عطاؤں کا جہاں

کیا کسی انسان نے کبھی ایسا منظر دیکھا ہے کہ آم کے پیڑوں پر گندم کے پودے لگ جائیں یا چاول کے پودوں پر سنگترے اور مالٹے لٹکنا شروع ہو جائیں ،کپاس کی فصل پر انگوروں کے گچھے نمو دار ہو جائیں اور سیبوں کے پودوں پر کیلوں کی نمود ہو جائے ۔ کائناتی قوانین یہ ہیں کہ گندم بہ گندم اور جو بہ جو ۔یہ ہر انسان کا مشاہدہ ہے کہ کائناتی قوانین نہیں بدلتے لیکن یہ ممکن ہے کہ گندم چاول او رپھلوں کی فصل رحمتِ خداوندی سے کئی گنا زیاد ہ بڑھ جائے اور کسان کی جھولیاں مال و دولت سے بھر دی جائیں۔اسی کو اس کی عطا اور عنائت سے موسوم کیا جاتا ہے ۔اﷲ تعالی جب چاہتا ہے،جیسے چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے اپنی مخلوق پر نوازشوں کی بارشیں برساتا رہتا ہے ۔ شب بیداری کا یہی مفہوم ہے ۔ارشادِ خدا وندی ہے (تمھیں اس جگہ سے رزق ملے گا جو تمھارے وہم و گماں میں بھی نہیں ہو گا)گویا کہ رزق کے سر چشموں کی فراوانی ،حصول ،زیادتی اور کمی بیشی کیلئے محنت کے علاوہ ایک ایسا عنصر بھی ہے جسے عطا کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ خدا نے جب اپنے کسی خاص مقرب کو نوازنا ہو تا ہے تو اس کیلئے خزانوں کے منہ کھول دئے جاتے ہیں اور اس کیلئے ایسے مواقع پیدا کر دئے جاتے ہیں جس سے اس کی زندگی کا رخ ببدل جاتا ہے اور وہ کیا سے کیا بن جاتا ہے۔کوئی ایک واقعہ اسے کسی اور جانب بہا کر لے جاتا ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان لاکھ جتن کرتا ہے لیکن اس کی جھولی پھر بھی خالی ہی رہتی ہے اور کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بن مانگے لعل و زرو جواہر سے انسان کو لاد دیا جاتا ہے۔ریت میں ہل چلانے اور بنجرزمین میں ببیج بونے کا نتیجہ ضیاعِ محنت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔سچ تو یہ ہے کہ کبھی کبھی انتہائی زرخیز زمین بھی ریت کا ڈھیر ثابت ہو تی ہے کیونکہ انسانی تکبراس کھیتی کوتباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ حکمِ الہی سے رو گردانی کے سامنے انسانی محنت بے اثر ہو جاتی ہے اور غیر مرئی عوامل کی وجہ سے عطاؤں کے عنصر کا فقدان ہو جاتا ہے۔ قوانینِ فطرت سے جب بھی اغماز برتا جائے گا تواس کا نتیجہ تباہی ہی ہو گا ۔اصل بات یہ ہے کہ انسانی محنت پر مالک ِ ارض و سماء کی نظرِ کرم اور عنائت کتنی ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے (ظالم کی کھیتی کبھی نہیں پنپ سکتی) قومِ ثمود ، قومِ عاد اور قومِ شعیب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ وہ سب کچھ رکھنے کے باوجود مٹ گئیں۔،۔
