گجرات الیکشن : کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے گجرات میں انتخابات کا اعلان کیا تو ایسا لگا گویا ’’ تھا انتظار جس کا وہ ساعت قریب ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ انتخابات دو مرحلوں میں ہوں گے 8 دسمبر کو نتائج جاری کیے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہماچل پردیش کے انتخابی نتائج کا اعلان اسی روز ہوگا حالانکہ وہاں ووٹنگ 12؍ نومبر کو ہوجائے گی ۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماچل پردیش کے ساتھ اگر گجرات ووٹ کی گنتی کرنی تھی تو پولنگ الگ الگ دن کیوں ہو رہی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہماچل پردیش والوں کو انتظار کیوں کروایا جائے گا؟ بھارتیہ جنتا پارٹی بظاہردونوں ریاستوں میں نہایت مضبوط ہے ۔ ایک صوبے سے اس کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ آتےہیں نیز دوسری پارٹی کے صدر کی ریاست ہے تو اس فرق کی ضرورت کیا ہے؟

اصل بات یہ ہے بھارتیہ جنتا پارٹی اتنی مضبوط ہے نہیں جتنی کہ نظر آتی ہے۔ سرکار کے فیصلے میڈیا کے ذریعہ بنائے گئے مصنوعی ماحول پر نہیں ہوتے ۔ اس کے پاس خفیہ ایجنسیوں سے معلومات ہوتی ہے ۔ اس لیے کوئی اور جانے نہ جانے حکمرانوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کمل کتنے پانی میں ہے؟ اب آئیے پہلے سوال کی طرف تواس کا جواب یہ ہے کہ پچھلے 8؍ ماہ میں 14؍ مرتبہ اپنے صوبے کا دورہ کرنے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کو گجرات کی بابت اطمینان نہیں تھا ۔ وہ سرکاری جیب سے کچھ اور ریوڈیاں گجراتی عوام میں تقسیم کرنا چاہتے تھے اس لیے دونوں ریاستوں کی تاریخوں کا اعلان الگ الگ کیا گیا تاکہ مودی جی کو سرکاری خرچ پر انتخابی مہم چلانے اضافی وقت مل سکے۔

وزیر اعظم نے اپنے آخری اوور میں بولر کے ساتھ سیٹنگ کرکے خوب چوکے اور چھکے مارنے کا منصوبہ بنایا ۔ تین دن کے اختتامی دورے پر پہلے بڑودہ میں فضائی اڈے کی تعمیر کا اعلان کیا سڑکوں کی خاک چھانی یعنی روڈ شو کیا ۔ اس کے دوران کرایہ پر لائے گئے لوگوں نے بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تاکہ انتخابی موسم میں انہیں بار بار خدمت کا موقع دیا جائے ۔ اگلے دن سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یادگار پر تماشوں کا منصوبہ تھا اور پھر احمد آباد میں روڈ شو کے بعد پارٹی کارکنان سے خطاب جسے شاہ جی نے پناّ پرمکھ کے نام دے رکھا ہے۔ مودی جی کی یہ غیر اعلانیہ انتخابی مہم زوروں پر تھی کہ درمیان میں موربی کا پُل ٹوٹ کر گرگیا اور وزیر اعظم کے سپنے بکھر گئے ۔

اس سانحہ کی سنگینی کا احساس کرنے وزیر اعظم کو کافی وقت لگا ۔ حادثے کے دوسرے دن صبح انہوں نے پریڈ کی سلامی لی جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ کتوں کی نمائش بھی ہوئی جو غیر ضروری تھی ۔ وزیر اعظم کی طول طویل تقریر میں پہلے پیراگراف کے اندر مگر مچھ کے چند آنسو تھے نیز تفریحی پروگروام منسوخ کردیا گیا تھا ۔ موربی میں مصیبت زدگان کی مدد کے خالی خولی اعلان کے سوامودی جی کے پاس کچھ نہیں تھا ۔ اس تباہی پر جب دنیا بھر کے سر براہان کی جانب سے تعزیت کے پیغامات موصول ہونے لگے تو انہیں عار محسوس ہوئی اور احمد آباد کا روڈ شو نیز کارکنان کا پروگرام بھی بادلِ نخواستہ ملتوی کیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ موربی سانحہ نے وزیر اعظم کے منصوبے پر خاک ڈال دی ۔ ہنستے مسکراتے پرچار منتری کا روہانسا چہرا دیکھ کر بے ساختہ میر تقی میر مشہور شعر یاد آگیا؎
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

