بدھ مت کا فلسفہ ترکِ آرزو کا فلسفہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ
ترکِ آرزو ہی مقصدِحیات ہے کیونکہ ہر آرزو تکلیف کا پیش خیمہ بنتی ہے۔انسان
کاسکون اسی میں ہے کہ وہ ترکِ آرزو کو خود پر طاری کر لے تا کہ اس کے اندر
آرزوؤں کی تکمیل کا جذبہ باقی نہ رہے۔جب جذبہِ ارتکازِ دولت مندی ہی نہیں
ہو گا تو حصولِ دولت کی ہر راہ مسدود ہو جائے گی اور انسان امن و سکون کا
پیکر بن جائیگا۔یہ آرزوئیں ہی ہیں جو انسانی زندگی میں ایسی کج روی بھر کر
اسے غلط راہوں کا مسافر بنا دیتی ہیں ۔برِ صغیر میں مہا بھارت کی جنگ بھی
آرزوؤں کے بے لگام ہونے کی داستان ہے ۔ ایک ہی خاندان کے افراد (کورو اور
پانڈے) زمین اور عورت کے حصول کی خاطر ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہوگے
اور یوں برِ صغیر کا کلچر اور سوچ ہی بدل گئی۔ایک زمانے میں بدھ مت فلسفہ
کی بڑی تشہیر ہوئی اور عوام نے اپنی آرزوؤں کو اپنے دلوں میں جگہ دینے سے
اجتناب کا آغاز کر لیا لیکن ہر وہ نظریہ جو غیر فطری ہو اور انسانی نفسیات
اور مزاج سے میل نہ کھاتا ہو خود بخود زمین بوس ہو جاتا ہے اور یہی سب کچھ
بدھ مت کے ساتھ بھی ہوا۔آج بدھ مت کے نظریہ کے پرچارک خال خال ہی نظر آئیں
گے کیونکہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں پر آرزوؤں کا راج ہے۔چمکتی
دمکتی دنیا جس میں آرزوؤں نے طوفان برپا کیا ہوا ہے اور دلِ انسان میں
کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہیں ۔سہولیات کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جس میں
انسان حیران و پریشان کھڑا ہے۔یہ جنگلات میں سادھو بن کر جینے والی دنیا
نہیں ہے اور نہ ہی درویشی کی چادر اوڑھ کر ترکِ دنیا کے فلسفے کا داعی بننے
کی جائے پناہ ہے بلکہ یہ ایک ایسی اڑن طشتری ہے جو انسان کے اندرلا متناہی
آرزوؤں کی کشش سمیٹے ہوئے ہے۔انسان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنی کس آرزو
کی تکمیل کرے اور کس کو چھوڑ دے؟اس کیلئے آرزوؤں کا انتخاب بھی ایک کٹھن
مرحلہ ہے کیونکہ ہر آرزو اپنے مقام پر انتہائی دلکش اور دلپذیر ہے۔ اسلام
چونکہ مذہبِ فطرت ہے اس لئے اس کے ہاں ہر وہ شہ جو انسانی ذات کیلئے ضرر
رساں ہو اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔اسلام اصول و ضوا بط کی ایک ایسی
تصویردکھاتا ہے جس میں انسانی ذات ارتقائی منازل طے کرتی چلی جاتی ہے لہذا
وہ ترکِ آرزو کی بجائے آرزو کو اپنی حدودو قیود میں رکھنے کا اعلان کرتا ہے
۔ شعراء اور ادباء کے نزدیک آرزو عشق کی بنیا دہے اور معاشر کے ارتقاء
کیلئے انتہائی ضروری ہے ۔محبوب کی پہلی دید آرزو کو جنم دیتی ہے جو شدتِ جذ
بات سے عشق کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔یار کی گلی اور اس کے ایک کونے میں
