اسلام میں سنت کا مقام

دین اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ایک کامل دین ہے ، اس دین کی بنیاد دو چیزوں پر قائم ہے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری نبی ﷺ کی سنت ۔دین کی حیثیت سے ہمیں انہیں دونوں چیزوں کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ میں اپنے مضمون میں دین کی دوسری بنیاد یعنی سنت کا مقام ومرتبہ واضح کروں گا، اس میں کتاب اللہ کی بھی حیثیت واضح ہوگی کیونکہ قرآن وسنت میں باہمی گہراربط ہے بلکہ سنت قرآن کی ہی تشریح وتفصیل ہے ۔
سنت لغت میں طریقہ کو کہتے ہیں ، طریقہ خواہ اچھا ہو یا برا، دونوں پر سنت کا اطلاق ہوتا ہے ۔ (لسان العرب) اسی معنی میں صحیح مسلم کی حدیث(1017) من سن في الإسلام سنة حسنة(جس نے اسلام میں کوئی اچھا راستہ ایجاد کیا)ومن سن في الإسلام سنة سيئة(اور جس نے اسلام میں برا راستہ ایجاد کیا) وارد ہے۔
سنت شرعی معنی میں "ہر اس قول ، فعل ، تقریر اور وصف کو کہاجاتا ہے جو نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا جائے "۔
اس شرعی معنی کے اعتبار سے سنت حدیث کے مترادف ہے یعنی ان دونوں الفاظ کا استعمال شرعی اصطلاح میں ایک ہی ہے۔یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ فقہی اصطلاح میں جہاں احکام کو پانچ اقسام (واجب، مندوب، حرام، مکروہ ، مباح) میں تقسیم کیا گیا ہے ، وہاں سنت مندوب(جس حکم کا بجالانا واجب نہ ہو) کے معنی میں مستعمل ہے ۔
اب سنت کی تعریف کی وضاحت کردیتا ہوں تاکہ سنت کا مقام ومرتبہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ چنانچہ سنت کی تعریف میں چار الفاظ وارد ہیں ۔
پہلا لفظ قول: "قول" بولی ، کلام اور گفتگو کو کہتے ہیں ،ا س سے مراد آپ ﷺ کی طرف منسوب ہرقسم کی بولی اور کلام ہے جیسے آپ ﷺ کا قول : انما الاعمال بالنیات(صحیح البخاری:1) یعنی عملوں کا دارومداد نیتوں پر ہے ۔ اسی طرح آپ ﷺ کا قول : صلواکمارایتمونی اصلی(صحیح البخاری:6008) تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
چونکہ یہ احادیث قول یعنی کلام سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کو قولی سنت کہی جائے گی۔
دوسرالفظ فعل: "فعل" کا مطلب کام ہے اور اس سے مراد جو بھی کام نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جیسے صحابہ کرام آپ ﷺ کے اعمال، افعال اور عبادات وغیرہ نقل کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ کے فعل میں سے ایک مثال صحیح مسلم(1216) کی وہ حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ منبرپر چڑھ کر نماز پڑھتے ہیں، آپ کے پیچھے صحابہ کرام آپ کی اقتداء کرتے ہیں ۔ اس حدیث میں آپ کا فعل یعنی عمل و کام ذکر کیاگیا ہے تو اس کو فعلی سنت کہیں گے ۔
تیسرالفظ تقریر: اس سے مراد کسی صحابی کا قول یا فعل جو آپ ﷺ کی موجودگی میں ہواہو یا آپ کے سامنے کسی صحابی کا قول یا فعل ذکرکیا گیا ہواور آپ نے اس قول پر یا فعل پر خاموشی اختیار کی ہو یا منع نہیں کیا ہو یا اچھا کہا ہووہ تقریری سنت کہلاتی ہے۔
