آزادی کا 75؍واں جشن مناتے ہوئے امسال بلقیس بانو کی
آبروریزی کرنے والے اور ان کے اہل خانہ کے قاتلوں کو 15؍ اگست 2022کے دن
رہا کردیا گیا۔ اس مذموم حرکت کے خلاف سی پی ایم رہنما سبھاشنی علی، سماجی
کارکن روکھین ورما، ریوتی لال اور ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا
موئترا نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی۔ عدالتِ عظمیٰ میں سماعت کے دوران
یہ انکشاف ہوا کہ ریاستی حکومت کے اس جرم قبیح میں مرکزی حکومت بھی برابر
کی شریک ہے۔اس کیس کی تحقیقات چونکہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعہ ہوئی
تھی اس لیے اپنے فیصلے پر عمل درآمد سے قبل ریاستی حکومت نے مرکز ی سرکار
کو خط لکھ کر 11 قیدیوں کی قبل از وقت رہائی کی منظوری سے آگاہ کیا ۔ مودی
سرکار اگر خواتین کے تئیں حساس ہوتی تو اس عرضی کو مسترد کرسکتی تھی لیکن
اس نے ایسا نہیں کیا ۔گجرات حکومت کے حلف نامہ میں مرکزی وزارت داخلہ کی اس
سال 11 جولائی کو ایک خط کے ذریعہ رہائی کی منظوری کا اعتراف کیا گیا ہے۔
اس طرح اپنی جان بچانے کی خاطر ریاستی سرکار نے مرکزی حکومت کو بھی ننگا
کردیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ریاستی حکومت درندوں کو آزاد کرنے کے
لیے بے چین تھی اورتین طلاق قانون کے بہانے مسلم خواتین کی ہمدرد بننے والی
مرکزی حکومت اس کی پشت پناہی کررہی تھی وہیں پولیس سپرنٹنڈنٹ، سنٹرل بیورو
آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی) ممبئی ، اور خصوصی جج (سی بی آئی)، ممبئی نے
اس رہائی کی مخالفت کی ۔ سی بی آئی مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے
اس لیے اپنے آقاوں کو ناراض کرنا اسے مہنگا پڑ سکتا پھر بھی ضمیر کی آواز
پر ملازمت کو خطرے میں ڈال کر سی بی آئی اہلکار نے گودھرا جیل کے سپرنٹنڈنٹ
کو لکھا کہ ان مجرمین نے نہایت "گھناؤنا، سنگین اور بدترین" جرم کا ارتکاب
کیا ہے اس لیے انہیں "وقت سے پہلے رہا نہیں کیا جا سکتا اور ان کے ساتھ
کوئی نرمی نہیں کی جا سکتی"۔ یہ خط اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ آج بھی
افسران کا ضمیر زندہ لیکن حکومت ِوقت پر ان کے احتجاج سے جوں نہیں رینگتی ۔
وہ نفرت کی سیاست کے جنون میں مبتلا ہیں اور انتخابی کامیابی کے لیے کسی
بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مذموم حرکت انتخابی فائدے
کی خاطر کی گئی ہے۔
سی بی آئی افسر کے علاوہ سیول جج کا بھی یہی خیال تھا چونکہ مقدمہ ممبئی
میں چلایا گیا تھا اس لیے مہاراشٹر حکومت کی 2008 والی پالیسی کو لاگو کیا
جانا چاہئے۔ ان کے مطابق اس معاملے میں، تمام مجرموں کو بے قصور لوگوں کی
عصمت دری اور قتل کا قصوروار پایا گیا تھا۔ان ملزمین کی مقتولین سے کسی قسم
کی دشمنی یا کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ اس سنگین جرم بنیاد صرف اور صرف
مقتولین کا ایک خاص مذہب (اسلام ) سے تعلق تھا ۔ جج صاحب نے یاد دلایا کہ
اس معاملے میں (درندوں نے) نابالغ بچوں کو بھی نہیں بخشا تھا ۔ ان کے مطابق
یہ انسانیت کے خلاف جرم کی بدترین شکل تھی ۔ یہ معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑ
دینے والا سانحہ تھا لیکن جس حکومت کا ضمیر مر چکا ہے اس پر بھلا اس کا کیا
اثر ہوسکتا ہے ؟ سول جج کی یہ بات کہ ’ غم زدہ معاشرے کا یہ بہت بڑاصدمہ ہے‘
سدا بصحرا ثابت ہوئی ۔ فسطائیوں نے درندوں کو نہ صرف رہا کیا بلکہ بڑی بے
