فَرضِ دین و غرضِ دین اور قرضِ دین !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالماعون ، اٰیات 1 تا 7 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ارءیت
الذی یکذب
بالدین 1 فذالک
الذی یدع الیتیم 2
و لا یحض علٰی طعام
المسکین 3 فویل المصلین 4
الذین ھم عن صلاتہم ساھون 5
الذین ھم یراءون 6 ویمنعون الماعون 7
اے ہمارے رسول ! کیا آپ نے اپنی لوحِ بصرت پر اُس انسان کا اَحوال کبھی نہیں دیکھا ہے جو انسان دین کا زبانی اقرار اور عملی انکار کرتا ہے اور جو انسان دین کا زبانی اقرار اور عملی انکار کرتے رہنا چاہتا ہے ، اگر آپ اُس انسان کو جاننا چاہتے ہیں تو اُس کی شناخت یہ ہے کہ وہ زبان کا مُسلم اور عمل کا مُنکر انسان ہر بے آسرا انسان کو دھکے دے کر اُس کے انفرادی وسائلِ ذات اور انسانیت کے اجتماعی وسائلِ حیات سے دُور کرتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسا بخیل انسان ہوتا ہے جو خود بھی کسی ضرورت مند کی مدد نہیں کرتا اور کسی اور کو بھی اُس کی مدد نہیں کرنے دیتا ، اُس کے دکھاوے کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اہلِ دین میں خود کو اہلِ دین ظاہر کرنے کے لیئے اہلِ دین کے درمیان رہ کر اعمالِ دین بھی اَنجام دیتا ہے لیکن اُس کا فہمِ دین اُس کی ایک بے معنی اُٹھک بیٹھک سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہوتا اور دکھاوے کا وہ دین دار ہلاک ہو جاتا ہے جو انسان کے سامانِ ضرورت پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن قُرآن کا پیش کیا ہوا وہ خالص نظامِ دین ہے جو اِس سُورت کی پہلی اٰیت کے چوتھے لفظ { الدین } نے بذاتِ خود مُتعین کیا ہے ، علمِ لُغت کی رُو سے قُرآن کے اِس لفظِ دین کا ایک معروف معنٰی یومِ قیامت اور ایک مُتداول معنٰی قانونِ دین ہے اور اِس سُورت کے اِس مقام پر ایک ہی وقت میں یہ دونوں معنی اِس طرح مُراد ہیں کہ جو انسان دُنیا میں قُرآن کے اِس نظامِ دین پر عمل کرتا ہے تو وہ اپنے اِس عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اُس کا یومِ قیامت کے حساب اور اُس کی جزا و سزا پر کامل ایمان و یقین ہے اور جو انسان اِس دُنیا میں خُدا کے اِس نظامِ دین سے مُنحرف ہوتا ہے تو وہ بھی اپنے اِس انحراف سے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اُس کا یومِ قیامت اور یومِ قیامت کو ملنے والی جزاۓ عمل و سزاۓ عمل پر ایمان و یقین نہیں ہے ، قُرآن کا یہ نظامِ دین وہ مُتحرک عملی نظامِ دین ہے جو پہلے انسان کے دل میں مُتحرک ہونے کی ایک تحریک پیدا کرتا ہے اور پھر اپنی اُس تحریک سے مُتحرک ہونے والے انسان کو لَمحہ بہ لَمحہ اپنے ساتھ اِس طرح چلاتا چلا جاتا ہے جس طرح وہ اُس انسان کو چلانا چاہتا ہے ، قُرآن کا یہ دین انسان پر خُدا کا عائد کیا ہوا وہ فرضِ لازم ہے جو انسانی حیات پر اُس کا ایک ایسا قرضِ لازم ہے جو انسان نے موت سے پہلے اِس موجُودہ زندگی میں چکانا ہے اور موت کے بعد ملنے والی زندگی میں اپنے اِس حسنِ عمل کا انعام پانا ہے ، اِس دین کی غرض و غایت یہ ہے