تقریری سنت کی ایک مثال صحیح ابن ماجہ(954) کی حدیث ہے ۔ نبی ﷺ ایک صحابی کو فجر کی نماز کے بعد دورکعت نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ ان سےکہتے ہیں کہ فجر کی نماز تو دوہی رکعت ہے۔ اس پرانہوں نے جواب دیا کہ میں نے فجر سے پہلے کی دوسنت نہیں پڑھا تھا وہی پڑھا ہوں ۔ اس کے بعد اس حدیث کو بیان کرنے والے کہتے ہیں : "فسکت النبی ﷺ" یعنی نبی ﷺ خاموش ہوگئے ۔ اس طرح کسی صحابی کے عمل پر نبی ﷺ کا خاموش ہوجانا تقریری سنت کہلاتی ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ فجر کی چھوٹی ہوئی سنت فرض نماز کے فورابعد پڑھ سکتے ہیں اور بخاری(584)کی یہ حدیث "نهى عن الصلاةِ بعدَ الفجرِ حتى تَطلُعَ الشمسُ"(رسول اللہ نے فجر کے بعدنماز پڑھنے سےمنع کیا یہاں تک کہ سورج نکل آئے( فجر کی سنت کے علاوہ کے لئے ہے یعنی فجر کی چھوٹی ہوئی سنت فرض نماز کے بعد ادا کرسکتے ہیں، دوسری نماز نہیں ۔
ایک دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ جو لوگ فجر کی فرض نماز کے وقت فرض نماز چھوڑ کر سنت پڑھنے لگ جاتے ہیں وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو اس حدیث سے نصیحت لینا اور سنت کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔
اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک صحابی بھی اپنی مرضی سے دین پر عمل نہیں کرسکتے ہیں تو پھر عالم یا عام آدمی کیسے سنت کے خلاف عمل کرسکتا ہے ۔
سنت کا معنی ومفہوم جان اچھی طرح جان لینے کے بعد اب سنت کا مقام ومرتبہ جانتے ہیں چنانچہ پہلے قرآن سے چند دلائل پیش کرتا ہوں ۔ قرآن متعدد مقامات پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ، یہ واجبی حکم ہے یعنی ہمیں واجبی طور پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا ہے ، اطاعت میں اللہ اور رسول کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ (الأنفال:20(
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اس (کا کہنا ماننے سے) سے روگردانی مت کرو سنتے جانتے ہوئے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہمیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم معلوم ہوجائے تو پھر اعراض کرنے کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا ، بلاچوں چرا حکم الہی اور سنت رسول پر عمل کرنا واجب ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (آل عمران:132(
ترجمہ:اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے میں رحمت ہے ورنہ رحمت الہی سے محروم ہوجائیں گے، اور آج رحمت الہی سے محرومی کا اصل سبب ترک سنت ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران:31)
ترجمہ:کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
ہمارا ہر عمل رضائے الہی کے لئے ہوتا ہے اور یہاں اس آیت میں رضائے الہی کا معیار اتباع رسول بتایا گیا ہے یعنی ہم میں سے جو بھی اپنے عمل میں رضائے الہی کا طالب ہو اسے سنت رسول کی تابعداری کرنی ہوگی ورنہ رضائے الہی کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ یہود ونصاری بھی رضائے الہی کی خوش فہمی میں مبتلا تھے بلکہ عیسائی تو عیسی علیہ السلام اور مریم علیہاالسلام کو اللہ سے بھی زیادہ مرتبہ دے کر یہ سوچتے تھے کہ اللہ اس بات سے زیادہ خوش ہوگا مگر عیسائیوں کو بھی حکم ہوا کہ تم رضائے الہی کا طالب ہوتو آخری پیغمبر محمد ﷺ کی اطاعت کرو تبھی اپنے دعوی میں سچے ہوگے ۔ افسوس کی بات ہے کہ اکثر مسلمانوں کو اتنی سیدھی اور سچی بات سمجھ نہیں آتی ، وہ اتباع رسول کو چھوڑ کر ائمہ ، اولیا اور صالحین کو اپنا پیشوا بناتے ہیں اور بجائے شرمندہ ہونے کے اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور:63(