حیائی کا ثبوت دیتے ہوئے ان وحشی درندوں کی پذیرائی کرکے اس کی ویڈیو
کوڈھٹائی سے پھیلایا۔ انسانی سماج کا اس سے زیادہ انحطاط ممکن نہیں ہے اور
یہ سب ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔
موجودہ حکومت چونکہ عوام کے مسائل حل کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے اس
لیے ہر دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کرکے عوام کو الجھایا جاتا ہے۔
مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اس کا سیاسی فائدہ
حاصل کرنا اس حکومت کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ مرکزی و ریاستی سرکاروں کی
بقاء کا دارومدار فی الحال مسلمانوں کے خلاف مظالم کو خوشنما بناکرپیش کرنے
تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ حکومت کی سرپرستی میں یہ کام زور و شور سے جاری
رہتا ہے ۔ سرکاری زیادتی کی ایک مثال پچھلے دنوں مدھیہ پردیش کے مندسور میں
سامنے آئی جہاں شیو لال پاٹیدار نامی شخص نے سلمان خان کے والد سے موٹر
سائیکل چلانے کے طریقے (کرتب )کی بابت شکایت کردی۔ اس بات پر دونوں میں
جھگڑا ہوگیا۔ اس رات سلمان اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیو لال کی تلاش میں
گرباپنڈال پہنچا اوراس کے ساتھی مہیش کو مارا پیٹا ۔جب زیادہ لوگ جمع ہوگئے
تو سلمان اور اس کے ساتھیوں نے پتھراؤ کیا، جس میں ایک خاتون زخمی
ہوگئی۔جھگڑے کے بعد مہیش پاٹیدار اور شیو لال کوتشویشناک حالت میں ضلع
اسپتال لے جایا گیا ۔
یہ ایک آپسی رنجش کا معاملہ تھا مگراتفاق سے لڑائی پنڈال میں ہوئی تھی ۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ انوراگ سوجانیا کے مطابق اس معاملے میں 19؍ لوگوں کے خلاف
معاملہ مقدمہ کیا گیا ۔ ان میں سے سات کو تفتیش کے بعد حراست میں لیا
گیا۔ایم پی کی ناقابلِ اعتبار پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کچھ ملزمین
عادی مجرم ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر سوجانیا نے مزید بتایا کہ محکمہ
ریونیو کی مدد سے تینوں ملزمین کی ساڑھے چار کروڑ روپے سے زیادہ کی 4500
مربع فٹ سے زیادہ کی غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کر دیا گیا ہے اور ان پر
پنڈال پر پتھراؤ کے سلسلے میں تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج
کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپسی لڑائی کے بجائے پنڈال پر پتھراو کی قلم
کیوں لگائی گئی اور بلڈوزر چلانے میں اتنی سرعت کیوں دکھائی گئی؟ اسی لیے
نا کہ ہندو عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ بی جے پی سرکار مسلمانوں کو سزا
دینے میں بہت تیز ہے اس لیے اسے ووٹ دیا جائے۔ اس طرح کا سانحہ ملک کے طول
و عرض میں کہیں نہ کہیں رونما ہوتا رہتا ہے۔
فرقہ پرستی کے معاملے میں آدرش گجرات کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا ۔ وہاں
پر کھیڑا علاقے میں نوراتری گربا تقریب پر پتھراؤ کے الزام میں پولیس نے 9
مسلم نوجوانوں کو سرعام کوڑے مارے۔ کیا انتظامیہ کو اس طرح ماورائے عدالت
لوگوں کو سزا دینے کا حق حاصل ہے؟ گجرات میں ایسے واقعات کیوں وقوع پذیر
ہوتے ہیں؟ کیا سنجیو بھٹ جیسے فرض شناس پولیس افسر کو عمر قید کی سزا
سنوانے والی گجرات کی بی جے پی سرکارقانون کو پامال کرنے والے پولیس والوں
پر کوئی کارروائی کرے گی؟ پولیس توخیر اپنے سیاسی آقاوں کے اشارے پر کام