انسان کے ہاتھوں میں اقتدار آجائے تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ دودن کے بعد وزیر اعظم نے موربی جانے کا جو فیصلہ کیا اس سے بھی فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگیا ۔ ان پر تنقید کی ابتداء تاخیر کے سبب ہوئی اور پھر اسپتال و راستوں کی سجاوٹ نے پوری قوم کوشرمسار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کچھ دیر سفر کرلیتے اور بدحال اسپتال میں مریضوں کی عیادت کرتے تو کون سا آسمان پھٹ پڑتا ؟ لیکن ان کے لیے دو مسائل تھے ۔ وزیر اعظم کو کیمرے کی لت لگ گئی ہے۔ وہ اس کے بغیر دو قدم نہیں چل سکتے ۔ وہ کیمرے کو دیکھے بغیر نہ کچھ بول سکتے ہیں اور نہ مسکرا نے غلطی کرسکتے ہیں ورنہ میڈیا کے بغیر خاموشی سے جاتے اور مریضوں کی عیادت کرکے لوٹ آتے ۔ سادگی اور وقار کے ساتھ مرنے والوں کی تعزیت بھی کرلیتے
لیکن ایسا کرنا مودی جی کے لیے ممکن نہیں ہے۔

دوسرا مسئلہ کیمرے کی آنکھ سے بیان ہونے والی سچائی اور چمکتے دمکتے گجرات کے پول کا کھل جانا ۔ گجرات ماڈل کی دھجیاں تو پہلے موربی پُل کے ٹوٹنے سے اڑ گئیں ۔ اس میں کو کسر رہ گئی تھی اس کو وزیر اعظم کے دورے سے قبل کی جانے والی لیپا پوتی نے بے نقاب کردیا ۔ مختصر یہ کہ الیکشن کمیشن نے گجرات کے انتخابات کا اعلان کرنے میں جو تاخیر کی اس کا خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں بی جے پی ناکام رہی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہماچل پردیش میں انتخابات کے بعد نتائج کے اعلان میں تاخیر کی وجہ کیا ہے؟ اس کے پیچھے بھی بی جے پی کی بے یقینی کارفرما ہے۔ اس کو اگر یقین ہوتا کہ وہ ہماچل پردیش میں پہلے کی مانند زبردست کامیابی درج کرائے گی تو یقیناً پولنگ کے فوراً بعد نتائج کا اعلان کردیا جاتا ۔گجرات انتخاب کا نظام الاوقات کا اعلان اس کے بعد بھی ہوسکتا تھا کیوں کہ نئی حکومت سازی کے لیے فروری تک کا موقع ہے ۔

بی جے پی کو خوف ہے کہ اگر وہ ہماچل پردیش میں شکست فاش سے دوچار ہوجاتی ہے تو اس کا اثر گجرات کے رائے دہندگان پر پڑے گا ۔ ہماچل پردیش میں تو اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد کانگریس سے دوگناہے۔ اس کے باوجود بھی اگر وہ ہار جائے تو گجرات میں بیس فیصد کا فرق کون سی بڑی بات ہے؟ دونوں جگہ مقابلہ سیدھے کانگریس کے ساتھ ہے۔ بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کی خاطر اس بار تو عام آدمی پارٹی بھی وارد ہوگئی ہے۔ ایسے میں کانگریس اور عآپ کی دوہری مار کا مقابلہ کرنا اس کے لیے ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب گجرات کے انتخاب کوملتوی کیا گیا اور دوسری طرف ہماچل پردیش کے نتائج کو ٹالا گیا ۔ یہ بی جے پی کے اندر پائے جانے والے عدم اعتماد کا کھلا ثبوت ہے۔