کہ انسان جس وقت تک اِس زمین پر زندہ رہے ہے اُس وقت تک قُرآن کے اِس نظامِ زندگی کے مطابق زندگی گزارے اور جب آزماش کی اِس پہلی زندگی کے بعد وہ آسائش کی اُس دُوسری زندگی میں داخل ہو جاۓ تو اُس دُوسری زندگی میں اُس کے لیئے ہر طرف راحت ہی راحت اور ہر طرف سکون ہی سکون ہو ، قُرآن کے اِس نظامِ زندگی میں شامل ہونے کے لیئے اِس دین کی جو پہلی اور آخری ایک شرط ہے وہ یہ ہے کہ جس انسان نے اِس دین میں شامل ہونا ہے اُس نے اپنے جسم و جان کی پُوری توانائی کے ساتھ پُوری طرح اِس دین میں شامل ہونا ہے اور اُس نے اِس دین کے سارے عملی تقاضوں کا اپنے عمل سے اقرار کرنا ہے ، قُرآنِ کریم کے اِس قاعدے کو بیان کرنے والی اِس سُورت کی پہلی اٰیت کا پہلا صیغہ { ارءیت } فعل ماضی کا اور دُوسرا صیغہ { یکذب } فعل مضارع کا صیغہ ہے ، ماضی و مُستقبل کے اِن دو صیغوں کے حامل کلام میں اللہ نے اپنے نبی سے اپنے نبی کی سوچ کے بارے میں جو سوال کیا ہے وہ ماضی کے حوالے سے کیا ہے اور اُس سوال کا جو جواب دیا ہے اُس جواب میں آپ کی ماضی کی سوچ کو آپ کی اُمت کے مُستقبل کے ساتھ مُتعلق کر دیا ہے اور اِس مر بوط سلسلہِ کلام میں اللہ نے اپنے نبی سے یہ سوال کیا ہے کہ اَب تک آپ اپنی اِس اُمت کے مُستقبل کے بارے میں جو کُچھ سوچتے رہے ہیں اُس کا کیا نتیجہ بر آمد ہوا ہے اور پھر اللہ نے خود ہی اپنے اِس سوال کا یہ جواب دے کر آپ کے زاویہِ فکر کا رُخ اِس طرف موڑ دیا ہے کہ جو انسان قُرآن کے اِس نظام کا اقرار کرتا ہے وہ مُسلم ہے اور جو اِس نظام کا انکار کرتا ہے وہ مُنکر ہے اور جو انسان اِس کے اقرار و انکار کے درمیان مفاد کی سرحد پر کھڑا رہتاہے وہ منافق ہے لیکن اگر آپ نے مزید غور و فکر کرنا ہے تو آپ اپنے اِس غور و فکر کا رُخ اُس برخود غلط انسان کی طرف موڑ دیں جو قُرآن کے اِس نظامِ دین کا جو زبانی اقرار کرتا ہے تو وہ اپنے اُس زبانی اقرار ہی کو اپنا دین و ایمان سمجھتا ہے اور دین کے وہ عملی تقاضے پُورے نہیں کرتا جن عملی تقاضوں کو پُورا کرنا اِس دین کا ایک وہ بُنیادی تقاضا ہے جس بُنیادی تقاضے کی تکمیل کے بغیر کسی انسان کا اِس نظامِ دین کا قبول کرنا یا قبول نہ کرنا ایک برابر ہوتا ہے لیکن عُلماۓ روایت و تفسیر نے اِس سلسلہِ سوال و جواب سے یہ منافقانہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ سوال و جواب عہدِ نبوی کے اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنی زبان سے تو قُرآن کے اِس عملی نظام کا اقرار کرتے تھے لیکن دل سے وہ اِس نظام کے مُنکر تھے اور پھر اپنے اِس مَبلغِ علم سے اِن لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ اِس سوال و جواب کا مقصد خُدا کی برف سے یہ ظاہر کرنا ہے اُس وقت اَصحابِ محمد علیہ السلام میں کُچھ منافق بھی شامل تھے ، اِس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہجرتِ مکہ کے بعد قیامِ مدینہ کے ابتدائی زمانے میں اگرچہ آپ کے اَصحاب کے ارد گرد منافقین کا موجُود ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے لیکن اُس