ذرائع ابلاغ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسی ناقابلِ
تسخیر قوت کے طورپر پیش کیا جاتا ہے کہ جسے شکست فاش سے دوچار نہیں کیا
جاسکتا حالانکہ 2019 کے بعد اسے جملہ پندرہ ریاستی انتخابات میں اترپردیش ،آسام،
اتراکھنڈ اور گوا کے علاوہ کسی بھی صوبے میں کامیابی نہیں ملی ۔ اس کے
باوجود گجرات کے معاملہ میں بی جے پی بہت زیادہ محتاط ہے کیونکہ وہ مودی
اور شاہ دونوں کی جنم بھومی ہے۔ اس لیے گجرات کی ہار کا اثر مغربی بنگال سے
یکسر مختلف ہے ۔اس سے قومی سطح پر ہوا کا رخ بدل سکتا ہے۔ وہاں اگر کمل
مرجھا گیا تو 2024میں اس کا کھلنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس حقیقت سے مودی اور
شاہ واقف ہیں اسی لیے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں ۔ فسطائیوں کے لیے یہ
بھی ایک تلخ حقیقت ہے 2002 کے بعد سے گجرات میں بی جے پی کا گراف مسلسل گر
رہا ہے اور کانگریس کی نشستوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
2002 میں بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور اس کے بعد نریندر مودی نے
وزیر اعلیٰ کی حیثیت سےپہلا انتخاب لڑکر 127 نشستوں پر شاندار جیت درج
کرائی ۔ پانچ سال تک حکومت کرنے کے بعد وہ اپنی کارکردگی دوہرانے میں ناکام
رہے اوراکشر دھام مندر پر حملہ کا تماشا کرنے کے باوجود ان کی نشستیں 117
پر آگئیں ۔ 2012 میں مزید کمی کی توقع تھی مگر عشرت جہاں اور سہراب الدین
انکاونٹر کی مدد سے انہوں دوبارہ انتخاب جیتا پھر بھی پہلے کے مقابلے دو
نشستیں کم ہوگئیں ۔ اس کے بعد 2017 کا انتخاب میں بی جے پی نے اپنے ووٹ کا
تناسب تو بڑھایا مگر نشستیں گھٹ کر 99پر آگئیں۔ یہ مسلسل گراوٹ مودی اور
شاہ کی موجودگی کے باوجود ہوتی رہی ہے۔ اس کے برعکس 2002 میں کانگریس کا
سفر 51سے شروع ہوا مگر پانچ سال بعد وہ 59 پر پہنچ گیا ۔ 2012کے اندر جہاں
بی جے پی کے دو امیدوار کم ہوئے کانگریس نے دو کا اضافہ کرلیا اور پچھلی
بار 61 سے بڑھ کر 77 پر پہنچ گئی ۔ کیا یہ اعدادو شمار بی جے پی کے لیے
خطرے کی گھنٹی نہیں ہیں؟
پچھلے انتخاب میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کا فرق صرف 22 تھا لیکن
ایک چونکانے والی حقیقت یہ تھی کہ کانگریس کے16 ؍امیدوار 3,000 سے بھی کم
ووٹ کے فرق سے ہارے تھے ۔ ان میں سے تین کی ہار فرق تو 1,000 سے بھی کم کا
تھا۔کم ترین فرق سے جیتنے والوں میں بلقیس بانو کے مجرمین کو سنسکاری قرار
دینے والا گودھرا کا بی جے پی امیدوا راول جی بھی شامل تھا ۔اس نے صرف 258
ووٹ سے کامیابی حاصل کی تھی ۔ وہ کمبخت کسی زمانے میں کانگریس کے اندر ہوا
کرتا تھا مگر پہلی بار بی جے پی کے ٹکٹ انتخاب کیا جیتا کہ ایمان بیچ
دیا۔یہ حقیقت بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس حلقۂ انتخاب میں راجندر سنگھ پرمار
نامی آزاد امیدوار نے 18,856 ووٹ حاصل کیے تھے اور3,050 لوگوں کا خیال تھا
کہ سارے امیدوار نااہل ہیں اس لیے انہوں نے نوٹا پر مہر ثبت کی تھی۔
اس کے علاوہ ڈھولکا حلقۂ انتخاب سے بی جے پی کے سینئر رہنما اور وزیر
تعلیم بھوپندر سنگھ چڈساما کو بھی صرف 327ووٹ کے فرق سے کامیابی ملی تھی
جبکہ وہاں بھی نوٹا کے حق میں 2,347 ووٹ پڑے اورایک آزاد امیدوار شکتی
سنگھ سسودیا نے 4,222 ووٹ کاٹے۔ آنندی بین پٹیل کی کابینہ میں وزیر خزانہ
سوربھ پٹیل کو صرف 906 ووٹ کے فرق سے کامیابی ملی۔ ان کم فرق سے ہارنے والی
