حرم کی پاسبانی اور اَحکامِ نظامِ قُرآنی !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالقریش ، اٰیت 1 تا 4
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لایلٰف
قریش 1
ایلٰفھم رحلة
الشتاء والصیف 2
فلیعبدو رب ھٰذالبیت 3
الذی اطعمھم۔من جوع و
اٰمنہم من خوف 4
اے ہمارے رسول ! ہم نے یمنی ہاتھیوں کے اُن یمنی ساتھیوں کی قومِ قریش کے
ہاتھوں سے اِس لیئے بیخ کنی کرائی ہے تاکہ قومِ قریش زمین و زمانے کے دونوں
کے سیاسی سرد و گرم موسموں سے آزاد ہوکر اَمن کے اِس گھر کے مالک کے اَحکام
کی اطاعت کرے اور اِن اَحکام کے مطابق زمین کے بے سامان انسان کو سامان اور
زمین کے بے اَمان انسان کو اَمان فراہم کرسکے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا پہلا وضاحت طلب لفظی مُرکب جو حرفِ مُفرد { لام } مع لفظِ {
ایلٰف } آیا ہے اُس لفظی مُرکب کی وضاحت سے پہلے یہ وضاحت زیادہ ضروری ہے
کہ اِس سُورت سے پہلی سُورت کا پہلا مضمون اور اُس سُورت کے بعد اِس سُورت
کا یہ دُوسرا مضمون اپنی معنویت کے اعتبار سے اِس طرح باہم دِگر مربوط ہے
جس طرح ایک ہاتھ کا پنجہ دُوسرے ہاتھ کے پنجے کے ساتھ باہم دِگر مربوط ہوتا
ہے اور اِن دو مضامین کے اِس ربطِ باہم کی تفصیل یہ ہے کہ اُس پہلی سُورت
کی اُن پانچ اٰیات میں سے پہلی اٰیت { الم تر کیف فعل ربک } میں اللہ
تعالٰی نے یمن کے ہاتھیوں کے جن یمنی ساتھیوں کو ایک ایسی ذلت آمیز شکست
دینے والے اپنے جس فعل کا ذکر کیا تھا اللہ تعالٰی کا وہ فعل صرف اُس سُورت
کی اُس پہلی اٰیت میں ہی کار فرما نہیں تھا بلکہ اللہ تعالٰی کا وہ فعل اُن
تمام دُوسرے اُمور میں بھی کار فرما تھا جن دُوسرے اُمور کا اُس سُورت کی
پہلی اٰیت کے بعد دیگر چار اٰیات میں ذکر کیا گیا تھا اور یہ وہ اُمور تھے
جن اُمور کی عملی تکمیل کے بعد یمن کے وہ ہاتھیوں والے لشکر مکہ و اہلِ مکہ
پر کوئی جنگ مُسلط کرنے کا کبھی کوئی خیال بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتے
تھے لیکن یمن کے اُن حملہ آوروں کی اِس دائمی شکست کے بعد انسانی دل میں
کوئی معترضانہ سوال تو پیدا نہیں ہوا تھا لیکن یہ متجسسانہ سوال ضرور پیدا
ہو گیا تھا کہ اگر اُس یمنی لشکر نے مکے پر حملہ کر ہی دیا تھا تو اُس یمنی
لشکر کو معمول کی ایک شکست دے دینا ہی کافی کیوں نہیں تھا اور اُس کو ایک
ایسی دائمی شکست دینا کیوں لازم ہو گیا تھا کہ اُس کے بعد اُس لشکر و لشکری
مُلک کی ساری قُوت بھی ختم کردی جاۓ اور اُس کی گمھنڈی قومیت بھی ہمیشہ کے
لیئے نیست و نابود کردی جاۓ جس قوت نے مکے پر وہ حملہ کیا تھا اِس لیئے اَب
اِس دُوسری سُورت میں اُس پہلے سوال کا یہ جواب دیا گیا ہے یمن کی اُس طاقت
ور قوم کو قومِ قریش کے ہاتھوں سے اِس لیئے ملیا میٹ کرایا گیا تھا تاکہ
قریش کی جو قوم مکے کے اِس مُحترم گھر کی تولیت کی ذمہ دار قوم ہے وہ قوم
