ضمنی انتخاب یا ریفرینڈم

ضمنی انتخاب یا ریفرینڈم
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
عمران خان اور تیرہ(13)سیاسی جماعتوں کے درمیان رسی کشی کا ایک مقابلہ 16اکتوبر2022ء کے ضمنی انتخابات کے نتیجے میں پائے تکمیل کو پہنچا۔ ان ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی8 سیٹوں پرتحریک انصاف کی جانب سے کپتان تنہا امیدوار تھا یعنی تن تنہا پہلوانی کے جوہر دکھا رہا تھا اس کے مرد مقابل پاکستان کی مضبوط، تجربہ کار، حکمرانی کا طویل تجربہ رکھنے والی، انتخابات لڑنے کا طویل تجربہ کی حامل سیاسی جماعتیں تھیں۔ مقابلہ سب کے سامنے رہا۔قومی اسمبلی کی 8 سیٹوں میں سے 6 سیٹوں پرکپتان نے میدان مارلیا۔ فیصل آباد، ننکانہ، پشاور، چارسدہ، مردان اور کراچی کی ایک سیٹ پر عمران فتح مند جب کہ ملتان اور کراچی کی ایک ایک سیٹ پر کپتان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں امیدواروں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ ملتان میں علی موسیٰ گیلانی اور کراچی سے عبد الحکیم بلوچ کامیاب قرار پائے۔ عمران خان نے بڑے اور نامی گرامی سیاستدانوں کو بھی پچھاڑ کے رکھ دیا ان میں غلام احمد بلور، ایمل ولی خان، مولانا قاسم، عابد شیر علی، شذرہ منصب شامل ہیں۔ اسی طرح کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کوئی سیٹ حاصل نہ کرسکی جو ایک بڑا المیہ اور کراچی پر حکمرانی کرنے والی قیادت کو سوچ و فکر کی جانب مائل کرتا ہے۔ وہ جماعت جس کا کراچی میں طوطی بولا کرتا تھا آج صفر ہوجائے گی۔ اسی کا نام سیاست ہے۔ عوام جمہوری عمل میں بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ دیکھتی، محسوس کرتی اور فیصلہ کرتی رہتی ہے۔ عوام پر ظلم کیا جائے وہ سہتی رہتی ہے، زیادتی کی جائے برداشت کرتی ہے، کبھی کبھار آواز بلند کرتی اور جب اسے موقع ملتا ہے تو وہ خاموشی سے ظلم کرنے والوں، نہ انصافی کرنے والوں سے ایسا انتقام لیتی ہے کہ ظالم اور نہ انصافی کرنے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ اس وقت وہ کر کچھ نہیں سکتے۔اسے ہی جمہوریت بہترین انتقام کہا جاتا ہے۔
کپتان نے ان ضمنی انتخابات کو ریفرینڈم قرار دیا تھا، قانونی اعتبار سے یہ ریفرینڈم تو نہیں تھا لیکن عوام نے عمران خان کوبڑے پیمانے پر ووٹ دیا۔ کپتان 6 سیٹوں پر میدان مارلیا اور خوب مارا۔ مقابلہ اپنی جگہ، انتخابات میں ہار جیت لازمی حصہ ہوتا ہے۔ لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی اتحاد نے ان انتخابات کو اہمیت نہیں دی اور نہ ہی اتحاد کی بڑی جماعتوں اور ان کے سرکردہ لیڈروں نے انتخابات کی تیاری میں وہ کردار ادا کیا جو وہ ماضی میں کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کپتان اگر نو میں سے چار پانچ سیٹوں پر بھی ہار گیا تو کافی ہوگااس کی شکست کا واویلا کرنے کے لیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اتحادیوں کی خواہشات کے برعکس کپتان نے تقریباً میدان مارلیا۔ ہارنے والوں کا ردِ عمل ہمیشہ شکست کو تسلیم نہ کرنا اور دھاندلی کا الزام لگانا ہوتا ہے۔ یہی کچھ اب ہورہا ہے۔ ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگارہے ہیں۔ جیتنے والے بھی دو سیٹوں پر شکست کا الزام لگارہے ہیں۔ یہ ہمارے انتخابات کے نتائج کی پرانی روایت ہے۔ حکومتی اتحاد کے ایک لیڈر نے اپنی شکشت کے جواب میں کہا کہ حکومت سیلاب کی تباکاریوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی امداد اور آباد کاری میں مصروف تھی اس نے ضمنی انتخابات پر توجہ نہیں دی۔ یہ بھی خوب ہے لگتا ہے کہ حکومتی اتحاد کے لیڈر سیلاب ذدہ علاقوں میں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ان کے گم میں دبلے بھی ہوگئے ہیں۔
