مقبولیت

آج میں اپنی ان تحریروں کا ذکر کروں گی جو کہیں شائع نہیں ہوسکیں۔ نہ کسی ایڈیٹر کو ان میں کوئی خاص بات نظر آئ ۔ زمانہء طالب علمی کا ابتدائی دور تھا۔ کبھی کوئ مضمون لکھا،کبھی کہانی ،لیکن کسی نے پسند نہیں کی بلکہ کوئ تو ناقابلِ اشاعت جیسے بھاری الفاظ بھی کہہ دیتا۔ وقتی طور پر مایوسی بھی ہوئی کہ لکھنے کا کام وقت طلب اور یکسوئی کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔پھر خود ہی اپنی ناکامی پر ٹوٹے دل کو جوڑ کے دوبارہ نئے سرے سے کوشش کرنا بھی مشکل لگا،کیوں کہ ہمیں ناکامی کو قبول کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا، نہ ہم اپنی کمی کوتاہی کو خود سمجھ سکتے ہیں ،جب تک کوئی رہنمائی نہ کرے۔ خیر ،خود ہی اپنا حوصلہ بڑھایا ،اپنے شانے پہ خود ہی تھپکی دی کہ گرتے ہیں شاہسوار ہی میدان _ جنگ میں۔

کئ ایڈیٹرز سے رابطہ کیا ،کئ ساتھیوں کو اپنی تحریریں پڑھوائیں ،جہاں کسی خامی کا پتہ چلا ،اسے بہتر بنایا،مشق جاری رکھی، آخر اب یہ وقت آیا کہ سب تحریریں شائع ہورہی ہیں ،لیکن اب کیفیت ہے کہ نہ بھی شائع ہوں تو غم نہیں ہوتا کہ اپنا کام کرکے اسے اللہ کے حوالے کردیتی ہوں کہ وہ قبول فرمالے ۔ اسے یہ چند الفاظ پسند آجائیں تو بیڑا پار ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود_ مومن
نہ مالِ غنیمت،نہ کشور کشائی !

موجودہ دور میں ایک عجیب روایت بن گئ ہے کہ 'مقبولیت' کو 'پسندیدگی' کا معیار سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگ مقبول و مشہور ہونے کے لئے یو ٹیوب چینل بناتے ہیں ،پھر مشہور و مقبول ہونے کے لئے ہر الٹا سیدھا کام کرکے اپنے تئیں پاپولر ہوجاتے ہیں ۔ کچھ مصنفین نے بھی ایسا کرنا شروع کردیا ہے ،اپنی کتابوں پر تبصرے لکھوانے کا مقابلہ کرواتے ہیں پھر ان پر انعام کا اعلان کرتے ہیں ۔ کیا یہ Paid popularity اصلی ہوسکتی ہے ؟ کچھ ایسی صورت حال ،میدان_سیاست میں بھی نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خود کو کسی میرٹ کے قابل بنانا ،اس منصب کے تقاضے نبھانا ، اس کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے اپنی جان کھپانا ، یہ اصل کام ہے۔
حدیث شریف میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:جو شخص نمائش اور شہرت کا لباس پہنے گا،اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت،ذلت و رسوائی کا لباس پہناۓ گا،پھر اس میں آگ بھڑکادے گا۔سنن ابنِ ماجہ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نیت کو سچا رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
#فکرونظر