انسانیت کے مسیحا ڈاکٹر آصف نذیر

کچھ انسان اتنے مضبوط،پرجوش،کام میں مگن اور کسی فیلڈ میں اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ ان کا نام ذہن میں آتے ہی یوں لگتا ہے کہ بس کام بن گیا۔وہ اسی دنیا میں رہتے ہیں لیکن ان کے دم سے دنیا آباد ہوتی ہے ،وہ اپنی ذات میں ایک پورا جہاں ہوتے ہیں ،ایسا ہی ایک بڑا قد آور نام ڈاکٹر آصف نذیر صاحب کا تھا۔ کل ان کی رحلت کی خبر سنی تو ایک دم یقین ہی نہیں آیا ۔اتنا بڑا دھچکا لگا کہ جیسے دل ہی بجھ گیا ہو ۔ اس دنیاۓ فانی میں جو بھی آیا ہے ،اسے واپس جانا ہے لیکن کچھ انسان ،اس دھرتی کی زندگی ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر آصف صاحب چائلڈ اسپیشلسٹ تھے۔ ننھے منے نومولود بچوں کے والدین اپنی حالت _پریشانی میں آپ کے پاس آتے اور مطمئن ہوکے جاتے۔ ڈاکٹر صاحب ،بیماری کی تشخیص بالکل صحیح کرتے ،ایسی میڈیسن لکھتے جو مریض کو بہت جلد ٹھیک کردیتی۔ڈاکٹر صاحب کی بذلہ سنج طبیعت کی وجہ سے والدین کی آدھی فکر تو آپ کی باتوں سے ہی دور ہوجاتی تھی۔آپ کے مزاج سے ناواقف لوگ بعض اوقات کسی بات کا برا بھی مان جاتے لیکن ان کو جاننے والے افراد کو ان کے فی البدیہہ تبصرے بھی اچھے لگتے تھے۔ ہمارا ان کا تعلق تقریباً بیس سال پہ محیط تھا ۔ سخت سردیوں میں جب کسی بچے کا بخار اور فلو ٹھیک ہونے پہ نہ آتا یا پیٹ خراب ہوتا تو بچے کو لے کے سیدھے ڈاکٹر صاحب کے پاس چلے جاتے اور ایک تسلی ہوتی کہ ڈاکٹر صاحب نے چیک کرکے کہہ دیا ہے کہ ان شاءاللہ ،بچہ تین دن میں ٹھیک ہوجاۓ گا۔ایک بار میری بیٹی جو چند ماہ کی تھی ،اسے بہت وامٹنگ ہورہی تھی اور کسی ڈاکٹر کی دوا سے آرام نہیں آرہا تھا۔ اسے گود میں اٹھاکے جارہی تھی تو راستے میں اپنی ہمسائ غزالہ باجی سے ملاقات ہوئی ،وہ کہنے لگیں کہ اسے ڈاکٹر آصف کو دکھاؤ ،میری بیٹی کو ان کی میڈیسن سے آرام آیا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب ہمارے فیملی ڈاکٹر بن گئے ،ہمارے بہن بھائیوں ،جیٹھ دیور سب کے بچے جب بیمار ہوتے تو انھیں ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جاتے۔ وہ صرف معالج نہیں تھے،وہ انسانیت کے سچے ہمدرد تھے۔ ایک بار میرے دیور کی نومولود بیٹی کی بوقتِ پیدائش سیریس کنڈیشن تھی ،آن ڈیوٹی ڈاکٹر اسے سنبھالنے میں ناکام نظر آرہا تھا،میرے میاں صاحب نے ہاسپٹل ریسپشن سے ڈاکٹر آصف کا پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ رخصت پر ہیں۔۔میاں صاحب فورا" ان کے گھر چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد جب ہم نرسری وارڈ کے باہر کھڑے تھے ،کیا دیکھتے ہیں کہ گلاس ڈور اوپن ہوا اور نرسز کی حیرت و خوشی سے بھری آوازوں کے پیچھے ڈاکٹر آصف نذیر صاحب اس حالت میں خراماں خراماں چلے آرہے ہیں کہ ہارٹ کی بائ پاس سرجری کی وجہ سے سینے پہ ٹانکے لگے ہوئے ہیں ،شرٹ سامنے سے اوپن ہوا میں لہرا رہی ہے اور ڈاکٹر صاحب بچی کو چیک کرکے انجکشن لکھ رہے ہیں۔وہ اس حالت میں اپنے گھر سے اٹھ کے بچی کی جان بچانے کو ہاسپٹل چلے آۓ تھے ،ایسے انسان ،انسانیت اور اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال اور فن_طب کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔اے کاش ،ایسے قیمتی لوگوں کی قدر ،ان کی زندگی میں ہی کی جاۓ،ان کی حوصلہ افزائی اور تحسین کی جاۓ،ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کا رحجان بنایا جائے ۔سلام ہے ڈاکٹر صاحب ،آپ واقعی دکھی انسانیت کے عظیم مسیحا تھے،آپ کے جانے سے ہزاروں آنکھیں اشک بار ہیں۔اب ہم اقبال ڈے کو آپ کے یوم_وفات کے طور پر بھی یاد رکھیں گے۔ دعا ہے کہ رب العالمین آپ کی بہترین میزبانی فرمائے آمین ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.