''قیاس کی شرعی حیثیت و ضرورت ،ایک تحقیقی جائزہ''

''قیاس کی شرعی حیثیت و ضرورت ،ایک تحقیقی جائزہ''
ڈاکٹر حافظ محمد اویس معصومی صاحب کا پی ایچ ڈی مقالہ

قیاس کی شرعی حیثیت و ضرورت

''قیاس کی شرعی حیثیت و ضرورت ،ایک تحقیقی جائزہ''
ڈاکٹر حافظ محمد اویس معصومی صاحب کا پی ایچ ڈی مقالہ

تحریر:۔محمداحمد ترازی
قرآن،حدیث اوراجماع کے بعد ''قیاس'' اسلامی فقہ کا چوتھا ماخذ ہے۔اِن سب کی اصل،بنیاد،اساس،منبع اور سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ علم اُصول فقہ وہ علم جس میں احکام کے مصادر ،اُن کے دلائل کے استدلال کے مراتب اور استدلال کی شرائط سے بحث کی جائے اوراستنباط کے طریقوں کووضع کر کے معین قواعد کا استخراج کیا جائے کہ جن قواعد کی پابندی کرتے ہوئے مجتہد تفصیلی دلائل سے احکام معلوم کرے علامہ ابن خلدون کے بقول'' اِس وجہ سے یہ علم علوم شریعت میں سے سب سے عظیم، مرتبے میں سب سے بلند اور فائدے کے اعتبار سے سب سے زیادہ معتبرہے ۔''یعنی جس طرح کسی بھی زبان کو جاننے کےلئے اُس زبان کے قواعد واصول کو سمجھنا ضروری ہے ۔اُسی طر ح فقہ میں مہارت حاصل کرنے کیلئے اُصول فقہ میں دسترس اور اُس پر عبور حاصل کرناضروری ہے۔ اِس علم کی اہمیت کے پیش نظر آئمہ فقہاءو محدثین نے اِس موضوع پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں۔
اسلامی فقہ کی تاریخ میں حنفی فقہ امتیازی طور پر قیاس اور رائے کے استعمال کیلئے مشہور ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے فقہ اسلامی کے اصول و ضوابط اور قواعد کی بنیاد ڈالی اور ''قیاس'' کو آپ نے بطور قانون سب سے پہلے استعمال کیا۔اسی وجہ سے آپ ''اہل الرائے''یا'' امام القیاسین ''بھی کہلائے۔ آئمہ اربعہ میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اور جس طرح اسلامی دنیا کے بڑے حصہ میں آپ ؒکے مسلک کی حکمرانی ہے۔وہ اسلامی تاریخ کا سنہرا باب ہے ۔ آپؒ ہی کے ذریعہ فقہ کی تدوین کا عظیم الشان کارنامہ انجام پایا۔ آپ ؒ کی فقہ'' فقہ حنفی''دراصل آپ ؒاور آپؒ کے تلامذہ کے اجتہادات کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔آج کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی فقہ حنفی کی جو معنویت ہے ،وہ دوسری کسی بھی فقہ میں نظر نہیں آتی۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں کہ فقہ حنفی فطرت کے عین مطابق ہے کیونکہ اُس میں ہر اُس مسئلہ کا حل موجودہے جس کا فطرت تقاضہ کرتی ہے۔
حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ جو فقہ پڑھنا چاہتا وہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کا محتاج ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کی تدوین کی اور اِسے ابواب میں مرتب کیا۔ پھر موطا کی ترتیب میں امام مالکؒ نے اُن کی پیروی کی، امام اعظم ابو حنیفہؒ سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا۔ کسی نے خوب کہا کہ فقہ حنفی کی موجودہ صورت کی تخم ریزی حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ہی نے کوفہ میں ڈالی تھی۔ جس کی نسل بہ نسل علقمہؒ، ابراہیمؒ اور حمادؒ نے آبیاری کی۔ اور اپنے اجتہادات کے ذریعہ اِس میں اضافہ کرتے رہے۔ پھر اِس سرمایہ کو امام ابوحنیفہ ؒ نے پورے تفحص و تنقیح کے بعد مرتب کروایا۔ امام ابو یوسف ؒنے پورے علاقہ مشرق میں اِس کو رواج دیا اور امام محمدؒ نے اِن دفینوں کو سینوں میں محفوظ فرمایا۔کہنے والے نے کہا کہ ”ابن مسعود نے فقہ کی کاشت کی، علقمہؒ نے سیراب کیا، ابراہیم ؒنے کاٹا، حماد نے دانے الگ کئے۔ابوحنیفہؒ نے پیسا، ابو یوسفؒ نے گوندھا، محمد بن الحسنؒ نے روٹی پکائی اور تمام لوگ اِس روٹی سے کھا رہے ہیں۔“