نشستیں جیتنے میں اگر کانگریس کامیاب ہوجاتی تو اس کے ارکان اسمبلی تعداد
93اور بی جے پی کی 83 پر آجاتی ۔ پچھلی بار یہ چمتکار نہیں ہوا مگر اس
مرتبہ ہوسکتا ہے ۔اس حقیقت کا انکار مشکل ہے کہ بی جے پی کے خلاف عوامی
ناراضی میں اضافہ ہوا ہے ۔ عام لوگ بیروزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس
رہے ہیں۔ بازار میں مندی پسری ہوئی ہے۔
گجرات کے پچھلے اور اس الیکشن میں بنیادی فرق عام آدمی پارٹی کی آمد سے
ہوا ہے۔ فی الحال یہ صورتحال ہے کہ سوشیل میڈیا تو دور قومی ذرائع ابلاغ
میں بھی اروند کیجریوال کا چرچا نریندر مودی سے زیادہ ہے۔ عام آدمی پارٹی
نے چونکہ پنجاب میں کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کردیا اس لیے توقع یہ تھی
کہ گجرات میں بھی کانگریس پر ہاتھ صاف کرے گی لیکن ان دونوں صوبوں میں کئی
چیزیں مختلف ہیں ۔ان میں پہلا فرق تو یہ ہے پنجاب میں کانگریس کی حکومت تھی
۔ اس لیے اقتدار سے بغاوت کا فارمولا پنجاب میں کانگریس کے خلاف تھا مگر
گجرات میں بی جے پی سے متصادم ہے کیونکہ یہاں بی جے پی برسرِ اقتدار
ہے۔کیجریوال کو حکومت کی نااہلی یا ناراضی سے ملنے والے فائدے کی قیمت
گجرات میں بی جے پی کو چکانی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کیجریوال تعمیر و ترقی
یا فلاح و بہبود کے بجائے ہندوتوا کا کارڈ کھیل رہے ہیں۔وہ اپنے آپ کو
مودی سے بڑا ہندو ثابت کرنے کی مہم میں جٹے ہوئے ہیں۔
کانگریس کے نکتۂ نظر سے دیکھا جائے تو پنجاب میں کانگریسی آپس میں لڑ رہے
تھے ۔اس کا زبردست فائدہ عام آدمی پارٹی کو ملا۔ آج کانگریسی رہنماوں کا
یہ حال ہے کہ ان کا سابق صدر کیپٹن ارمیندر سنگھ اور سابق صوبائی صدر سینل
جاکھڑ بی جے پی کے ساتھ ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ چرنجیت جیت سنگھ چنی خود اپنے
حلقۂ انتخاب میں شکست فاش سے دوچار ہوکر کناڈا نکل چکا ہے ۔ پارٹی کا
صوبائی صدر نوجوت سنگھ سدھو جیل میں چکی پیس رہا ہے۔ گجرات کانگریس میں
ایسی کوئی سر پھٹول نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے خود بھرے مجمع میں اپنے کارکنان
کے سامنے یہ تسلیم کیا ہے کہ کانگریس کو ہلکے میں نہ لیں وہ خاموشی سے
زمینی سطح پر کام کررہی ہے۔
کانگریس نے ابھی حال میں ریاست کے اندر پانچ مختلف علاقوں میں سنکلپ(عزم)
یاترا نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں نومنتخب صدر ملک ارجن کھڑگے سمیت کئی
اہم رہنما شرکت کریں گے ۔ اس لیے پنجاب کے ساتھ گجرات کانگریس موازنہ درست
نہیں ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا کے بیٹے مہندر سنگھ کی بی جے
پی کو خیر باد کہہ کر کانگریس میں شمولیت بھی اس کی طاقت کا اعتراف ہے ورنہ
وہ عآپ میں بھی جاسکتے تھے۔ بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ کی تقسیم پر نظر
ڈالیں تو یہ بات وضح ہوتی ہے کہ ایک کا اثر شہروں میں اور دوسرے کا دیہات
میں ہے۔ بڑے شہر مثلاً احمدآباد ، بڑودہ، سورت اور راجکوٹ میں بی جے پی نے
پچھلی بار 42میں سے 36 پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ کانگریس کے حصے میں صرف
6نشستیں آئی تھی حالانکہ وہ بھی 2012 کے مقابلے دو زیادہ تھیں ۔ اس کے
برعکس دیہی علاقوں بی جے پی نے جو 14 نشستیں گنوائی تھیں وہ سب کی سب
کانگریس کی جھولی میں چلی گئی تھیں۔
