تیرا چیف نہ میرا چیف۔۔۔

زمانے کے انداز بدلے گئے، نیا راگ ہے ساز بدلے گئے۔ سیاست کے انداز یکسر بدل چُکے ہیں، طاقت کا مرکز اپنی جگہ تبدیل کر رہا ہے تاہم اس آخری معرکے کے آخری مرحلے میں اعصاب شکن جنگ اپنے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔

گھڑی کی ٹک ٹک محور سے وقت کے تعین کا اعلان کرنے کے لیے بے تاب۔۔۔ وقت کس کا ہے، اس کا فیصلہ اگلے چار ہفتوں میں ہو جائے گا۔

کبھی وطن عزیز میں آرمی چیف کی تعیناتی کا اتنا چرچا نہ سُنا جو گزشتہ تین برس میں زبان زد عام ہوا۔

پہلے پارلیمنٹ نے آرمی چیف لگایا اور اب آرمی چیف کی تعیناتی ایک اشتہاری مہم کی شکل اختیار کر چُکی ہے اور عمران خان صاحب گلے میں ’میں تاں آرمی چیف ہی لاساں‘ کا بڑا بورڈ آویزاں کیے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور کیوں نہ پیٹیں اُن کی آرمی چیف لگانے کی خواہش کا گلا گھونٹ کر اُنھیں چلتا کیا گیا اور اب وہ کسی اور کو چلتا کرنے کے درپے ہیں۔

چار برس کے بسے خوابوں کو عین تکمیل کے وقت تعبیر سے دور کر دیا گیا اور اب وہ شہباز شریف کے خواب چکنا چُور کرنا چاہتے ہیں۔

خواہش یہاں تک لے آئی ہے کہ یہ بیان بھی داغ دیا کہ نہ آپ کا چیف نہ میرا چیف۔۔۔ بس کہیں درمیان کا چیف۔ بالکل اُسی طرح جیسے قالین بیچنے والا غیر حقیقی دام مانگنے پر تکرار کے بعد قالین نصف سے کم قیمت پر بیچ دیتا ہے۔۔۔ خان صاحب کسی درمیان کے چیف پر رضامند ہو گئے ہیں اور ’صاحب‘ کو ڈرل ماسٹر کے پاس بھیج دیا ہے۔

پیغام یہ بھی ہے کہ آئیے کسی اور پر ہی بات کر لیں اور کچھ لو اور دو کی بُنیاد پر معاملہ طے کر لیں۔

بہرحال ضمنی انتخابات میں کامیابی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور تقاضا بھی یہی ہے۔ تاہم لانگ مارچ کا اعلان تاحال کیوں نہ ہو سکا یہ بات بھی اہم ہے۔

اطلاعات بہر حال یہی ہیں کہ خان صاحب اکتوبر کے آخری ہفتے میں اچانک لانگ مارچ کی کال دے سکتے ہیں اور بقول اُن کے چند کارڈز تا حال انھوں نے چھاتی سے لگا رکھے ہیں جنھیں وقت آنے پر ’کھیلا‘ جائے گا۔

تحریک انصاف کے ممکنہ لانگ مارچ کا ممکنہ پیش منظر کیا ہو سکتا ہے؟

کیا خان صاحب کے پیش نظر صرف آرمی چیف کی تعیناتی ہے یا اس آڑ میں چند اور مقاصد کا حصول بھی؟

یہ سوال انتہائی اہم ہے کیونکہ آرمی چیف کی تعیناتی میں بمشکل ایک ماہ ہے، ایسے میں جبکہ لانگ مارچ کا اعلان بھی نہیں ہو سکا تو کیا ایک ماہ میں انتخابات کا انعقاد ہو سکتا ہے؟

جواب نہیں میں ہے تو عمران خان صاحب دباؤ بڑھا کر کیا حاصل کریں گے؟ انتخابات کا اعلان، انتخابی اصلاحات یا پارلیمنٹ میں واپسی؟ یا کچھ نہیں اور بس افراتفری تاکہ اُن کی حکومت آئے یا نہ آئے مگر پی ڈی ایم سرکار جائے ہی جائے۔۔۔ پھر اقتدار کس کے ہاتھ آئے، اُن کی بلا سے۔

تاہم یہ بات عیاں ہے کہ ایسی صورت میں اگر نظام ڈی ریل ہوا تو خدانخواستہ سیاست نہیں ریاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کیا عمران خان صاحب کسی ایسے نتیجے پر پہنچ چُکے ہیں جس میں حکومت کا خاتمہ کوئی معنی نہیں رکھتا؟ کیا لانگ مارچ کا رُخ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی جانب کر کے سرپرائز دے سکتے ہیں؟

کیا ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ اپنا کردار ادا کریں گے؟ کیا عدالتیں امن و امان کو لاحق خطرات کی صورت اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کر سکیں گی؟

ضمنی انتخابات کے ’ریفرنڈم‘ کے بعد تحریک انصاف کا اگلا ممکنہ لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے؟ عمران خان کی ’مشاورت‘ کے بغیر پی ڈی ایم سرکار کے نامزد آرمی چیف کی تعیناتی پر سوال اُٹھا کر اُنھیں متنازعہ کر دیا جائے یا تعیناتی ہی چیلنج کر دی جائے یا صدر مملکت کے ’گُڈ آفس‘ کو استعمال کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔

اس صورت میں وہ آرمی چیف ہٹا سکنے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں مگر متنازعہ ضرور کر دیں گے جس سے پاکستان کی فوج کی ساکھ شدید متاثر ہو سکتی ہے اور یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل برداشت نہ ہو گا۔ یوں وہ ادارے کو مذاکرات کی میز پر لا سکتے ہیں؟ یہ سب ماحول خطرناک ہی نہیں خطرناک ترین ہو سکتا ہے۔

کیا مملکت پاکستان پر آمریت کے بعد فسطائیت کا سایہ گہرا ہو رہا ہے؟ طاقت کا مرکز عوام نہیں فسطائی قوتیں ہو سکتی ہیں؟ جمہوریت کے لبادے میں فرد واحد کی آمریت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بجائے سیاسی و عدالتی اسٹیبلشمنٹ جنم لے سکتی ہے؟

ایسے میں پارلیمنٹ، جمہور اور آئین کہیں پیچھے نہ رہ جائیں اب اس کا فیصلہ عدلیہ، انتظامیہ اور اداروں کے ہاتھ ہو گا۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
عاصمہ شیرازی
About the Author: عاصمہ شیرازی Read More Articles by عاصمہ شیرازی: 20 Articles with 32731 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.