اُصول فقہ کے اُصولوں میں سے ایک اُصول'' اُصول قیاس''بھی ہے۔اُصولیین قیاس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''القیاس فی اللغة التقدیر و فی الشرع تقدیر الفرع بالاصل فی الحکم والعلة'' لغت میں قیاس کے معنی'' اندازہ کرنا'' ہیں اور شریعت میں حکم وعلت کی بنیاد پر فرع کے حکم کو اصل کے مطابق قیاس کرنا ہے۔باالفاظ دیگر قیاس کی تعریف اِس طرح بھی کی جاتی ہے کہ :''الحاق امر بامر فی الحکم الشرعی لاتحاد بینھما فی العلة ''ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ کے ساتھ شرعی حکم میں اِس بنیاد پر ملانا کہ دونوں کے درمیان حکم ِعلت مشترک ہے۔مطلب یہ ہوا کہ شریعت نے کسی اَمرمیں کوئی حکم دیا تو اُس کی علت معلوم کرلی جائے ۔اب وہ علت جہاں جہاں پائی جائے وہاں وہی حکم لگایا جائے گا۔اِس کو اصطلاح میں یوں کہیں گے کہ ''شریعت نے کسی اَمر میں جو حکم دیا ہے علت ِمشترکہ کی بناءپر وہی حکم دوسرے اَمر میں دینا قیاس ہے۔''اصولیین لکھتے ہیں کہ قیاس کی حجت پر نقل شاہد ہے۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے :''فاعتبرا یا اولی الابصار'' آنکھ والو ! نصیحت حاصل کرو۔قرآن مجید کی آیت ''لیتفقھوا فی الدین'' کو بھی قیاس کی بنیاد بتلایا جاتا ہے۔
فقہاءکی اصطلاح میں علت کو مدار بناکر سابقہ فیصلہ اور نظیر کی روشنی میں نئے مسائل حل کرنے کو قیاس کہتے ہیں۔بحیثیت ِشرعی دلیل شرعی ہونے کے فقہ حنفی میں اِس کی تعریف اِس طرح کی گئی ہے کہ اصل نصوص کے حکم جو مقیس علیہ ہے کسی خاص صورت تک توسیع دینا بسبب ایسی علت ِمتحدہ کے جس کا اِدراک محض لغت سے نہیں ہوسکتا۔مالکی قائل ہیں کہ استنباط کو بلحاظ ِعلت کے اصل حکم کے ساتھ مطابق کرنے کا نام قیاس ہے، جبکہ شافعیوں کے نزدیک اُمورِ شرعیہ میں معلوم کو معلوم پر ایک علت ِموثرہ احکام کی وجہ سے عمل کرنے کا نام قیاس ہے۔صاف اور صریح الفاظ میں قیاس اُس عمل استنباط کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے ایک نص کا حکم اُن صورتوں سے متعلق کیا جاتا ہے جو اگرچہ نص کے الفاظ میں نہیں آتیں مگر اُس کی علت میں داخل ہوتی ہیں۔نص کی علت کو''رکن''اور اُس کے حکم کی توسیع کوجس سے شرعی اُمور میں قیاس قائم کیا جاتا ہے'' حکم ''کہتے ہیں۔
قیاس بحیثیت حجت ِ شرعی کے کلام مجید،حدیث اور اجماع کے بعد ہے۔ جس کو فقہائے اسلام اصل یا نص کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اکثر فقہاءمتکلمین کے نزدیک قیاس ایک شرعی حجت ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ ؒ بھی قیاس کو شرعی حجت مانتے ہوئے اِس کی تعریف اِس طرح کرتے ہیں کہ:''قیاس کی اصطلاحی تعریف سے قطع نظر قیاس اور رائے میں فرق یہ ہے کہ اپنا وہ خیال جو کسی اصل شرعی یعنی کتاب،سنت اور اجماع پر مبنی ہو وہ قیاس ہے اور جو کسی اصل شرعی پر مبنی نہ ہووہ رائے ہے۔''
