فلم شعلے کے کئی ڈائیلاگ ضرب المثل بن گئے ان میں سب سے
مشہورگبر سنگھ کا مکالمہ تھا :’ جو ڈر گیا وہ مرگیا‘۔ حقیقت کی دنیا میں تو
ڈرنے والا بچ بھی جاتا ہے مگر سیاست کے میدان میں اس کی موت یقینی ہوتی ہے۔
اس بارممبئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی موت سے قبل راج ٹھاکرے اور شرد پوار
کو عیادت کے لیے بلوایا گیا۔ ان دونوں نے گنگا جل کے دو قطرے بستر مرگ پر
پڑے دیویندرفڈنویس کے حلق میں ڈالے اور اس کے بعد ان کی سیاسی روح قفسِ
عنصری سے پرواز کرگئی ۔ دوسرے دن ان کا پونر جنم ہوا اور انہوں نے بی جے پی
کے امیدوار مرجی پٹیل کا نام اندھیری (ایسٹ) ضمنی انتخاب سے واپس لینے کا
اعلان فرما دیا ۔ اس کے ساتھ ہی شیو سینا کےامیدوار رتوجا لٹکے کی کامیابی
یقینی ہوگئی۔ بی جے پی کے لیے چونکہ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا اس لیے پہلے
اس کی ممبئی اکائی کے صدر آشیش شیلار مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج
ٹھاکرے سے ملاقات کی اور پھر راج کا نائب وزیر اعلی دیویندر فڈنویس کو خط
آیا جس میں بی جے پی سے ضمنی انتخاب نہ لڑنے کی درخواست کی گئی تھی ۔
راج ٹھاکرے کے بڑھتے قد نے ایکناتھ شندے کو بے چین کردیا ۔ انہوں نے اپنے
دستِ راست پرتاپ سارنائک سے خط لکھوا کر رتوجا کے خلاف ضمنی انتخاب نہ لڑنے
کی استدعا کروائی گئی حالانکہ اس الیکشن میں تو ان کا امیدوار موجود ہی
نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بی جے پی کے آگے سپر ڈال چکے ہیں ۔ اس کے
بعدمہاراشٹر کی سیاست کے دادامنی شرد پوار کی انٹری ہوئی۔ انہوں نےجب گزارش
کی تو فڈنویس کا دل پسیج گیا لیکن اسی کے ساتھ مرجی پٹیل کا چہرا مرجھا گیا۔
ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بی جے پی کو اس ناٹک بازی کی
ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب دو دن قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی
صدر چندر شیکھر باونکلے کی پارٹی کے ریاستی دفتر کے اندر پریس کانفرنس میں
پوشیدہ ہے۔ موصوف نے صحافیوں سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا کہا کہ اندھیری
ایسٹ اسمبلی ضمنی انتخاب میں ادھو ٹھاکرے کو ووٹ دینا کانگریس پارٹی اور
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ
کے عہدے کے لیے کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس سے ہاتھ ملایا اور ان کے
خیالات کو بھی قبول کیا۔ اس لیے اندھیری کے لوگ صرف بی جے پی امیدوار مرجی
پٹیل کو ووٹ دیں گے اور پٹیل بھاری فرق سے جیتیں گے۔
چندر شیکھر باونکلے یہ بھی کہا تھا کہ بی جے پی کے نوجوان کارکنان اندھیری
میں گھر گھر جا کر ووٹروں سے ملاقات کریں گےاور لوگوں کو بتائیں گے کہ
سوتنتر ویر ساورکر کی بار بار توہین کرنے کے بعد ادھو ٹھاکرے کانگریس-این
سی پی اور راہل گاندھی کے یاترا کی حمایت کرر ہے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے کی سینا
بالا صاحب کے نظریات سے بہت دور نکل گئی ہے ۔ گھر گھر جا کر ووٹروں کویہ
بتایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اپنا امیدوار واپس لینے کے بعد اب بی جے پی