سیاسی سرد و گرم کے اِن سارے موسموں سے آزاد ہو کر اپنے خالق و مالک کے اُن
اَحکام کی اطاعت کرے جو اَحکام قُرآن کی صورت میں اُس قوم کو سناۓ جا رہے
ہیں اور وہ قوم قُرآن کے اِن اَحکامِ نازلہ کے مطابق پورے عالَم کی علمی و
عملی رہنمائی کرتے ہوئے زمین کے ہر بے سامان انسان کو سامان اور زمین کے ہر
بے اَمان انسان کو اَمان فراہم کرے ، اِن سُورتوں کے اِس ربطِ باہم کی وجہ
سے اہلِ روایت کی ایک جماعت نے قُرآن کی اِن دو الگ سُورتوں کو قُرآن کی
ایک ہی سُورت اور اِن دو سُورتوں کے دو مضامین کو بھی ایک ہی مضمون سمجھا
ہے اور پھر اُنہوں نے اپنی اِس سمجھ کے مطابق یہ روایت بھی وضع کر لی ہے کہ
صحابیِ نبی اُبی ابن کعب کے پاس قُرآنِ کریم جو کا نُسخہِ تلاوت موجُود تھا
اُس نُسخے میں یہ دونوں سُورتیں اِس طرح ایک ساتھ لکھی ہوئی تھیں کہ اِن کے
درمیان بسم اللہ موجُود نہیں تھی لہٰذا یہ دو مضامین کی حامل دو سُورتیں
نہیں ہیں بلکہ یہ ایک مضمون کی حامل ایک سُورت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِن
دو سُورتوں کا مضمون اگرچہ ایک ہی مضمون ہے اور اِس کے ایک ہونے کی اپنی
ایک وجہ بھی موجُود ہے اور یہ دونوں سُورتیں الگ الگ بھی ہیں اور اِن دونوں
کے الگ الگ ہونے کی بھی ایک وجہ موجُود ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ پہلی سُورت
کا آخری مضمون یہ تھا کہ { اور پھر آپ کی قوم نے اُن بلند پہاڑوں کی اُس
بلندی سے اُس حملہ آور لشکر پر ایک ایسا پتھراؤ کیا تھا کہ جس نے اُس لشکر
کو جلے کٹے ہوئے ایک بوسیدہ چارے کی طرح کاٹ کر بُھس بنا دیا تھا } اِس
تمہیدِ کلام کے بعد دُوسری حقیقت یہ ہے کہ پہلی سُورت کے آخری کلام { کعصف
ماکول } کا آخری حرف { لام } تھا اور بعد میں آنے والی سُورت { لایلٰف }لایلٰف
} کا پہلا حرف بھی حرفِ { لام } ہے ، سو اگر اِس مضمون کے اِس متن کو الگ
الگ کر کے اِس کو اِن دو سُورتوں میں تقسیم نہ کیا جاتا تو اِس میں لفظی
اعتبار سے تو یہ ثقالت پیدا ہوجاتی کہ جو پڑھنے والا اِس کو وقف کیئے بغیر
پڑھتا تو اُس کے لیئے دو لام کی ادائگی مُشکل ہوجاتی جس کی وجہ سے پہلے لام
پر وقف لازم ہو جاتا اور اِس سے اِس میں معنوی خرابی یہ پیدا جاتی کہ
دُوسری سُورت کا آخری حرف چونکہ حرفِ { لام } براۓ { لیئے } ہے جس سے یہ
مفہوم اخذ کیا جاتا کہ اِس سے پہلی سُورت میں جس بُھس کا ذکر کیا گیا ہے وہ
قومِ قریش کے لیئے اِس جنگ میں فتح یاب ہونے کا خُدائی انعام ہے جس کا پہلی
سُورت کے آخر میں ذکر کیا گیا ہے اِس لیئے اِس لفظی اشکال اور معنوی اشتباہ
کو دُور کرنے کے لیئے اِس ایک مضمون کو دو سُورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے
تاکہ قُرآن پڑھنے والا قُرآن پڑھتے ہوئے اِس لفظی اشکال اور اِس معنوی
اشتباہ سے محفوظ و مامون ریے !!
|
|