واضح رہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں لفظ رائے کو قیاس ِشرعی کے معنی میں استعمال کیا جاتا تھا۔لیکن جب لوگوں نے رائے خالص اور قیاس ِشرعی میں امتیاز کرنا چھوڑ دیا اور ہر قسم کی رائے کو شرعی احکام کے اثبات کیلئے دخیل بنادیا تو بعد کے دور میں ضروری ہوا کہ رائے اور قیاس کو ایک دوسرے سے جدا کرکے اُن کا اصطلاحی فرق واضح کیا جائے۔اِس کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب فتوحات ِاسلامی دور دراز ملکوں تک پہنچیں اور مملکت ِاسلامی کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا اورمسلمانوں کا ربط وضبط مختلف اقوام سے ہوا تو ایسے نئے نئے مسائل و معاملات سامنے آئے جن کے متعلق نہ قرآن وسنت میں کوئی تفصیلی حکم موجود تھا اور نہ ہی اُن کے بارے میں اجماع اُمت تھا۔
چنانچہ اُن کا حل تلاش کرنے کیلئے فقہاءعقل کو حکم بنانے اور رائے کو کام میں لانے پر مجبور ہوئے۔لیکن وہ اِس بارے میں بالکل آزاد نہ تھے بلکہ وہ اُن قواعد وضوابط کے پابند تھے جنھیں اُنہوں نے ایک نئے باب یعنی'' باب القیاس'' میں درج کیا اور اِس کو اسلامی قانون کی چوتھی دلیل قراردیتے ہوئے قائدہ شرعی کے اِس اُصول سے استدلال کیا کہ شریعت کے تمام احکام مخصوص اغراض پر مبنی ہیں اور اغراض و مصالح ہی اُن احکام کی علت ِغائی اور اُن کے وجود کا سبب ہیں۔اِس لیے فقہاءاحکام کے علل واسباب دریافت کرتے ہیں ۔اورجب وہ کسی مسئلے کے متعلق ایسے حکم کی علت ِغائی دریافت کرلیتے جو نص کی رُو سے دیا گیا ہو تو اُن کیلئے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ کسی دوسرے مسئلے کو اُسی پر قیاس کرسکیں اور اُس کو بھی ویسا ہی حکم دے سکیں جیسا پہلے مسئلے کو دیا گیا تھا،بشرطیہ دونوں کی علت ِغائی ایک ہو۔جیسے اسلامی فقہ کے اوّلین ماخذ قرآن ِمجید میں خمر (شراب) حرام ہے اور اِس کی حرمت کی علت اُس کا نشہ آور ہونا ہے۔لہٰذا جو بھی دوسری چیزیں ایسی ہوں گی جن میں نشہ آور ہونے کی علت پائی جاتی ہے وہ حرام ہوں گی۔یعنی خمر کی حرمت ثابت ہوگی نص قرآنی سے اور دوسری نشہ آور اشیاءکی حرمت قیاس ہے۔
اسلامی فقہ کی تدوین ِ نو میں قیاس اور استدلال کا استعمال کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع تینوں سے ثابت ہے ۔قرآن مجید میں سورہ الحشر کی آیت ۱۲ ،اور ۲،میں لوگوں کو غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے ۔اِس سلسلے میں اہم ترین دلیل حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔جس میں حضرت معاذ کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خوش ہونا ، اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا اور جواب کو صحیح قرار دینا، اِس امَر کی واضح دلیل ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حکم موجود نہ ہو تو قیاس کرنا چاہیے۔خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیاس و اجتہاد کرنا ثابت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”جن معاملات میں وحی نازل نہیں ہوتی اُن کا فیصلہ میں اپنی رائے سے کرتا ہوں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام شرعیہ میں قیاس کرنے کے کئی واقعات صحیح روایات سے ثابت ہیں۔
چنانچہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ پر حج فرض ہوگیا ہے لیکن وہ بہت بوڑھا ہے۔سواری پر ٹھہر نہیں سکتا۔اگر میں اُسے سواری پر باندھتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں مر نہ جائے۔کیا میں اُس کی جانب سے حج کرسکتا ہوں۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اُس پر قرض ہوتا اور تو ادا کرتا تو کیا وہ ادا نہ ہوتا۔؟اُس نے عرض کیا ضرور ادا ہوتا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے باپ کی جانب سے حج کر کیونکہ اللہ کا قرض ادائیگی کے زیادہ لائق ہے۔“اِس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو قرض کی ادائیگی سے قیاس کیا۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قیا س کی مشروعیت پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متفق تھے۔چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ''امثال ونظائر کو سمجھو اور پہچانو پھر زیر فتوی مسائل کو اُن پر قیاس کرو۔''
اِس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی مسائل میں قیاس فرماتے تھے اور بہت سے صحابہ کرام نے بے شمار مسائل میں قیاس کیا۔ کسی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ اُنہوں نے قیاس کرنے پر اعتراض کیاہویااِس کی تردید کی ہو۔ اِس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قیاس کے شرعی دلیل ہونے پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کااجماع ہے۔اور بے شمارمسائل ایسے ہیں جن میں حضرات صحابہ کرام نے قیاس کرکے مسئلہ بتایا۔ مثلاً صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کونماز کی امامت پرقیاس کیا۔اِسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین ِزکوٰة کے خلاف قتال کرتے وقت زکوٰة کو صلوٰة پر قیاس کیا۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ قیاس انسان کی ایک فطرت ہے۔ کوئی فطرت سلیمہ رکھنے والا عقلمند شخص قیاس کاانکار نہیں کرسکتاہے۔ روزمرہ کے بے شمار واقعات ہیں ہر انسان ایک واقعہ کودیکھ کر اُس سے ملتے جلتے واقعات کاحکم سیکھتاہے۔ حتی کہ بچے تک قیاس سے واقف ہیں۔ مثلاً کلاس میں استاد صاحب ایک بچے کوکسی غلطی پر ڈانٹتے ہیں تو اُس کودیکھ کر دوسرے بچے بھی سنبھل جاتے ہیں کہ یہی غلطی ہم سے ہوئی تو ہمیں بھی ڈانٹ پڑے گی۔ یہ قیاس نہیں تو اورکیاہے۔؟اِس سے معلوم ہواکہ قیاس ایک فطری چیزہے۔ زندگی میں پیش آنے والے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا حکم فقہائے اُمت نے قیاس کے ذریعے معلوم کیا ہے اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ اگرقیاس کوبطور دلیل شرعی تسلیم نہ کیاجائے تواِن مسائل میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہیں۔ کیونکہ ان مسائل کاحکم قرآن وسنت میں مذکور نہیں ہے۔اِس کا مطلب یہ ہواکہ قیاس کاانکار کرنے سے دین میں تعطل پیدا ہوتاہے۔
یہ مسلمہ بات ہے کہ دین ایک کامل ضابطہ حیات ہے۔یہ بھی معلوم ہے کہ تمام مسائل کا حکم صراحتاً قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے۔ اب یہ بات کہ دین کامل ضابطہ حیات ہے۔ اُسی وقت درست ہوسکتی ہے جبکہ قیاس سے مسائل کاحکم معلوم کرنے کوتسلیم کرلیاجائے۔ ورنہ جن مسائل کاحکم قرآن وسنت میں صراحتاً مذکور نہیں اورقیاس کے ذریعے اُن کا حکم معلوم کرنابھی درست نہ ہو تواُن مسائل کے سلسلے میں دین کی کوئی رہمنائی نہ رہے گی اور پھر اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کیونکر رہ سکے گا۔