کرتی ہے لیکن اس ظلم کے چشم دیدہندو شاہدین نے اپنی نام نہاد فطرت کے مطابق
اسے روکنے کے بجائے خوشی کیوں منائی؟ سچائی تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے پولیس
کو سبق سکھانے کی گزارش کی تھی۔ کاش کہ بھاگوت یا ان کا کوئی شاگرد جاکر
انہیں ہندووں کی فطرت سے آگاہ کرتا۔ مقامی نیوز چینل وی ٹی وی گجراتی نیوز
نے اس سانحہ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اندھیلہ گاؤں میں 10-11 لوگوں
کو پولیس نے کھلے عام سبق سکھایا اور معافی منگوائی ۔
بڑودہ میں میلادالنبی کے جھنڈوں کا بہانہ بناکر ہنگامہ کیا گیا ۔ سنگھ کے
لوگ ان سب کو اپنی فطرت کی جانب رجوع کرنے کے لیے شاکھا میں کیوں نہیں بلا
تے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس انحراف منبع و مرجع سنگھ کی فکر اور اس کی
شاکھاوں میں ہے۔ نوراتری کا تہوار گجرات میں بہت جوش و خروش سے منایا جاتا
ہے ۔اس دوران وہاں جونا گڈھ میں بی جے پی کاونسلر جیوا سولنکی کا بیٹا جئیش
مندر میں آرتی کرکے لوٹ رہا تھا کہ ہریش نامی نوجوان سے اس کی مڈبھیڑ
ہوگئی۔ معمولی بحث و تکرار کے بعد جئیش نے ہریش کے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا
۔ یہ سانحہ سی سی ٹی وی میں قید ہوگیا ۔ ہریش کو اسپتال پہنچایا گیا مگر
راستے میں وہ انتقال کرگیا۔ کیا سنگھ پریوار کے ایک فرد کی یہ قتل و
غارتگری اس کے انسانی فطرت سے منحرف ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے؟ کیا
مدھیہ پردیش کے سلمان اور اس کے ساتھیوں کی طرح جیوا یا جئیش سولنکی کے گھر
پر بلڈوزر چلے گا؟
ہندوستان میں ہر طبقہ تہوارمناتا ہے لیکن نہ تو مسلمانوں کے تہواروں پر
کوئی ہنگامہ ہوتا ہے نہ سکھوں کے۔ جین خاموشی سے اپنا تہوار مناتے ہیں
اورعیسائی سماج کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہندووں کا ہر
تہوار مختلف تنازعات کی نذر کیوں ہو جاتا ہے؟ پہلے یہ آگ شمالی ہندوستان
تک محدود تھی اب اس کے شعلے مغرب و مشرق سے ہوتے ہوئے جنوبی ہند تک پہنچ
گئے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سے 60 کلومیٹر دور سنگاریڈی
ضلع کے بیاتھول گاؤں میں دسہرہ کی تقریبات کے دوران قطب شاہی دور کی ایک
مسجد میں کچھ شرپسندوں نے بھگوا جھنڈا لہرایا اور’اوم‘ کا نشان لکھا۔ ٹی آر
ایس پارٹی کا مقامی رہنما بھی مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش میں شامل تھا۔اس
کے بعد حیدرآباد کے مضافات میں ملکم چیرو کے قریب واقع قطب شاہی مسجد کی
حصار کو توڑ کر شرپسند عناصر نے وہاں پوجا پاٹ کرکے مورتی نصب کردی۔ اس کی
ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل کرکے اشتعال پیدا کیا جارہاہے۔ اس واقعہ کے بعد
مقامی و اطراف واکناف کے مسلمانوں نے وہاں پہنچ کر اپنا احتجاج درج کرایا
جبکہ تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کی اسپیشل ٹاسک فورس کے عہدیداروں نے وہاں
حالات کو قابو میں کیا۔ اسی طرح کی ایک مذموم حرکت کرناٹک( بیدر) کے محمود
گاوان مسجد میں بھی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا ہے بی جے پی والوں کے پاس انتخاب
جیتنے کی خاطر کوئی اور مدعا نہیں بچا ہے۔ یہ لوگ اسے اچھالتے رہیں گے یہاں
تک ملک کی عوام ان سے بیزار ہوکر انہیں اقتدار سے باہر نہ اچھال دیں ۔ اس
لیے کہ عوام کے قوت برداشت کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔
|