وقت جس طرح مُسلم و مُنکر اپنے اپنے عمل سے پہچانے جاتے تھے اسی طرح منافق بھی اپنے دوغلے پَن کے عمل سے پہچانے جاتے تھے یہ الگ بات ہے کہ قُرآن کی اُس نئی معاشرت میں اُن لوگوں کے بارے میں تحمل سے کام لیا جاتا تھا اور اُن سے کُچھ زیادہ تعرض نہیں کیا جاتا تھا لیکن اِس سوال و جواب کا اندازِ کلام صاف بتاتا ہے کہ یہ سوال اُن جانے ہوۓ اور پہچانے ہوئے لوگوں کے بارے میں نہیں تھا بلکہ مُستقبل کے اُن لوگوں کے بارے میں ایک قانون تھا جو قانونی طور پر مُستقبل کے کلمہ گو مُسلم ہوں گے لیکن اُن کا عمل اُن کے اِس اقرار سے مُختلف ہو گا اور چونکہ رسول اللہ نے اِس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اِس لیئے اللہ تعالٰی نے خود ہی بتادیا کہ اِس سے مُستقبل کے وہ قانونی مُسلم اور عملی کافر لوگ مُراد ہیں جن کی شناخت یہ ہے کہ وہ یتم و مسکین کے مال پر اِس طرح قابض ہو جائیں گے کہ وہ پہلے تو اُس یتیم و مسکین کو اُس کے اپنے اِس مال سے محروم کریں گے اور بعد ازاں دُوسرے لوگوں کو بھی اُس کی مدد سے بھی اِس لیئے روکیں گے تا کہ وہ کسی اُن کی مالی مدد سے متمول ہوکر اِن کے مقابلے میں نہ آسکیں اور اُن کے مقابلے میں آکر اپنا چھنا ہوا مال اِن سے واپس نہ لے سکیں ، قُرآن نے اُن کے اِس عمل کو فعل مضارع کے اُس صیغہ { یحظ } کے ساتھ واضح کیا ہے جس سے اُردو زبان کا وہ معروف لفظِ حظ نکلا ہے جس کا معنٰی کسی قول و عمل سے لُطف لینا ہوتا ہے اور یہاں پر اِس سے یہ لطیف معنٰی پیدا کیا گیا ہے یہ لوگ مسکین و یتیم کو ایک پُر لطف زندگی گزارتا ہوا دیکھ ہی نہیں سکتے جس سے خود بخود ہی اِس میں یہ مفہوم بھی پیدا ہو گیا ہے کہ یہ لوگ یتیم و مسکین کو کھاتا پیتا دیکھ کر کبیدہ خاطر ہو جاتے ہیں ، یہ وہ ناکارہ و نامراد قانونی مُسلم ہوں گے جو دُوسرے عملی مُسلم کے ساتھ مل کر نمازیں بھی پڑھیں گے ، روزے بھی رکھیں گے اور حج و عُمرے بھی ادا کرتے رہیں گے لیکن اِن کا یہ عمل اُن کی دکھاوے کی ایک اُٹھک بیٹھک سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہوگا ، قُرآن نے اِن لوگوں کو { مُصلّین } کہا ہے جس کا اسمِ واحد { مُصلّی } ہے اور جس کا مصدری معنٰی پیچھے پیچھے چلنے والا وہ متبع ہوتا ہے جو اپنے آگے آگے چلنے والے کی اتباع کرتا ہے لیکن اِن کی یہ اتباع چونکہ دکھاوے کی دکھاوے کی اتباع ہو گی اِس لیئے یہ اِس اُمت کے اہلِ ہدایت نہیں ہوں گے بلکہ اِس اُمت کے اہلِ ہلاکت ہوں گے کیونکہ یہ لوگ عُمر بھر انسانی معاشرے کے یتیم و مسکین اورکم زور و نادار اہلِ زمین کے وسائلِ حیات پر سانپ کی طرح کُنڈلی مار کر بیٹھے رہنا پسند کریں گے اِس لیئے جس زمانے میں بھی یہ لوگ اہلِ ایمان کے سامنے آئیں اُس زمانے کے اہلِ ایمان اِن کا کڑا احتساب کر کے انسانی معاشرے کے نادار لوگوں کو اِن کے پنجہِ استبداد سے بچائیں تاکہ انسانی معاشرہ اِن کی وجہ سے عدمِ توازن و عدمِ استحکام کا شکار نہ ہوجاۓ !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461921 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More