ہاں دین کے مسائل میں قیاس کرنے کی ہرشخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی ، اِس کے لیے بھی اہلیت کا ہونا ضروری ہے۔ اور وہ اہلیت قرآن و سنت اور تاریخ اسلامی پر مضبوط دسترس کا نام ہے۔ اگر ہر ایرا غیرا اگر دین کے مسائل میں قیاس شروع کردے تو دین کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ جائے گا۔یہ ہر عام آدمی کا کام نہیں بلکہ اِس کے اہل صرف علماءحق میں راسخین و صالحین اور متقی علماءیا حضرات مجتہدین ہیں۔اور اُن ہی کا قیاس دلیل شرعی ہے۔
قاتین محترم !یہ وہ اجمالی خلاصہ ہے جو نے''قیاس کی شرعی حیثیت و ضرورت، ایک تحقیقی جائزہ''سے کشید کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اویس معصومی صاحب کی یہ کتاب فقہ کے چوتھے اور اہم اصول '' قیاس''کے موضوع پر تحقیقی دلائل سے مزین ایک اہم تحقیقی مقالہ ہے۔ جس پرجامعہ کراچی نے اُنہیں 2012ءمیں پی ایچ ڈی کی سند سے نوازا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اِس مقالے میں قیاس کی شرعی حیثیت و ضرورت کو ہی ثابت نہیں کیا بلکہ عصر حاضر میں اِس کا کردار وعمل اورمسائل جدیدہ کے حل کیلئے اِس کا اطلاق و انطباق اور خاص طور پر غیر منصوص مسائل کے ممکنہ حل کے ساتھ ایک ہی معاملہ میں دو یا دو سے زائد حل ہونے کی صورت میں اختیار کردہ ترجیحی طریقہ کا بھی مدلل جائزہ لیا ہے۔اِس مقالے کا ایک اہم اور قابل قدر پہلو غیر مقلد ین وہابیہ کی جانب سے احناف پر اہل الرائے اور قیاسین ہونے کی تہمت اور الزام کا بھی مسکت جواب دیا گیا ہے۔آپ نے عام لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے اِس تاثرکہ شرعی احکام منجمد،فرسودہ اور ناکارہ ہیں اورفی زمانہ اِن کا اطلاق ممکن نہیں ،کی بھی نفی کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اسلام ہی ایسا دین فطرت ہے جس کے احکامات و تعلیمات ہر زمانے کے مسائل کا جامع و مکمل اورآسان و اطمنان بخش حل فراہم کرتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد اویس معصومی صاحب کا یہ مقالہ اِس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ اِس میں قیاس کی تعریف ،فنی و شرعی حیثیت،تعارض واقسام کے ساتھ قیاس کا تاریخی پس منظر، آغاز و ارتقائ،ترتیب وتدوین،عمل وثمرات، اور قیاس کی صلاحیت و اہمیت کے ساتھ ساتھ نت نئے مسائل کے حل میں قیاس کے کردار اور اِس پر جدت پسندوں کے سوالات واعتراضات سے کمزور ذہنوں میں اُٹھنے والے اشکالات ، اُس کے جوابات اور تحری اور قیاس کا تقابل جیسے اہم موضوعات کو پہلی بار موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔جس سے مقالے کی اہمیت و افادیت کے ساتھ صاحب ِ مقالہ کی محنت و جستجو ،وسعت ِ مطالعہ اور علمیت واضح ہوتی ہے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی ''اُنہوں نے قیاس سے متعلق تحقیقی اسلوب اپنایا جو قابل توصیف ہے۔اِس نادر تحقیق پر ڈاکٹر حافظ محمد اویس معصومی مبارکباد کے مستحق ہیں۔مقالہ نگار نے اِس کی ترتیب و تسوید میں جس کوہ کنی کا ثبوت دیا ہے اُس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔''
یہ مقالہ چھ ابواب اور ہر باب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔
باب اوّل:۔اُصول فقہ کا تاریخی پس منظر،نشوونما،علم اُصول فقہ کی حقیقت اور بنیادی ماخذ بیان کرتا ہے۔