؂اگر ہم علم و فن کی دنیا کی جانب نگاہ دوڑائیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرانگی ہو تی ہے کہ اکثر ادیبوں اور شاعروں نے اﷲ تعالی کی کرم گستری سے ہی شہرت کی بلندیوں کو چھویا ۔جسے یقین نہیں آتا وہ اہلِ جہان کو بتا دے کہ شیکسپئر ، وارث شاہ،میاں محمد اور بابا بھلے شاہ کونسی درسگاؤں سے فارغ التحصیل تھے ؟ بساطِ علم پر جب ربِ کعبہ کی نظرِ کرم ہو جائے تو پھرسقراط، افلاطون، ارسطو، بقراط ، گلیلیو ، ملٹن ، مولانا روم، سعدی شیرازی ، حافظ شیرازی ، فردو سی شیرازی، میر، غالب ، کار ل مارکس، ہیگل، دانتے ،گوئٹے ، مہاتماٹالسٹائی، نیطشے، نیوٹن ،آئن سٹائن، مولانا روم اور اقبال دنیا بھر کو اپنی دانش اور فکر سے روشن کرتے ہیں ۔انسانی ناموری ،شہرت ، عزت اور تکریم نزولِ رحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور نزولِ رحمت کیلئے مسلم اور غیر مسلم میں کوئی تمیز نہیں ہو تی۔اﷲ تعالی ایک خاص توازن سے علم و حکمت کی شمعیں مختلف ممالک اوراقوام میں روشن کرتا چلا جاتا ہے تا کہ پوری انسانیت ان نابغہ روزگار شخصیتوں کے فکرو فن اور عقل و دانش سے فیضیاب ہو تی رہے۔اگر ہم شاعری اور ادب پر نگاہ دوڑائیں تو اکثر شعرا ء کی شاعری صدیوں کے سفر کے بعد بھی ترو تازہ رہتی ہے گویا کہ فیضانِ خدا وندی ہے جو ان کے حرف کو عظمت بخشتا ہے لہذا وہ جوہر جو حرف وفن کی تخلیق کا سبب بنتا ہے خدا کا عطا کردہ ہی ہوتا ہے۔وہ خدا جس پر کچھ غیر مسلم دانشور ایمان بھی نہیں رکھتے تھے ۔ کارل مارکس ،ہیگل،نیطشے ،دانتے اور گوئٹے تو خدا اور مذہب کے ہی منکر تھے لیکن پھر بھی ان کی تخلیقات نے پورے عالم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔،۔

یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ ہر دور کا دانشور اپنے مخصوص دور کے حقائق کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہر دانشور اپنے دور کے علم،مشاہدات،فلسفہ،سوچ، واقعات، حالات،ماحول اور تہذیب و تمدن سے اپنی فکر کو جلا بخشتا ہے لیکن حیران کن امریہ ہے کہ اس کے باوجود اس کا تخلیق کردہ ادب کئی زمانوں کیلئے دلکشی کا حامل قرار پا تا ہے۔ شاعری چونکہ لطافت اور جذبات کی آئینہ دار ہوتی ہے اور انسانی نفسیات کا بیانیہ ہوتی ہے اس لئے اس کی عمر بڑی طویل ہوتی ہے۔شاعری زمان و مکاں کی بجائے انسانی حسیات،جذبات، اور دل کی دنیا کو موضوعِ سخن بناتی ہے اس لئے زمان و مکان کے احوال بدل جانے سے بھی اس کی لطافت بر قرار رہتی ہے ۔ صدیوں پہلے کا انسان بھی محبت کا پجاری تھا اور آج کا انسان بھی محبت کی راگنی گا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا کی ظاہری شکل و صور ت اور ہئیت بدل گئی ہے ،آرام و آسائشاتِ کی فراوانی ہو گئی ہے لیکن مہ جبینوں کے ناز اٹھانے کا چلن اب بھی وہی ہے،محبوب پر جان لٹانے کا جذبہ اب بھی پہلے جیسا ہے اور پھر (نازکی اس کے لب کی کیا کئے۔،۔پنکھڑی اک گالاب کی سی ہے )کا جنون اب بھی اسی طرح توانا ہے۔غنچہ دہن سیمیں بدن کی دید سے آج بھی دلوں میں ویسے ہی تموج پیدا ہوتا ہے جیسے پرانے وقتو ں میں ہوا کرتا تھا۔