کارکنان گھر گھر جاکر کیا بتائیں گے؟ باونکلے نے نہ صرف اندھیری ایسٹ آگے
چل کرآدتیہ ٹھاکرے کے ورلی اسمبلی حلقہ ، نانا پٹولے کے ساکولی اور این سی
پی کے بارامتی حلقہ میں چمتکار کی پیشنگوئی کی تھی مگر مونگیری لال کے یہ
حسین سپنے اچانک چکنا چور ہوگئے ۔
نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اپنا امیدوار واپس لیتے ہوئے مراٹھی
تہذیب کی دہائی دی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سنگھ کی شاکھا میں انہیں اس کی
تعلیم نہیں دی گئی تھی جو راج ٹھاکرےاور شرد پوار کو یہ سکھانے کے لیے زحمت
کرنی پڑی؟ فڈنویس نے آر آر پاٹل اور پتنگ راو کدم کی موت کے بعد اپنا
امیدوار نہیں اتارنے کا حوالہ دیا لیکن وہ تو بہت پرانی بات ہے۔ ابھی پچھلے
سال پنڈھر پور میں بھرت بھالکے کی موت کے بعد ضمنی انتخاب میں این سی پی نے
ان کے بیٹے بھگیرتھ کو ٹکٹ دیا ۔ بی جے پی نے سمادھان اوتادے کومیدان میں
اتار کر انتخاب جیت لیا ۔ اس وقت مراٹھی تہذیب کی حساسیت کہاں مرگئی تھی؟
اس سال کولہاپور میں چندرکانت جادھو کی موت کے بعد ان کی اہلیہ جئے شری کے
خلاف بی جے پی نے ستیہ جیت کدم کو الیکشن لڑایا اور ہار گئی ۔ وہاں بھی اگر
شکست یقینی ہوتی تو تہذیب و تمدن یاد آتا۔ بی جے پی کو اگر اس کا اتنا ہی
خیال ہوتا تو وہ رتوجا پر بدعنوانی کا الزام لگا کر کارپوریشن کی ملازمت سے
ان کے استعفیٰ میں رکاوٹ پیدا کرکے الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوشش نہ کرتی۔
آر ایس ایس اپنے آپ کو سیاسی نہیں بلکہ ثقافتی تنظیم کہتا ہے اور یہ ہے
وہ منافقانہ ثقافت جس کے نمونے فڈنویس جیسے سویم سیوک سیاسی میدان میں پیش
کرتے پھرتے ہیں ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس ہوشمندی کے پیچھے 15 ؍اکتوبر کو مہاراشٹر کے ضلع
ناگپور میں پنچایت سمیتی الیکشن کے نتائج کا بھی ہاتھ ہے۔ ناگپور میں آر
ایس ایس کا صدر دفتر ہے۔ ابھی حال میں وہاں سے سرسنگھ چالک نے بڑی بڑی
باتیں کیں۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری، نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈ نویس اور
ریاستی صدرچندر شیکھر باونکلے اسی علاقہ سے آتے ہیں ۔ اس کے باوجودانتخابی
نتائج نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتے ہوئے بی جے پی کو زوردار
جھٹکا دیا ۔ 13 سیٹوں پر ہونے والے پنچایت سمیتی چیئرپرسن کے الیکشن میں بی
جے پی ایک پر بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے، اور اس کی ہمنوا ایکناتھ
شندے کی شیوسینا کو محض ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا ۔ اس کے برعکس کانگریس
نے 9 پر کامیابی حاصل کی این سی پی نے 3 سیٹوں پر فتح کا پرچم لہرایا۔ اس
کے علاوہ کانگریس کو 8 ڈپٹی چیرپرسن ، این سی پی کو 3؍ اور شیوسینا کو تین
ڈپٹی چیئرپرسن کے عہدے ملے۔ بی جے پی وہاں بھی خالی ہاتھ رہی۔ بی جے پی کا
اگر اپنے گڑھ ناگپور میں یہ حال تو بھلا وہ شیوسینا کے قلعہ ممبئی میں
کیونکر سیندھ لگا سکتی ہے۔ اس لیے اپنی ضمانت بچانے میں ناکامی کے خوف نے