باب دوم:۔میں ڈاکٹر صاحب نے قیاس کی حقیقت و معرفت ،لغوی و اصطلاحی بحت ومفاہم اور بنیادی ارکان واقسام کا جائزہ لیا ہے۔
باب سوم:۔قیاس کی شرعی حیثیت ،ثبوت ،تقابل اور فروق کے بیان پر مشتمل ہے ۔
باپ چہارم :۔میں قیاس کی عملی حیثیت و کردار کا احاطہ عہد بعہد ( عہد رسالت وصحابہ) کے ساتھ فقہاءو اصولیین کے خیالات و آراءکا جائزہ لیا گیا ہے۔
باب پنجم:۔جدت پسندوں کے سوالات کے جوابات،قیاس و تحری کا موازنہ ،ضرورت و عملی ثمرات اور اہلیت و احتیاط جیسے ضروری موابحث سے مزّین ہے۔
چھٹا باب:۔ مصادر کتب اور کتابیات کیلئے خاص ہے جو صاحب مقالہ کی تحقیق و جستجو کا مظہر ہے۔
اختتامیہ میں صاحب محقق نے مقالہ کا خلاصہ ،نتائج ،قیاس کی کامیابی وحکم ،اہم شرعی ماخذاور قیاس کے خادم قرآن و سنت ہونے جیسے اہم موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔یہ تحقیقی مقالہ 640،صفحات پر محیط ہے ۔جس میں جناب ڈاکٹر محمد اویس معصومی صاحب نے اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے نہ صرف سیکڑوں دلائل وبراہین کا سہارا لیا ہے بلکہ بہت شرح و بسط کے ساتھ ہر مسئلہ پر جامع گفتگو کی ہے۔ مقالہ کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ قیاس کا طریقہ کار انسانی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے ساتھ اُس کے حقوق کا تحفظ ،عائد ذمہ داریوں کی وضاحت،حکم شرعی کا انکشاف،اختیار و دائرہ کارکا تعین اور اُن کے درمیان باہمی تعلقات و نسبتوں کے احکام کو بھی سہل بنادیتا ہے ۔یہ ہر شعبہ زندگی خواہ اُس کا تعلق سیاسی، سماجی،اقتصادی یا قانونی اور دیوانی معاملات سے ہی کیوں نہ ہو، کی مشکلات و مسائل کا حل فراہم کر تا ہے اور معاشرے سے استحصال ،استبداداور شروفساد کا قلع قمع کرتا ہے۔یہ فکرعمل کی سلامتی،ترقی ونشوونما اور اُس کے وسیع امکانات کی طرف رہنمائی کرتا ہے تاکہ انسانیت کو ترود اور ذہنی خلجان سے نجات ملے اور وہ پیش آمدہ نت نئے مسائل کی رکاوٹوں کو عبور کرکے اپنی زندگی کے معاملات آگے بڑھا سکے۔
یہ قیاس ہی ہے جودین کو ہوس پرستی،دھونس ،دھاندلی،نفسانی خواہشات،بے راہ روی اور مادر پدر آزاد جدت پسندوں کی مداخلت سے باز رکھتا ہے تاکہ لوگ اسلام کے مقاصد اصلیہ سے روگردانی سے محفوظ اور بچے رہیں۔خیال رہے کہ قیاس ہی وہ ماخذ ہے جس کے ذریعے قانون شریعت کا بڑا حصہ ترتیب پاتا ہے اور اسی کے ذریعے قرآن و سنت کا اجمال اور اُس کے اصول وکلیات اور اُس کے محدود قوانین اور احکام جامد ہونے کے بجائے قیامت تک کیلئے متحرک ہیں ۔اوراسی کے ذریعے ہم قیامت تک پیش آنے والے ہر نئے معاملہ کا جواب حاصل کرسکتے ہیں ۔
یہ اہل علم کیلئے ایک بہترین تحفہ اور انمول علمی وتحقیقی خزانہ ہے۔ درحقیقت ”قیاس“ کا اصول نئے نئے حادثات وواقعات کے خلاف انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اِس تناظر میں ڈاکٹر محمد اویس معصومی صاحب کا یہ مقالہ ایک گرانقدر علمی اور تحقیقی کاوش ہے ۔یقینا یہ اہل علم کیلئے ایک بہترین تحفہ اور انمول علمی وتحقیقی خزانہ ہے جس پر ڈاکٹر صاحب قابل ستائش اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔

M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 312476 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More