عام آدمی پارٹی کے پاس چونکہ کیڈر نہیں ہے اور اس کا انحصار زیادہ تر
سوشیل میڈیا پر ہے اس لیے وہ شہروں پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گی۔ وہاں پر
کانگریس کے پاس صرف 28فیصد ووٹ تھا ، اب اگر اس میں کمی ہوتو اسے کیا فرق
پڑے گا ؟ زیادہ سے 6نشست کم ہوجائیں گی لیکن اگر دیہات میں عام آدمی پارٹی
بی جے پی کے تین ہزار یا اس سےزیادہ ووٹ کھاجائے تو کانگریس کی 22؍نشستیں
نکل جائیں گی ۔ اس لیے عام آدمی پارٹی در اصل کانگریس کے لیے مفید اور بی
جے پی کی خاطر مضر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیجریوال کو وزیر اعظم شہری نکسل کہہ
کر پکارتے ہیں ۔ اس لیے کہ بقول خود جس طرح نکسلیوں سے ان کی جان کو خطرہ
ہے اسی طرح کیجریوال کے سبب بلا واسطہ ان کی کرسی خطرے میں ہے۔
فی الحال سارے بڑے جائزے عام آدمی پارٹی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور
کچھ نے تو کانگریس کو تیسرے نمبر پہنچا دیا ہے لیکن اس بیچ اروند کیجریوال
نے معروف صحافی ایسودان گڑھوی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کاچہرا بناکر اپنے پیر
پر کلہاڑی چلادی ۔ اس اعلان نے اسی سال اپریل میں کانگریس کو چھوڑعآپ میں
آنے والے اندر نیل راج گرو کی گھر واپسی کروادی ۔ وہ 2012میں کانگریس کے
ٹکٹ پر راجکوٹ سے انتخاب جیت چکے ہیں۔ 2017 میں انہوں نے وزیر اعلیٰ وجئے
روپانی کے سامنے انتخاب لڑا تھا ۔ عام آدمی پارٹی کے صوبائی صدر گوپال
اٹالا کی گرفتاری پر اس نے ان کے پٹیل سماج سے تعلق کو بھنانے کی کوشش کی
تھی لیکن راج گرو جیسے معروف پٹیل چہرے کے ناراض ہوکر لوٹنے سے عام آدمی
پارٹی کا نقصان ہوگا۔ اس فیصلے سے گوپال اٹالا بھی ناخوش نظر آئے۔
کانگریس میں لوٹنے کے بعد اندر نیل گڑھوی نے کہا ’ہم ہمیشہ کا نگریس کے
ساتھ تھے ۔ جب میں نے پارٹی چھوڑی تھی تو میرے خاندان کے لوگوں کو بھی یہ
فیصلہ منظور نہیں تھا۔ میں بی جے پی کو ہرانے کے لیے عام آدمی پارٹی میں
شامل ہوا تھا مگر مجھے لگا کہ وہ بی جے پی کی طرح لوگوں کو گمراہ کرتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ راج گرو پر یہ انکشاف گڑھوی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار
بنانے کے بعد ہوا۔ انہوں نے مزید کہا ’ میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ وہاں ایک
سسٹم ہے لیکن وہاں جھوٹ بولنے کا سسٹم ہے۔ عآپ ایک حکمت عملی کے تحت
کانگریس کو کمزور کررہی ہے ۔ وہ بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ اس لیے میں کانگریس
میں لوٹ آیا۔ گجرات کے ساتھ دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب کا اعلان
کرکے بی جے پی نے کیجریوال کے لیے نیا دھرم سنکٹ کھڑا کردیا۔ ان کی سمجھ
میں نہیں آرہا کہ ’میں اِدھر جاوں یا اُدھر جاوں ، بڑی مشکل میں ہوں میں
کدھر جاوں؟‘ ہندو رہنما سدھیر سوری قتل کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت
سنگھ مان کا گجرات میں استعمال مشکل ہوگیا ہے۔ تیس سال تک بی جے پی کی خدمت
کرنے والے جئے نارائن ویاس نے بھی استعفیٰ دے دیا اور وہ اب کانگریس میں
آنے کے لیے پرتول رہے ہیں ۔ مہندر سنگھ واگھیلا کے بعد اس تیسرے بڑے رہنما
کی کانگریس میں آمد سیاسی ہوا کے رخ کا پتہ دیتی ہے۔ بعید نہیں کہ احمد
فراز کا یہ شعر اس بار بی جے پی پر صادق آجائے؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
|