قومی رائے شماری کے مطابق گجرات کی آبادی میں ذاتوں کا تناسب اس طرح ہےکہ برہمن 4.06 فیصد ، بنیا 2.96 فیصد، کنبی پاٹیدار 14.53 فیصد اور دیگر اعلیٰ ذات 1.13 فیصد ہیں۔ متوسط درجہ کی پسماندہ ذاتوں میں کولی 24.2 فیصد، ماچھی 0.55 فیصد، بھوئی 0.38 فیصد، کھڑبا 0.19 فیصد، شلپی 06.13 فیصد، مالی 0.12 فیصد، بھاٹ بروٹ 0.33 فیصد، بھارواڑ/یادو 02.01 فیصد، گھانچی 0.32 فیصد، کیوٹ، ماجھی سمیت دیگر نہایت پسماندہ ذات 4.17 فیصدہیں ۔ اس کے برعکس راجپوت/کشتریہ 4.85 فیصد، دلت(ہریجن ) 7.17 فیصد، قبائلی 17.61 فیصد، مسلم 8.53 فیصدہیں ۔ یہ کل ملاکر 38فیصد ہوجاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ گاندھی جی کے پیروکار بھی ان کے ساتھ شامل ہوکر ایک کامیاب سیاسی اتحاد میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ صوبے کے اندر موجود دیگر اقلیتیں مثلاً عیسائی 0.75 فیصد، پارسی 0.21 فیصد، دیگر 0.05 فیصد بھی انہیں کے ساتھ آجاتے ہیں۔

گجرات میں مادھو سنگھ سولنکی ان لوگوں پر مشتمل ایک کھام(KHAM) کا فارمولا بنایا تھا ۔ اس کے معنیٰ کشتریہ(راجپوت) ، ہریجن ، آدیواسی (قبائلی) اور مسلمان سماج کا اتحاد ہے۔ یہ اس قدر کامیاب کوشش تھی مادھو سنگھ سولنکی نے 1985اس کی مدد سے 149 نشستوں پر شاندار درج کرائی تھی۔ گجرات کی بی جے پی پچھلے ستائیس سالوں سے ہر بار وہ ریکارڈ توڑنے کا عزم کرتی ہے مگر ناکام ہوجاتی ہے۔ پچھلی بار تو مودی اور شاہ دونوں کی لاکھ اٹھا پٹخ کے باوجود وہ بیچاری سو تک بھی نہیں پہنچ سکی اور 99؍ پر ڈھیر ہوگئی۔ اس بار قبائلی سماج کو ہوش آرہا ہے۔ حالیہ سروے مطابق ایک تہائی سماج نے اپنی رائے ہی نہیں بتائی اور جن 66 فیصد لوگوں نے رائے کا اظہار کیا ان میں 40 فیصد کا جواب عدم اطمینان تھا ۔ آدیباسیوں کی جماعت بھارتیہ ٹرائبل پارٹی نے عآپ اور ایم آئی ایم سے رشتہ توڑ کر کانگریس کے ساتھ جانے کا من بنالیا ہے۔ یعنی صدر مملکت دروپدی مرمو کا پہلاگجرات دورہ ناکام ہوگیا ہے۔

دلت سماج کے ایک پروقار رہنما جگنیش میوانی کانگریس میں شامل ہوگئے ہیں ۔ پچھلے دنوں جگنیش کو گرفتار کرنے کے بعد اغوا کرکے جس طرح آسام لے جایا گیا اس سے دلت سماج کے اندر زبردست ناراضی پھیل گئی ہے۔ مسلمان تو ویسے ہی بی جے پی کو ناپسند کرتے تھے اور رہی سہی کسر بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی سے پوری ہوگئی ہے ایسے میں اگرظفر سریش والا جیسا کوئی مسلمان رہنما بی جے پی کی حمایت کرے تو وہ مار کھانے سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا ۔ شنکر سنگھ واگھیلا کے بیٹے مہندر سنگھ واگھیلا کے ساتھ اگر کشتریہ سماج بھی بی جے پی سے نکل کر کانگریس کی طرف آئے تو پھر سے کھام اتحاد وجود میں آسکتا ہے۔ کیشو بھائی پٹیل نے پاٹیدار سماج کو متحد کیا اور کانگریس و جنتا پارٹی سے ناراضی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار پر فائز ہوگئے۔ وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے جو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکائی اس میں مذکورہ اتحاد جل کر خاک ہوگیا اور ہندو مسلمان کے نام پر فرقہ وارانہ عصبیت کو ہوا دے کر بی جے پی راج کرنے لگی لیکن اگر پھر سے کھام اتحاد وجود میں آجا ئے تو بی جے پی کی لٹیا ڈوب سکتی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449119 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.