ترجمہ: سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے ۔
اس آیت کی وضاحت سے پہلے یہ آیت بھی جان کہ رسول کی اطاعت گویا اللہ کی اطاعت ہے ۔ اللہ فرماتا ہے:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (النساء:80(
ترجمہ:اس رسول کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا ۔
ذرا سوچو مسلمانو! محمد ﷺ کی ہستی وہ ہے جن کی اطاعت ، اللہ کی اطاعت ہے ، بھلا وہ کیسے مسلمان ہیں جو رسول اللہ کی سنت سے اعراض کرتے ہیں اور دعوی محبت رسول کا کرتے ہیں ۔ میرا ماننا ہے کہ اگر محمد ﷺ حاضر وناظر ہوتے اور آپ کے پاس اختیار ہوتا جیساکہ صوفیوں کا عقیدہ ہے تو آپ ﷺ ان جھوٹے محبین رسول کو ضرور سبق سکھاتے مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ آپ ﷺ وفات پاگئے ہیں، نہ آپ دنیا والوں کی بات سنتے ہیں اور نہ انہیں دیکھتے ہیں اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا اختیار رکھتے ہیں ۔
امام احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ تینتیس مقامات پر رسول اللہ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے پھر جب یہ آیت تلاوت کرتے :فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور:63( تو باربار اس کی تلاوت کرکے اور فرماتے جو نبی ﷺ کی حدیث رد کرے وہ ہلاکت کے دہانے پر ہے ۔
آئیے اور جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت کرنے سے کیسے ہلاکت ومصیبت آتی ہے اورقوم پر عذاب آتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (البقرۃ:65)
ترجمہ:اور بلاشبہ یقینا تم ان لوگوں کو جان چکے ہو جو تم میں سے ہفتے (کے دن) میں حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر بن جاؤ۔
اس آیت میں یہودیوں کی ہلاکت اور ان پر اللہ کے عذاب آنے کا بیان ہے جب ان لوگوں نے اللہ کا حکم نہ مانا ۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ہفتہ کے دن مچھلی مارنے سے منع کیا تھا مگر یہ لوگ حیلہ اختیار کرکے مچھلی کھایا کرتے تھے ۔ ان کا حیلہ یہ تھا کہ ہفتہ کے دن مچھلی زیادہ باہر آتی تو وہ لوگ رسی ، جال پھینک کر اور گڑھا کھود کر ان میں مچھلی پھنسا لیتے اور اتوار کو پکڑ لاتے ۔ یہودیوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی تو آسمان سے ایک آواز آئی بندر بن جاؤ ، یہ لوگ بندربن گئے ۔ سورہ اعراف میں بندر اور خنزیر کا ذکر ہے ، اس بارے میں اہل علم کہتے ہیں ان میں سے جو لوگ جوان تھے بندربنادئے گئے اور جو معمر تھے سور بنادئے گئے ۔ یہ سب پہنچانے بھی جاتے ہیں مگر شکلا بندر وسور تھے ۔ تین دن کے اندر عذاب میں مبتلا یہ سب لوگ ناک رگڑتے رگڑتے مرگئے، ان کی نسل بھی ختم ہوگئی ۔ ان ہلاک ہونے والوں میں بنی اسرائیل کے وہ لوگ بھی تھے جو حیلہ سے مچھلی تو نہیں پکڑتے تھے لیکن کسی کو منع بھی نہیں کرتے تھے ۔ اللہ کے عذاب سے بچنے والے صرف وہی مومنین تھے جو اللہ کا حکم بھی مانتے تھے اور حیلہ اختیار کرنے والوں کو منع بھی کرتے تھے ۔ مزید تفاصیل کے لئے مذکورہ آیت کی تفسیر دیکھ سکتے ہیں ۔
اس واقعہ میں ایک اہم نصیحت تو یہ ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننا چاہئے ، حکم عدولی ہلاکت اور عذاب کا باعث ہے ۔یہاں ان بدعتیوں کو بھی نصیحت لینا چاہئے جو اپنی طرف سے دین میں نئی نئی بدعات ایجاد کرتے ہیں اور حکم رسول کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ ہم سب کو اس بات کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہم سنت کے مطابق عمل کریں نیز سنت کے خلاف بدعات پر عمل کرنے والوں کو بھی روکیں ، یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے ورنہ ہم بھی عتاب کے شکار ہوسکتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے جو کوئی منکر(برائی) کو دیکھے تو ہاتھ سے اسے مٹائے ، اگر ہاتھ سے مٹانے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے نصیحت کرے اور زبان سے نصیحت نہیں کرسکتے تو کم ازکم دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے ۔ (صحیح مسلم:49)
ہمیں ایمان کے طاقت وردرجہ پرقائم ہونا چاہئے اس لئےیا ہاتھ سے شرک وبدعت کو مٹائیں یا زبان سے منع کریں جیساکہ ہم دنیاوی معاملات میں کرتے ہیں ، جب ہمیں کوئی گالی دیدے اسے یاتومارتے ہیں یا ہم زبان سے کچھ کہتے ہیں ۔ جب اپنی ذات کے لئے ایسی غیرت ہے تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور سنت کی جگہ بدعت کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ خاموشی کیوں ؟ ہاتھ نہیں پکڑ سکتے تو کم ازکم زبان کا استعمال کرکے حق ان پر واضح کردیں۔
قرآن میں ہم نے سنت کا مقام دیکھ لیا ، اب چند احادیث دیکھتے ہیں ۔ صحیح بخاری(5063) میں یہ واقعہ مذکور ہے ، جب تین صحابہ کرام علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمروبن العاص اور عثمان بن مظعون رضوان اللہ علیہم ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوکر رسول اللہ کی عبادات کےبارے میں دریافت کررہے تھے تو انہوں نے اپنے عملوں کو کم جانااس لئے ان میں سے ایک نے کہا اب ہم رات بھر عبادت ہی کریں گے، دوسرے نے کہا مسلسل روزہ ہی رکھیں گے اور تیسرے نے کہا کہ شادی نہیں کریں گے ۔ جب رسول کو ان باتوں کی خبرہوئی تو آپ نے ان صحابہ کرام سے فرمایا: "فمن رغب عن سنتي فليس مني" جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔ گویا کہ دین پر عمل کرنے میں اصل اعتبار سنت کا ہوگا، جو سنت سے ہٹ کر ہو چاہے وہ نماز یا روزہ ہی کیوں نہ ہومردود وباطل ہے ۔
اسی طرح یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں جو موطا امام مالک اورمستدرک حاکم میں موجود ہے اور شیخ البانی ؒ نے اسے مشکوۃ کی تخریج میں حسن قرار دیا ہے ۔
تركتُ فيكم أمرينِ ؛ لن تَضلُّوا ما إن تمسَّكتُم بهما : كتابَ اللَّهِ وسُنَّتي۔
ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، اگر تم ان دونوں چیزوں کو مضبوطی سے تھامے رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ۔
ان کے علاوہ بے شمار دلائل ہیں مگر چند پر ہی اکتفا کرتاہوں جوحجت وثبوت کے لئے کافی ہیں ۔ ان سب دلائل سے واضح ہے کہ مسلمانوں کو رسول اللہ کی سنت پر عمل کرنا واجب وضروری ہے بلکہ قرآن نے تو صراحت کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ رسول اللہ یعنی محمد ﷺ ہی تمارے لئے بہترین نمونہ ہیں ۔اس لئے آپ ﷺ کو چھوڑ کر کسی کو اپنا امام وپیشوا نہیں بنایا جائے گا۔
سنت رسول کی مخالفت سے اعمال ضائع وبرباد ہوجاتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد:33(
