وزیر اعظم کے معاون خصوصی احمد جواد نے مستعفی ہونے کے
ساتھ ہی ایک خط وزیر اعظم کو لکھا جو آجکل سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے اس
خط کے مندرجات کو اپنے پڑھنے والوں تک پہنچانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ
اندر کی باتیں باہر آنے سے عوام کو بھی شعور آتا ہے کہ ہمارا وزیر اعظم
کتنا طاقتور ہے احمد جواد کی تحریر سے پہلے میں پشاور ائر پورٹ کے حوالہ سے
کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہاں پر جاکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چوروں کا ائر
پورٹ ہے جسکی نگرانی کے لیے دشمن ملک سے بندے ادھا لے رکھے ہیں وہاں پر
جاتے ہی ایک عام شریف شہری اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کرلیتا ہے
سکینر مشینیں موجود ہیں مگر پھر بھی اہلکار لمبے لمبے سوئے ہاتھوں میں پکڑے
مسافروں کے بیگوں اور انکے جسموں کی ایسے تلاشی لیتے ہیں جیسے یہ سبھی چور
ہوں اور اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ چھپا کرلے جارہے ہوں مجھے حیرت ہے اپنے پٹھان
بھائیوں پر جو اپنی عزت نفس بڑے شوق سے مجروع کروارہے ہیں سامان والے بیگ
کو سکینر مشین سے گذارنے کے بعد ایک بنچ پر تمام سامان نکال کر ایسے چیک
کیا جاتا ہے جیسے انکے اندر کوئی نہ کوئی ناجائز چیز چھپائی گئی ہواور وہاں
پر موجود عملہ اتنا بے حس کہ رہنمائی کرنا تو دور کی بات اچھے طریقے سے
بولنا بھی انہیں ناگوار گذرتا ہے اپنے آپ کو آسمانی مخلوق سمجھنے والوں کا
زور بھی اپنوں پر ہی چلتا ہے اور جب کسی غیر ملکی کو دیکھتے ہیں تو انکی
حالت دیکھنے والی ہوتی ہے اس وقت یہ دنیا کے مظلوم ترین انسان لگتے ہیں شکر
ہے لاہور اور اسلام آباد میں پشاور کی طرح کے لوگ تعینات نہیں ہیں ان جگہوں
پر پھر بھی انسانیت کا احترام کرنے والے موجود ہیں پشاور ائر پورٹ کی حالت
اور وہاں کے افسران کا رویہ دیکھ کر انتہائی دکھ اور تکلیف ہوئی ان سے بحث
بھی نہیں کرسکتے کیونکہ جو برف توڑنے والے سوئے انہوں نے اپنے ہاتھوں میں
پکڑ رکھے تھے وہ بیگ کا آپریشن کرتے کرتے کسی کا بھی آپریشن کرسکتے ہیں
اپنے ملک کے لوگوں کو عزت دیں تاکہ وہ بھی آپ کا دل سے احترام کریں اور آپ
لوگوں کی تنخواہ بھی انہی لوگوں کے ٹیکسوں سے آتی ہے یہ مسافر اور پاکستان
کے لوگ آپ کے محسن ہیں اور محسنوں کے ساتھ چوروں جیسا رویہ اختیار کرنا
باعث شرم بھی ہے اور باعث شرمندگی بھی اب آتے ہیں احمد جواد کی اس تحریر پر
جو انہوں نے وزیر اعظم جناب شہباز شریف صاحب کو لکھی ہے آپ کی عزت افزائی
کا شکریہ کہ آپ نے مجھے اپنا فوکل پرسن منتخب کیالیکن آپ کی مجبوریوں کو
دیکھتے ہوئے میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ آپ اعلی ترین عہدہ ضرور رکھتے ہیں
لیکن حکومت کے تمام فیصلے تین مختلف جگہوں سے آتے ہیں آپ کی صلاحیتوں کا
معترف ہوں لیکن آپ کی مجبوریوں کے پیش نظر میں اپنا استعفی پیش کر رہاہوں
میں یہاں یہ وضاحت کر دوں میں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران کوئی تنخواہ لی گاڑی
لی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی سہولت یا رعایت لی اپنی پوری سیاسی زندگی میں
پی ٹی آئی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں سے ایک پائی کا فائدہ نہیں لیاہمیشہ
اپنی جیب پر انحصار کیا اور اپنے وسائل اور اپنے پیسے سے خلوص کے ساتھ
جماعت کی مدد کی جس جس ملک میں سچ موت کا پروانہ ہو،جھوٹ کامیابی کی کنجی
ہو؟ جس ملک میں جھوٹ کا بیانیہ ترقی کا راستہ ہو اور اس کے خریدار معززین
