا عمیر الیاسی کے ساتھ مل کرخود کو گاندھی کا نیا اوتار یعنی بابائے قوم بناکر پیش کررہے ہیں ۔ انہیں اس مقصد میں کامیابی ملے گی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن جس طرح آئے دن رونما ہونے والے واقعات سنگھ پریوار کے دعووں کی تردید کررہے ہیں اس سے قوی امکان ہے کہ ملک کے عوام بہت جلد بیدار ہوجائیں گے اور ان کی فطرت انگیزی کاانہیں سبق سکھائیں گے۔

موہن بھاگوت نے چونکہ ہندو سماج کے وقار کی بحالی کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اس لیے وہ بہت سارے حقائق کا اعتراف نہیں کرسکتے ۔ اس علی الرغم گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت نے پچھلے دنوں ہندوؤں کو اول درجہ منافق قرار دے کر نادانستہ طور پر حق بیانی کا حق ادا کردیا ۔ انہوں نے کہا ’’لوگ 'جے گاؤ ماتا' کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن وہ گائے کو اس وقت تک ہی گوشالہ میں رکھتے ہیں جب تک وہ دودھ دیتی رہتی ہے۔ جیسے ہی وہ دودھ دینا بند کر دیتی ہے، تو وہ اسے سڑکوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہندو نمبر ایک کے ڈھونگی ہیں۔ ہندو مذہب اور گائے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن یہاں لوگ خود غرضی کی وجہ سے 'جے گاؤ ماتا' کا نعرہ لگاتے ہیں۔‘‘ ایک سنگھی گورنر کی زبان سے الفاظ سے ادا ہونے والے یہ الفاظ سرسنگھ چالک پوری منافقانہ تقریر سے بھاری ہیں ۔ مشیت اسی طرح دشمنان حق سے بھی حقیقت بیانی کا کام لے لیتی ہے۔



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450201 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.