شکست کو تسلیم کرلینا ہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوئے جس میں تحریک انصاف نے کلین سوئپ کیا اور بیس میں سے 15 نشستیں تحریک انصاف نے حاصل کیں جس کے نتیجے میں پنجاب کی حکومت بھی حاصل ہوگئی، اس کی ایک بنیادی وجہ نون لیگ کا تحریک انصاف کے لوٹوں کو نون لیگ کے امیدواروں کی حیثیت سے ٹکٹ دینا تھا۔ ان انتخابات کے نتیجے کے اعلان کے بعد نون لیگ کی رہنما مریم نواز شریف نے کھلے دل کے ساتھ شکست کو تسلیم کیا، اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے بھی شکست کو تسلیم کیا۔ جو کہ ایک قابل تعریف عمل تھا۔ جمہوریت میں اسی طرزعمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نہ مانوں والی گردان کتنی بھی کی جائے لوگ حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ عمران کی فتح کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے شکست کو تسلیم کیاجائے، اس عمل سے عوام میں اتحادیوں کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب تحریک اتحاد اور عمران خان کو بھی سنجیدگی، برد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست کھاجانے والوں سے خوش دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے لیے منفی کلمات ادا نہ کریں۔
دو ماہ قبل میں نے ایک کالم بہ عنوان”سیاسی و معاشی مسائل کا حل عوام کی عدالت“ تحریر کیا تھاجو انٹر نیٹ کے علاوہ ایبٹ آباد کے اخبار ”پائن“ نے شائع کیا تھا۔ اس میں اس موضوع پر کچھ اس طرح تجزیہ کیا تھا۔ اب بھی وہی صورت حال ہے۔ سینئر لیڈروں کو پاکستان کے مستقبل کی خاطر افہام و تفہیم کا راستہ نکالنا چاہیے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔اپنے اس کالم میں مَیں نے لکھا تھا ” شہباز شریف کے لیے وزارت اعظمیٰ اتنی اہم تھی کہ انہوں نے اپنے سابقہ اچھے کاموں،عوام کی خدمت کو قربان کردیا۔ حکومت چلانا دور کی بات اسے گھسیٹنا مشکل ہورہا ہے اس کا واحد حل ہے کہ ملک کے اصل وارثوں جو کہ عوام ہیں سے رجوع کریں، وہ جو فیصلہ کریں اسے سب صدق دل سے قبول کریں۔ اس طرح عدالتوں کے فیصلوں پر کب تک گاڑی چلے گی۔عدالتوں کے اختیارات کم کرنے سے حکومت میں ٹہراؤ آئے گا، گورنر راج لگانے سے آپ حکومت کرسکیں گے۔ لوگوں کو جیل میں ڈال کر حکومت چلے گی۔عوام پر آنسوں گیس اور ربر کی گولیا برسانے سے آپ کامیاب ہوں گے، ان سب باتوں سے حکومت نہیں چل سکتی۔ کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا“۔ ٹوس قدم سوائے عوام کی عدالت میں جانے کے کوئی اور نہیں۔ سیاسی و معاشی استحکام اور مضبوط حکومت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ جس طرح بھی آئے اسے آنا چاہیے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے، یہ دائمی نہیں ماضی میں جو یہ کہا کرتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتا، کسی میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ حکومت کریں، پاکستان کے حالات وہ ہی درست کرسکتے ہیں، وہ آج ماضی کاحصہ بن چکے، ان لوگوں سے پاکستان کے قبرستان بھرے پڑے ہیں، ان کی قبروں کی شناخت بھی مشکل ہے۔ آج کوئی تو کل کوئی اور انجام موت اور کچھ بھی نہیں۔ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس رائے پر اختتام کرتا ہوں کہ اللہ کرے عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کی نوبت نہ آئے اور معاملا جیسا کہ سننے میں آرہا ہے کہ بیک ڈور رابطے، ملاقاتیں، گفتگو کا عمل جاری ہے اس کے نتیجے میں موجودہ گھمبیر مسائل کا حل نکل آئے۔ (17اکتوبر2022)

ضمنی انتخاب یا ریفرینڈم
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
عمران خان اور تیرہ(13)سیاسی جماعتوں کے درمیان رسی کشی کا ایک مقابلہ 16اکتوبر2022ء کے ضمنی انتخابات کے نتیجے میں پائے تکمیل کو پہنچا۔ ان ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی8 سیٹوں پرتحریک انصاف کی جانب سے کپتان تنہا امیدوار تھا یعنی تن تنہا پہلوانی کے جوہر دکھا رہا تھا اس کے مرد مقابل پاکستان کی مضبوط، تجربہ کار، حکمرانی کا طویل تجربہ رکھنے والی، انتخابات لڑنے کا طویل تجربہ کی حامل سیاسی جماعتیں تھیں۔ مقابلہ سب کے سامنے رہا۔قومی اسمبلی کی 8 سیٹوں میں سے 6 سیٹوں پرکپتان نے میدان مارلیا۔ فیصل آباد، ننکانہ، پشاور، چارسدہ، مردان اور کراچی کی ایک سیٹ پر عمران فتح مند جب کہ ملتان اور کراچی کی ایک ایک سیٹ پر کپتان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں امیدواروں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ ملتان میں علی موسیٰ گیلانی اور کراچی سے عبد الحکیم بلوچ کامیاب قرار پائے۔ عمران خان نے بڑے اور نامی گرامی سیاستدانوں کو بھی پچھاڑ کے رکھ دیا ان میں غلام احمد بلور، ایمل ولی خان، مولانا قاسم، عابد شیر علی، شذرہ منصب شامل ہیں۔ اسی طرح کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کوئی سیٹ حاصل نہ کرسکی جو ایک بڑا المیہ اور کراچی پر حکمرانی کرنے والی قیادت کو سوچ و فکر کی جانب مائل کرتا ہے۔ وہ جماعت جس کا کراچی میں طوطی بولا کرتا تھا آج صفر ہوجائے گی۔ اسی کا نام سیاست ہے۔ عوام جمہوری عمل میں بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ دیکھتی، محسوس کرتی اور فیصلہ کرتی رہتی ہے۔ عوام پر ظلم کیا جائے وہ سہتی رہتی ہے، زیادتی کی جائے برداشت کرتی ہے، کبھی کبھار آواز بلند کرتی اور جب اسے موقع ملتا ہے تو وہ خاموشی سے ظلم کرنے والوں، نہ انصافی کرنے والوں سے ایسا انتقام لیتی ہے کہ ظالم اور نہ انصافی کرنے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ اس وقت وہ کر کچھ نہیں سکتے۔اسے ہی جمہوریت بہترین انتقام کہا جاتا ہے۔
کپتان نے ان ضمنی انتخابات کو ریفرینڈم قرار دیا تھا، قانونی اعتبار سے یہ ریفرینڈم تو نہیں تھا لیکن عوام نے عمران خان کوبڑے پیمانے پر ووٹ دیا۔ کپتان 6 سیٹوں پر میدان مارلیا اور خوب مارا۔ مقابلہ اپنی جگہ، انتخابات میں ہار جیت لازمی حصہ ہوتا ہے۔ لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی اتحاد نے ان انتخابات کو اہمیت نہیں دی اور نہ ہی اتحاد کی بڑی جماعتوں اور ان کے سرکردہ لیڈروں نے انتخابات کی تیاری میں وہ کردار ادا کیا جو وہ ماضی میں کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کپتان اگر نو میں سے چار پانچ سیٹوں پر بھی ہار گیا تو کافی ہوگااس کی شکست کا واویلا کرنے کے لیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اتحادیوں کی خواہشات کے برعکس کپتان نے تقریباً میدان مارلیا۔ ہارنے والوں کا ردِ عمل ہمیشہ شکست کو تسلیم نہ کرنا اور دھاندلی کا الزام لگانا ہوتا ہے۔ یہی کچھ اب ہورہا ہے۔ ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگارہے ہیں۔ جیتنے والے بھی دو سیٹوں پر شکست کا الزام لگارہے ہیں۔ یہ ہمارے انتخابات کے نتائج کی پرانی روایت ہے۔ حکومتی اتحاد کے ایک لیڈر نے اپنی شکشت کے جواب میں کہا کہ حکومت سیلاب کی تباکاریوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی امداد اور آباد کاری میں مصروف تھی اس نے ضمنی انتخابات پر توجہ نہیں دی۔ یہ بھی خوب ہے لگتا ہے کہ حکومتی اتحاد کے لیڈر سیلاب ذدہ علاقوں میں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ان کے گم میں دبلے بھی ہوگئے ہیں۔