شہر ہوں جس ملک میں ناحق خون بہایا جائے اور ملک میں حقائق کبھی منظر عام
پر نہ آ سکیں ملک کا حکمران چاہے عمران خان ہو یا آپ ہوں اور سبھی بے بس
ہوں لاچار ہوں جس ملک میں ووٹ کو عزت دو جیسے نعرے اقتدار کے حصول تک محدود
ہوں اس ملک کی عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ سچ کیا
ہے اور جھوٹ کیا اور اب فیصلہ کی گھڑی آگئی ہے اس لیے اپنے ضمیر کی آواز
سنی میں نے سچ کی تلاش میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت اور سرمایہ لگایا اور
ملک کی خاطر اپنا فرض ادا کیا اس ملک کے ساتھ پڑے دھوکے ہوئے اور میں کسی
دھوکے کا حصہ دار نہیں بنوں گاارشد شریف کے قتل کی انکوائری کا انجام بھی
وہی ہو گا جو لیاقت علی خان اور بینظیر کے قتل کا ہوا یہاں سچ کو کفن
پہنانے کیلئے کمیشن بنتے ہیں ایک اور سچ کو کفن پہنانے کی تیاری شروع ہو
چکی ہے ایک حکمران کے طور قیامت کے روز جواب آپ کودینا پڑے گا آپ اچھے آدمی
ہیں اس گناہ شامل نہ ہوں اور استعفی دیگر اپنی آخرت سنوار لیں یہ چند دن کی
حکمرانی یا آخرت کی لامحدود زندگی سودا برا نہیں اس ملک کو صرف سچ بچا سکتا
ہے اسکے علاوہ جھوٹ، آئی ایم ایف، فوج، امریکہ، چین، سعودیہ اور نہ آپ کی
شب و روزکی محنت بھی نہیں وزیراعظم صاحب میں پوری قوم سے اپیل کروں گاسچ کے
ساتھ کھڑے ہوں اپنی آنا اپنے ذاتی فائدے اور اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر
ہو کر سچ کا ساتھ دیں اس ملک کو حقیقی آزادی چاہیے 75 سال کے بعد بھی ہم
غلام ہیں غلاموں کی عزت نہیں ہوتی چڑھتے سورج جلد ڈوب جاتے ہیں ان کی پوجا
کا کوئی فائدہ نہیں ارشد شریف نے ایک انسان کے طور پر ہم سب کی طرح بہت
غلطیاں کی ہوں گی لیکن کسی کو اس کی زندگی ختم کرنے کا اختیار نہیں اور جس
نے بھی ایسا کیا انشاﷲ وہ اس دنیا اور آخرت میں جہنم رسید ہو گایہ میرا
یقین ہے یہ اہم ترین ہے کہ ارشد شریف کا خون رائیگاں نہیں جائے گاارشد شریف
سیاست نہیں لیکن آزادی کی یادداشت ہے اس ملک کیلئے اسے آخری یادداشت سمجھیں
آخری یادداشت کو انگلش میں Final Reminder کہتے ہیں اور یہ یادداشت قدرت کی
طرف سے ہے آپ کیلئے میرا مخلص پیغام یہ ہے کہ روایتی اور موروثی سیاست کا
اب اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں اور یہ دونوں طرح کی سیاست آپ کے پاؤں کی
زنجیریں ہیں جنہیں آپ خوشی خوشی پہنے ہوئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ ہر روز 17000
بچے 18 سال کی عمر کو پہنچ رہے ہیں اور ان میں 90% عمران خان کے نظریے پر
کھڑے ہیں اسے اب آپ روک سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ادارہ اختلاف رائے اپنی
جگہ لیکن نئے انتخابات کا اعلان کر دینا چاہیے ورنہ بوٹوں کی چاپ سنائی دے
رہی ہے اس ملک کی عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ اس ملک کو کون چلائے گا؟ میں
نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دونوں کو اس وقت چھوڑا جب وہ حکومت میں تھے
دونوں کا ساتھ اس وقت دیا جب وہ اپوزیشن میں تھے میں سیاست میں کمائی کرنے
نہیں بلکہ نظریے کی بنیاد پر آتا ہوں اور نظریہ کی بنیاد پر چھوڑتا ہوں
اقتدار سے پہلے ریاست مدینہ، ووٹ کو عزت دو، اقتدار کیلئے ''One Page'' اور
اقتدار کے بعد مفادات کی دوڑ اور آخر میں مفادات کا ٹکراؤ یہ ہے ہماری
سیاست کی کہانی یہی وجہ ہے کہ میں ارشد شریف کا کفن میلا ہونے سے پہلے اپنے
ضمیر کی آواز پر استعفی دے رہا ہوں ایسے ملک کی سیاست سے میں ریٹائرڈ ہو
رہا ہوں۔
|