محبوب کا گھر کرہِ ارض کا سب سے اہم مقام قرار پاتا ہے۔عاشق کوا پنے محبوب
کی ایک جھلک کی خاطر کئی کئی دنوں کے انتظار سے گزرتا ہے۔دیدارِ محبوب کی
آرزو جب حقیقت کا جامہ پہن لیتی ہے تو پھر عاشق کی عید ہو جاتی ہے۔ اب اگر
آرزو جنم نہیں لے گی تو پھر عشق کا شجر کیسے سر سبز و شاداب ہو گا؟گر زندگی
تمنا سے خالی ہو جائے تو یہ ایک ایسے ساغر کی طرح ہو جاتی ہے جو شراب سے
خالی ہو۔زندگی اگر محفلِ کائنات میں مے بجام آتی ہے تو اس کی یہ کیفیت آرزو
ہی سے پیدا ہوتی ہے۔وہ اس کی قوت سے بر ق رفتاری کے ساتھ اپنے ارتقائی
مراحل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی اور اوپر کو اٹھتی چلی جاتی ہے ۔ زندگی کے
استحکام اور بقا کا راز مقصد اور مدعا کے اندر ہے۔یہی وہ جزبہِ محرکہ ہے جو
اس کے قافلے کیلئے بانگِ راحیل بنتا ہے۔اگر مقصد ومدعا نہ ہو تو انسانی
زندگی میں کوئی حرکت ہی پیدا نہ ہو اور جب حرکت پیدا نہ ہوگی تو زندگی بھی
باقی نہیں رہے گی۔زندگی نئے راستوں کی تلاش کا نام ہے جو انسان کو اس کے
مقصد کی جانب لے جاتے ہیں ۔آئیے دنیائے ادب کے سب سے بڑے فلسفی شاعر کے پاس
رہنمائی کیلئے چلتے ہیں ۔ (آرزو را در دلِ خود زندہ دار ۔،۔ تا نہ گردد مشتِ
خاک تو مزار)۔،۔ (ترجمہ۔اگر تو چاہتا ہے کہ تیری زندگی موت کی مظہر نہ بن
جائے تواس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تو اپنے دل میں آرزو کوزندہ رکھ۔ یہ
کائنات، یہ جہا نِ رنگ و بو ، یہ گوناں گوں جاذبیتوں کی دنیایہ سب آرزو کے
مظہر ہیں۔اور ہر شہ کی فطرت در حقیقت آرزو کی امین ہے)۔دوسری جگہ یوں اظہارِ
دانش کرتے ہیں ۔(از تمنا رقصِ دل در سینہ ہا۔،۔سینہ ہا از تاب او آئینہ
ہا)۔ترجمہ ( یہ آرزو ہی کی حرارت ہے جس سے انسان کے سینہ میں اس کا دل
رقصاں رہتا ہے۔اور یہ آرزو کی ہی روشنی ہے جس سے انسان کا دل آئینہ بن جاتا
ہے۔آرزو انسان کے دل میں وہ توانائی پیدا کر دیتی ہے جس سے یہ مادہ کی چار
دیواری سے اڑ کر باہر جا سکتا ہے ۔ )۔ ایک اورجگہ یوں رقمطراز ہیں(حسن خلاقِ
بہارِ آرزو است ۔،۔جلوہ اش پروردگار ِ آرزو است)۔،۔ (ترجمہ۔حسن خود ہی بہارِ
آرزو کا خلاق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن باربار اس امر پر زور دیتا ہے کہ کہ
تم جلوہ گاہِ کائنات کا بغور مشاہدہ کرو۔تمھیں اس کے ایک ایک ذرہ میں حسن و
زیبائی کی کاررفرمائی نظر آئیگی اور یہی حسن تمھارے دل میں آرزو ؤں کو پیدا
کر دیگا جس سے ذوقِ عمل کی نمود ہو گی۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہر حسین وجمیل
شہ میدانِ طلب میں ہماری راہنما بن جاتی ہے ۔ہم اگر کسی صحرا میں راہ گم
کردہ کھڑے ہوں یا راستہ کھو کر تھکے ماندے کسی درخت کے سایہ تلے سستا رہے