شکست کو تسلیم کرلینا ہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوئے جس میں تحریک انصاف نے کلین سوئپ کیا اور بیس میں سے 15 نشستیں تحریک انصاف نے حاصل کیں جس کے نتیجے میں پنجاب کی حکومت بھی حاصل ہوگئی، اس کی ایک بنیادی وجہ نون لیگ کا تحریک انصاف کے لوٹوں کو نون لیگ کے امیدواروں کی حیثیت سے ٹکٹ دینا تھا۔ ان انتخابات کے نتیجے کے اعلان کے بعد نون لیگ کی رہنما مریم نواز شریف نے کھلے دل کے ساتھ شکست کو تسلیم کیا، اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے بھی شکست کو تسلیم کیا۔ جو کہ ایک قابل تعریف عمل تھا۔ جمہوریت میں اسی طرزعمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نہ مانوں والی گردان کتنی بھی کی جائے لوگ حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ عمران کی فتح کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے شکست کو تسلیم کیاجائے، اس عمل سے عوام میں اتحادیوں کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب تحریک اتحاد اور عمران خان کو بھی سنجیدگی، برد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست کھاجانے والوں سے خوش دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے لیے منفی کلمات ادا نہ کریں۔
دو ماہ قبل میں نے ایک کالم بہ عنوان”سیاسی و معاشی مسائل کا حل عوام کی عدالت“ تحریر کیا تھاجو انٹر نیٹ کے علاوہ ایبٹ آباد کے اخبار ”پائن“ نے شائع کیا تھا۔ اس میں اس موضوع پر کچھ اس طرح تجزیہ کیا تھا۔ اب بھی وہی صورت حال ہے۔ سینئر لیڈروں کو پاکستان کے مستقبل کی خاطر افہام و تفہیم کا راستہ نکالنا چاہیے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔اپنے اس کالم میں مَیں نے لکھا تھا ” شہباز شریف کے لیے وزارت اعظمیٰ اتنی اہم تھی کہ انہوں نے اپنے سابقہ اچھے کاموں،عوام کی خدمت کو قربان کردیا۔ حکومت چلانا دور کی بات اسے گھسیٹنا مشکل ہورہا ہے اس کا واحد حل ہے کہ ملک کے اصل وارثوں جو کہ عوام ہیں سے رجوع کریں، وہ جو فیصلہ کریں اسے سب صدق دل سے قبول کریں۔ اس طرح عدالتوں کے فیصلوں پر کب تک گاڑی چلے گی۔عدالتوں کے اختیارات کم کرنے سے حکومت میں ٹہراؤ آئے گا، گورنر راج لگانے سے آپ حکومت کرسکیں گے۔ لوگوں کو جیل میں ڈال کر حکومت چلے گی۔عوام پر آنسوں گیس اور ربر کی گولیا برسانے سے آپ کامیاب ہوں گے، ان سب باتوں سے حکومت نہیں چل سکتی۔ کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا“۔ ٹوس قدم سوائے عوام کی عدالت میں جانے کے کوئی اور نہیں۔ سیاسی و معاشی استحکام اور مضبوط حکومت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ جس طرح بھی آئے اسے آنا چاہیے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے، یہ دائمی نہیں ماضی میں جو یہ کہا کرتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتا، کسی میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ حکومت کریں، پاکستان کے حالات وہ ہی درست کرسکتے ہیں، وہ آج ماضی کاحصہ بن چکے، ان لوگوں سے پاکستان کے قبرستان بھرے پڑے ہیں، ان کی قبروں کی شناخت بھی مشکل ہے۔ آج کوئی تو کل کوئی اور انجام موت اور کچھ بھی نہیں۔ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس رائے پر اختتام کرتا ہوں کہ اللہ کرے عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کی نوبت نہ آئے اور معاملا جیسا کہ سننے میں آرہا ہے کہ بیک ڈور رابطے، ملاقاتیں، گفتگو کا عمل جاری ہے اس کے نتیجے میں موجودہ گھمبیر مسائل کا حل نکل آئے۔ (17اکتوبر2022)







Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437123 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More