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے عملوں کو برباد نہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ(صحيح مسلم:1718)
ترجمہ:جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو (یعنی دین میں ایسا عمل نکالے) تو وہ مردود ہے۔
ان دونوں دلیلوں سے معلوم ہواکہ سنت کا اس قدر مقام ہے کہ اس کے برخلاف عمل کرنے سے عمل ضائع ہوجاتا ہے ، وہ اللہ کے یہاں قبول نہیں کیا جاتا ۔امام شافعی ؒ کا قول ہے کہ لوگوں کا اتفاق ہے کہ جب سنت رسول واضح ہوجائے تو کسی کے قول سے اسے چھوڑنا جائز نہیں ہے ۔(الروح لابن القیم )
امام صاحب کی اس بات کو ذرا مثالوں سے سمجھتے ہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ہرقسم کی بدعت گمراہی ہے ۔یہ فرمان سنت رسول میں واضح ہے ، اب اگر کوئی یہ کہے کہ بعض قسم کی بدعت جائز ہے ، اچھی ہے، اس پر عمل کرسکتے ہیں تو یہ جھوٹ ہے ، خلاف سنت ہے اور جو خلاف سنت ہے وہ مردودوباطل ہے۔اسی طرح نبی ﷺ کا فرمان ہے : لو كنتُ آمرًا أحدًا أن يسجُدَ لأحدٍ ، لأمرتُ المرأةَ أن تسجُدَ لزوجِها(صحيح الترمذي:1159(
ترجمہ:اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
اس حدیث سے ایک سنت واضح ہوگئی کہ اللہ کے علاوہ سجدہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے لہذا کسی قبر کوسجدہ کرنا، کسی مورتی کو سجدہ کرنا اور کسی پیرومرشد کو سجدہ کرنا غلط ہے۔ اگر کوئی غیراللہ کے سجدہ کی طرف بلائے تو سنت رسول کو چھوڑ کر اس کی بات نہیں مانی جائے گی ۔
مذکورہ بالا سطور سے ہمیں سنت کا اعلی مقام معلوم ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سنت کا دامن تھامنا ہی عمل کی قبولیت کا معیار ہے ، جو سنت کو چھوڑ دیتے ہیں ان کا عمل برباد بلکہ وہ عذاب وعتاب کے شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اب آپ کو سنت کی پیروی کا سب سے بڑا انعام اور سنت ترک کردینے کا سب سے بڑا نقصان بتاتا ہوں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى؟، قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى(صحیح البخاری:7280(
ترجمہ:ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا:جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ سنت کی اس قدر اہمیت و فضیلت ہے کہ سنت پر عمل کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا ، اور جو سنت کو ترک کردے گا اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ اس میں سنت پرعمل کرنے والوں کے لئے بڑا انعام بتایا گیا ہے اور سنت چھوڑنے والوں کو بڑی سزا سنائی گئی ہے ۔
اب جس کو رسول سے سچی محبت ہوگی وہ سنت پر عمل کرے گا، جس کو عمل میں رضائے الہی مطلوب ہوگی وہ سنت پر عمل کرے گا ، جو اپنے عمل کو ضائع ہونے سے بچانا چاہے گا وہ سنت پر عمل کرے گا اور جو جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے وہ سنت پر عمل کرے گا۔ جس کو یہ سب فائدے نہیں چاہئے ، نہ رسول کی سچی محبت چاہئے، نہ رضائے الہی چاہئے، نہ عمل کی مقبولیت چاہئے اور نہ جنت چاہئے وہ سنت کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے چلے گا، بدعت و گمراہی کا راستہ اختیار کرے گا۔
اللہ ہم کو سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے اور شرک و بدعت سے ہمیں بچائے ۔ آمین

 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.