خدائے علیم و بصیر نے اس کائنات کے ارتقاء اور بقا کیلئے ایسے قوانین مرتب کر رکھے ہیں اور پھر ان میں ایسی کشش،دلکشی،انسیت اور دلچسپی پیدا کر رکھی ہے کہ اس کائنات کی محبت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔شاعری کا ایک نادر نمونہ دیکھئے ۔ (عارض چہ عارض۔،۔ گیسو چہ گیسو۔،۔ صبح چہ صبح ۔،۔ شامے چہ شامے ) ۔،۔(لوحِ جبینش ۔،۔ صبح ِ تجلی ۔،۔ روئے مبینش ۔،۔ ماہِ تمامے ) ۔،۔(از چشمِ لرزاں ۔،۔ لرزاں دو عالم۔،۔از زلفِ برہم۔،۔ برہم نظامے۔،۔)۔،۔

کوئی انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے وہ خدا نہیں بن سکتا۔پیغمبری ایک علیحدہ موضوع ہے کیونکہ یہ کسب و ہنر سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی محنت و مشقت اور علوم و فن سے اس منصب کا حصول ممکن ہو تا ہے ۔ یہ عطائے ربانی ہوتی ہے اور کبھی کبھی جسے یہ تفویض ہوتی ہے اسے خود بھی اس کی خبر نہیں ہوتی ۔غارِ حرا اور کوہِ طور کا منظر اہلِ علم کی نگاہ میں ہے لہذا وہ بیان کردہ کیفیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔حضرت علی کا قول ہے کہ (میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹو ٹنے سے پہچانا)ابدی سچائی ہے ۔ہر انسان خواہشات و جذبات کا مجسمہ ہے،اس کی خواہشیں اور آرزوؤیں لا محدود ہیں لہذا وہ اپنی آرزوؤں کی تکمیل چاہتا ہے لیکن اس بات کی خبر تو مالکِ کون و مکاں کو ہے کہ کونسی آرزو اس کے حق میں بہتر ہے اور کونسی اس کیلئے زہرِ قاتل۔ارشادِ خدا وندی ہے ( ہمیں علم ہے کہ کونسی شہ انسان کیلئے مفید ہے اور کونسی نقصان دہ لیکن انسان اپنی کم علمی کی وجہ سے اس چیز کے حصول کی خوا ہش بھی کرتا رہتا ہے جو اس کے حق میں نقصان دہ ہوتی ہے )اس بات کی وضاحت دوسری جگہ یوں کی گئی کہ( ہم انسان کو وہ سب کچھ دیں گے جس کی وہ خواہش کرے گا بلکہ وہ بھی عطا کریں گے جو اس نے مانگا نہیں ہو گا)۔اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں ۔کیا کسی بچے کو علم ہو تا ہے کہ مرسیڈیز ،بی ایم ڈبلیو،رولز رائس،ہوائی جہاز اور جمبو جیٹ کیا ہے ؟اسے اپنے چھوٹے چھوٹے کھلونوں سے دلچسپی ہوتی ہے اور ان کے چھن جانے سے اس کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو جاتے ہیں۔وہ صرف اپنے کھلونے مانگتا ہے حالانکہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔انسان بھی محدود سوچ اور عقل کا مالک ہوتاہے لہذا وہ انعامات ، نوازشیں اور عطائیں جو انسان کو شسدر کر سکتی ہیں انسانی حیطہِ ادراک سے ماوراء ہوتی ہیں۔جس خزانے کا انسان کو علم ہی نہیں ہے وہ اس کی خواہش کیسے کرسکتا ہے؟ اﷲ تعالی اپنی بے پایاں رحمت کے صدقے ان خزانوں سے بھی انسان کا دامن بھر دیگا جو اس کے حیطہ ِ ادراک سے ماورا ہوں گی کیونکہ انسان خدا کی سب سے پیاری تخلیق ہے اور اس کی خوشی اسے سب سے زیادہ عزیز ہے۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.