بی جے پی کو تہذیب و تمدن کی یاد دلادی ۔ ناگپور میں بی جے پی کی بھاری
شکست، پارٹی کے زوال کی نشاندہی کرتی ہے۔
مہاراشٹر میں نئی حکومت قائم ہوجانے کے فوراً بعد انڈیا ٹی وی نے سی ووٹرس
کی مدد سے ایک سروے کیا تھا۔ اس میں یہ پیشنگوئی کی گئی تھی اگر اس وقت
قومی انتخابات کا انعقاد ہوجائے تو 48 میں سے 30 نشستوں پر ایم وی اے یعنی
مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کے امیدوار کامیاب ہوجائیں گے۔ پچھلے الیکشن کانگریس
کا صرف ایک اور این سی پی کے چار امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ ان میں اگر
شیوسینا کے اٹھارہ جوڑ لیے جائیں تو یہ تعداد پچیس پر پہنچتی ہے۔ اس طرح
اگر ان سب کی مجموعی تعداد کے مقابلے جملہ پانچ سیٹوں کا فائدہ دکھایا گیا
تھا ۔ یہ تو اس وقت کی بات ہے جب شیوسینا اپنی مدافعت میں مصروف تھی اور
بظاہر اس کا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا مگر شیواجی پارک کی کامیاب ریلی نے
یہ ثابت کردیا ہے کہ پر جوش شیوسینک ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہے ۔ اس لیے اب
پھر سے نیا سروے کرایا جائے تو حالت اور بھی بہتر ہوگی۔ اس کے برعکس گودی
میڈیا کے ذریعہ شائع شدہ سروے میں بی جے پی اور شندے گروپ کو جملہ 18
نشستوں کی پیشنگوئی کی گئی تھی ۔ اس طرح بی جے پی کو کل پچاس فیصد کا نقصان
بتایا گیا تھا ۔
نئی حکومت میں ہر کوئی دیویندر فڈنویس کے وزیر اعلیٰ بن جانے کی توقع کررہا
تھا مگر جب بی جے پی ہائی کمان نے ایکناتھ شندے کے سر پر تاج رکھا تو ہر
کوئی چونک پڑا۔ چالیس سے ڈھائی گنا زیادہ ایک سو پانچ نشستوں کے باوجود بی
جے پی نے صوبے پر اپنا وزیر اعلیٰ نہیں تھوپ کر سبھی کو حیران کردیا لیکن
اس کے پیچھے لوک سبھا انتخاب پر اس کے اثرات پوشیدہ تھے۔ مہاراشٹر میں اگر
شیوسینا کا وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا تو شندے کے ساتھ بی جے پی کا بھی سپڑا صاف
ہوگیا ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ دیویندر فڈنویس کے لیے وزارت اعلیٰ کی کرسی
اہم ہے لیکن امیت شاہ لوک سبھا انتخاب کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں ۔
بہار بی جے پی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ نتیش کے بغیربہار میں بی جے پی کے
لیے 17نشستوں پر کامیابی درج کرواناممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شیوسینا اور
جنتا دل کے این ڈی اے سے نکل جانے کے سبب 35نشستوں کا سیدھا نقصان منہ
پھاڑے کھڑا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے بی جے پی سے دوری کے نتیجے میں نتیش اور
ادھو کا جو نقصان ہوگا اس کو کانگریس، این سی پی اور آر جے ڈی مل کر پورا
کردیں گے مگر کمل اکیلاپڑ جائے گا۔ ایسے میں مودی جی پھر سے وزیر اعظم کی
کرسی سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ اسی خیال نے فی الحال کل یگ کے چانکیہ کی
نیند حرام کررکھی ہے اور اسی لیے اندھیری ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے
ہتھیار ڈال دیئے تاکہ میڈیا کے ذریعہ جو جعلی بھرم قائم کیا گیا ہے وہ باقی
رہے۔
|