ہوں کہ اتنے میں دور سے کوئی نہائیت حسین و جمیل شہ دکھائی دے تو وہ ایک
تبسم زیرِ لبی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کر دیتی ہے اور انسان تازہ
ولولوں کی ایک نئی دنیا اپنی آغوش میں لئے اس کے حصول کیلئے والہانہ انداز
سے جادہ پیما ہو جاتا ہے )۔،۔
اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ انسان کس طرح کی آرزوؤں کو اپنے من میں جگہ دے
جس سے یہ کرہِ ارضٗ انسان کا فخرو ناز بن جائے اور پھر وہ اسے اپنے لئے
اعزاز سمجھے کہ اس کی آرزوئیں انسانی وقار، اس کی فلاح،اس کی بہبود اور اس
کی نجات کی آئینہ دار ہیں۔تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب کبھی اس کرہِ ارض
پر ایسے انسانوں کا جنم ہوا جن کی نگاہ میں دوسروں کا احترام اور ان کی ذات
قابلِ احترام تھی تو پھر ایک ایسا معاشرہ قائم ہوا جس کی مثال تاریخ عالم
پیش کرنے سے قاصر ہے۔سوال سائنسی ایجادات کا نہیں ہے،سوال انسانی سہولیات
کا نہیں ہے ، رہن سہن ور بودوباش کی بو قلمونیوں کا نہیں ہے آسائشاتِ زندگی
کا نہیں اور سونے چاندی کے دبیز پردوں میں شب و روز بسر کرنے کا نہیں ہے
بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان عظیم انسانوں کی نگاہ میں انسان کی قدرو منزلت
کتنی تھی؟(اسوداں بہ احمراں امیختند) جب برابری کا اعلان ہو گیا اور انسانی
تکریم کو اپنا مقام مل گیا تو (با غلامِ خویش بر یک خوان نشست) والے منظر
نے ساری کایا پلٹ کر رکھ دی۔جب کیفیت یہ ہو کہ مکہ کے سارے سرداروں کی
موجودگی میں خانہ کعبہ کی چھت پر اذان کا اعزاز ایک غلام کامقدر بنے تو چشمِ
تصور سے دیکھئے کہ انسانیت کا مقام کتنا ارفع و اعلی ہو گا، موذنِ رسول ﷺ
کا مقام کتنا بلند ہو گا اور ایک عام انسان کی قدرو منزلت کی انتہا کیا ہو
گی؟پا بہ زنجیر سرداروں کی معاف کردینے کا اعلان ہو یا پھر غلامی کے خو گر
معاشرہ ا میں غلام کو سیدنا کہہ کر مخاطب کرنا اعزا زقرار پائے تو کیا کوئی
معاشرہ ایسے پاکیزہ معاشرے کی رفعتوں کو پہنچ سکتا ہے؟ایسا معاشرہ جس میں
پاکیزگی کا دور دورہ ہو ، عورتوں کا وقار ہو، حیا آمیز نگاہیں ہوں، دوسروں
کی نیاز مندی پہلی ترجیح ہو ،انصاف کا بول بالاہو ، ذاتی خوا ہشات ناپید
ہوں اور تاجدارِ کائنات ﷺ دو کمروں کے ایک سادہ سے گھر کے رہائشی ہوں اور
ان کے اپنےﷺ وصال پر چراغ جلانے کیلئے ہمسائے سے تیل مستعار لینا پڑے تو
پھر کیا دنیا کا کوئی دوسرا انسان ایسے بلندو بالا مقام تک پہنچنے کا تصور
کر سکتا ہے ؟ثابت ہو اکہ انسان مال و دولت سے نہیں کردار سے عظیم بنتا ہے ۔
خدا کی خوشنودی اور اس کی راہ پر جرات سے کھڑے ہونے والوں کی آرزوئیں ہی اس
کائنات کی راہنماہیں ۔انسانیت اسی راہ کو اپنائے گی تو اس کی نجات ممکن ہے
وگرنہ اس کی تباہی اٹل ہے۔
|