صبح فون دیکھا تو پہلا میسج دوست مومنہ کا موصول ہوا اور
پھر ہر طرف سے یہ ہی خبر سننے کو ملی کہ ارشد شریف کو شہید کر دیا گیا۔ جسے
سن کے حیرت و دکھ کی انتہا نہ رہی۔ کہ میرے وطن پہ یہ کیسے کالے سائے آپڑے
ہیں۔ کہ ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آ رہا ہے۔
تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ملک کے نامور صحافی ارشد شریف کو کینیا میں سر
میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔
نہ مقتل اپنا تھا نہ دیس اپنا تھا
ہم جس سے مارے گئے وہ تیر اپنا تھا
ارشد شریف اے آر وائی نیوز سے کافی عرصہ تک وابستہ رہے۔ اور ایک حق گو
صحافی کے طور پہ جانے جاتے تھے۔ ارشد شریف کے والد نیول کمانڈر تھے اور
بھائی میجر تھے، دونوں کی شہادت 2011 میں ہوئی، ارشد شریف اور اہلخانہ
مبینہ طور پر دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ارشد شریف کا اپنا ایک سیاسی
اختلافی اور کسی جماعت کے ساتھ حمایتی رویہ بھی ہو گا۔تاہم سوشل میڈیا پر
اس واقعہ کا جو سبب کہی اُن کہی میں ٹرینڈ بنا ہوا ہے اس افسوسناک واقعہ کے
اس کے علاوہ بھی کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔ تاہم اب تک کی غیر ملکی میڈیا کی
رپورٹس کے مطابق ارشد شریف کو کینیا کی پولیس نے نیروبی کے قریب سر میں
گولی مار کر اس وقت قتل کیا جب ان کے ڈرائیور کی جانب سے مبینہ طور پر چیک
پوائنٹ پر قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس حوالے سے کینییا کی پولیس کا
کہنا ہے۔ کہ پاکستانی صحافی اپنے ڈرائیور کے ساتھ مگادی سے نیروبی کی جانب
سفر کر رہے تھے کہ جہاں پولیس راستے میں روڈ بلاک کر کے چیکنگ کر رہی تھی۔
کینیا پولیس کے ایک آفیسر کی جانب سے جاری بیان میں ارشد شریف کے پولیس کی
فائرنگ سے قتل ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ غلط نشاندہی پر
پاکستانی صحافی کا قتل ہوا اور اس حوالے سے مزید معلومات بعد میں جاری کی
جائیں گی۔ یاد رہے کہ اس واقعہ کے اس بیک گراؤنڈ پہ خود کینیا کے صحافی
حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور اس کی بنیاد پہ ایک غیر ملکی نامور شخصیت کے
قتل کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
کینیا کئی دوسرے افریقی ممالک کی طرح کئی جرائم پیشہ گروہوں کا حامل ملک ہے
۔ یہاں سے بھی بین الاقوامی دہشت گردی اور انڈر ورلڈ دنیا کے تانے بانے
ملتے ہیں ۔یہاں یہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ کینیا میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں
بھی کا منظم نیٹ ورک ہے۔
عوام کی ایک رائے کے مطابق میں ارشد شریف کے جن حلقوں سے اختلاف تھے۔ اس
صورت حال سے کسی بظاہر بے تعلق گروہ کا کسی مفاد کے لیے یہ قدم اٹھانا تا
کہ پاکستان میں دبی چنگاریوں کو بھیانک آگ میں بدلا جا سکے بھی ممکن ہے۔
بہر حال جو واقعہ گھڑا گیا ہے۔ وہ خود اپنے اوپر شکوک وشبہات پیدا کر رہا
ہے۔ کیا ارشد شریف کوئی مجرم پیشہ بیک گراؤنڈ رکھتے تھے یا کسی جرم میں
ملوث تھے۔ کہ جنہیں چیک پوسٹ پہ روکا مگر نہیں رکے؟؟ کیا وہ ذمہ دار انسان
نہ تھے یا قوانین نہ جانتے تھے؟؟ کیا وہاں کی پولیس اتنی فرض ناآشنا ، غیر
ذمہ دار اور گئی گزری ہے۔ کہ ایک شریف پر امن شہری کو سر عام سر میں گولی
مار دے؟؟؟؟
اگر پولیس گاڑی روکنا چاہتی تھی۔ تو ٹائروں پہ برسٹ کیوں نہ مارا گیا۔ جو
ایک سینڈرڈ طریقہ ہے۔ پولیس ہی نے کیوں ایسا کیا۔؟؟ ویسے پولیس تو کیسی ملک
کی گورنمنٹ کے ماتحت ہوتی ہے۔ اور اگر گورنمنٹ چاہے۔ کہ کسی کو مار دیا
جائے۔ تو پولیس تو یہ کام کرے گی ہی۔!!!!!
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ کہ وہ کونسے حالات تھے۔جن کی وجہ سے ایک حق
گو محب وطن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ان حالات کو پیدا کرنے والا کون تھا۔؟
سوال یہ بھی ہے۔ کہ ارشد شریف جب امارت چلے گئے تو وہاں سے بھی ہجرت پہ کس
نے مجبور کر دیا اور کینیا جیسے ملک جانے کا ہی مشورہ کیوں دیا گیا۔ ؟کچھ
ذرائع کے مطابق ارشد شریف جلد ہی کوئی اہم ڈاکو منٹری بھی منظر عام پہ لانے
والے تھے۔ جو کئی رازوں کا پردہ چاک کرنے والی تھی۔
ان حالات میں جب کہ پورے ملک میں ایک سچ گو، محب وطن کی شہادت پہ صف ء ماتم
بچھی ہوئی تھی۔ نواز شریف کیک کاٹ کے دیوالی منانے میں مصروف تھے۔ مزید
مریم صفدر کی غیر انسانی سوچ پہ مبنی دھمکی آمیز ٹویٹ بھی قابل غور ہے۔
"اچھا تو نہیں لگ رہا، مگر یہ سب کے لئیے سبق ہے۔"
جو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے۔ کہ کسی کے باپ, کسی کے بھائی، کسی کے بیٹے ، کسی
کے سہارے اور ایک پر امن محب وطن اور حق کی آواز بلند کرنے والے انسان اور
صحافت کے ستارے کو ہمیشہ کے لیئے خاموش کروا دیا گیا۔
میری اپیل ہے۔ کہ اس غیر انسانی اور سفاک عمل کی شفاف تحقیقات کی اشد ضرورت
ہے۔ اور تحقیقات کی صورت میں نتیجہ تک کسی بھی جذباتی غیر زمہ دارانہ بیان
بازی سے اجتناب ملک قوم سماجی حالات اور اداروں کے مفاد کے لیے بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشد شریف کی مغفرت فرمائیں۔ صحافتی حلقوں کے لیے یہ ایک بڑا
نقصان ہے۔ سب مقتدر حلقوں کو بشمول صحافتی بین الاقوامی تنظیموں کے اس
واقعہ کی شفاف تحقیقات کے لیے نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
تاکہ وہ سچ سامنے آ سکے۔ جو بظاہر پوشیدہ ہے۔
خدا حافظ ارشد شریف، لوگ شاید کبھی آپ کو بھول جائیں مگر تاریخ آپ کو ایک
باوفا حق پرست کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
وفا کے رستے کا ہر مسافر
گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے |