ابھی حال ہی میں انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں 17 ویں جی
20 سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے۔سمٹ کا موضوع رہا "مضبوط بحالی کے
لئے ایک ساتھ" ۔ سمٹ کے دوران عالمی صحت کے بنیادی ڈھانچے، ڈیجیٹل تبدیلی
اور پائیدار توانائی کی جانب منتقلی جیسے اہم موضوعات پر بات چیت کی
گئی۔تاریخی اعتبار سے جی 20 کا قیام1999 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ گروپ
دنیا کی اہم ترقی یافتہ معیشتوں اور ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل ہے ، جو
عالمی امور میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور یہ گروپ بین الاقوامی مسائل
کو مشترکہ طور پر حل کرنے کے لئے ایک موثر کثیر الجہتی میکنزم کہلاتا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ جی 20 مالیاتی اور معاشی امور پر بین الاقوامی تعاون کے
لئے ایک مرکزی فورم ہے۔ یہ 19 ممالک کے علاوہ یورپی یونین پر بھی مشتمل
ہے.رکن ممالک میں چین، ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی،
بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ،
جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔
یہ سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب دنیا کو متعدد چیلنجز کا
سامنا ہے جیسے نازک معاشی بحالی، طویل عرصے سے کووڈ 19 وبائی صورتحال،
افراط زر کی بلند ترین شرح اور زیادہ تر خطوں میں مشکل مالیاتی حالات شامل
ہیں، ان مسائل کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کو مستقبل کی ترقی سے
متعلق متعدد اہم چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی امیدیں بھی
جی 20 سمٹ سے وابستہ ہیں کہ یہ یکجہتی کے جذبے کو آگے بڑھائے گا اور مشترکہ
چیلنجوں سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرے گا۔
چین کے صدر شی جن پھنگ نے اس سمٹ کے سیشن ون سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس
وقت انسانی ترقی کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تمام ممالک کو بنی نوع انسان
کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے تصورات کو فروغ دینا چاہئے اور امن، ترقی،
تعاون اور مشترکہ مفادات کے بہتر نتائج کی وکالت کرنی چاہئے. جی 20 کے رکن
ممالک کو دیگر تمام ممالک کے لئے ترقی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے
اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے.شی جن پھنگ نے مزید جامع عالمی ترقی کو فروغ
دینے کی تجویز پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ نظریاتی حدبندی، گروپ بندی کی
سیاست میں ملوث ہونا اور گروہی محاز آرائی محض دنیا کو تقسیم کرے گی۔ تمام
ممالک کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے، اختلافات کے باوجود مشترکہ بنیاد
تلاش کرنی چاہئے، پرامن طور پر مل جل کر رہنا چاہئے، اور ایک کھلی عالمی
معیشت کی تعمیر کو فروغ دینا چاہئے.شی جن پھنگ نے کہا کہ موجودہ صورتحال
میں تمام ممالک کی مشترکہ ترقی ہی حقیقی ترقی ہے۔ ہر ملک بہتر طور پر آگے
بڑھنا چاہتا ہے، جدیدیت کسی ایک ملک کا استحقاق نہیں ہے. بڑے ممالک کو
حقیقی طور پر دوسرے ممالک کی ترقی اور مزید عالمی"پبلک پراڈکٹ" فراہم کرنے
میں مدد کرنی چاہئے۔شی جن پھنگ نے کہا کہ عالمی اقتصادی بحالی کے لئے شراکت
داری تشکیل دی جائے اور ترقی پذیر ممالک کی تشویش کا خیال رکھا جائے۔
یہاں انہوں نے ایک مرتبہ پھر چین کی اشتراکی ترقی کے نظریے کی حمایت کرتے
ہوئے کہا کہ چین جی20 میں افریقی یونین کی شرکت کی حمایت کرتا ہے۔انہوں نے
پرزور الفاظ میں کہا کہ مختلف ممالک کو انسداد وبا سے متعلق عالمی تعاون کو
فروغ دینا چاہیے،مالیاتی بحران کے خطرات سے نمٹنا چاہیے اور ترقی پذیر
ممالک کے قرضوں میں کمی کے عمل میں عالمی مالیاتی اداروں اور قرض دہندگان
کو حصہ لینا چاہیئے۔شی جن پھنگ نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں ترقی پذیر
ممالک کی حمایت پر بھی زور دیا۔خوراک اور توانائی کے تحفظ کے بارے میں
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شراکت داری تشکیل دی جائے، اجناس کی کھلی
،مستحکم اور پائیدار منڈی کی تعمیر کی جائے۔ یک طرفہ پابندیوں کو اٹھایا
جائے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے تعاون پر عائد پابندیوں کو بھی منسوخ کیا
جائے۔شی جن پھنگ نے کہا کہ چین پرامن ترقی کے راستے ،اصلاحات و کھلے پن پر
ثابت قدم رہے گا اور ایک جدید چین کی تعمیر جاری رکھے گا جس سے دنیا کو
مزید مواقع میسر آئیں گے۔
چینی صدر کے خطاب کی روشنی میں اگر دنیا کو درپیش مختلف چیلنجز کا جائزہ
لیا جائے تو موسمیاتی تبدیلی اس وقت بنی نوع انسان کو درپیش سب سے اہم
چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ اس ضمن میں آج وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ترقی یافتہ
ممالک ترقی پذیر ممالک کو تکنیکی اور مالی معاونت فراہم کریں اور جلد از
جلد موسمیاتی تبدیلی سے متعلق یکجہتی کے معاہدے تک پہنچنے کے لئے کوششیں
کریں۔اسی طرح پائیدار ترقی کے لئے اقوام متحدہ کے 2030 ایجنڈے پر عمل درآمد
انسانیت کو درپیش ایک اور اہم چیلنج ہے۔ خوراک اور توانائی کی بلند عالمی
قیمتوں کے تناظر میں ترقی پذیر ممالک کو اس سے بھی زیادہ چیلنجز کا سامنا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی جانب سے مزید کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ
پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کی راہ پر کوئی بھی ملک یا خطہ پیچھے نہ رہ
جائے۔اسی طرح دنیا پر امید ہے کہ قابل تجدید توانائی کی ترقی اور ڈیجیٹل
تبدیلی کا ادراک بھی فوری نوعیت کا کام ہے اور جی 20 ممالک اس حوالے سے بھی
متعلقہ شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔چین نے ترقی کے سفر میں ترقی
پزیر ممالک کی نمائندگی کو بڑھانے کی وکالت سے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے
کہ وہ حقیقی ترقی کا خواہاں ہے ،ایک ایسی ترقی جو ہر ایک کی دسترس میں ہو
اور ترقی کے ثمرات سے دنیا کے سبھی ممالک کے عوام محظوظ ہو سکیں۔ |