ہلکی ہلکی سی پھوار برس رہی تھی ۔تیز ہوائیں چل رہی تھیں
۔درخت جھومتے دکھائی دے رہے تھے جیسے مستی میں جھوم رہے ہوں۔ ماضی کی حسین
اور تلخ یادوں میں غرق افسر ہمدانی بالکونی میں کھڑے گرم گرم کافی کی
چسکیاں لے رہے تھے۔ہمدانی کے دل و دماغ میں بھی یادوں کے جھکڑ چل رہے تھے ۔خیال
کی طاقت تھی یا قدرت کا کرشمہ انہیں ایک مانوس سایہ دبے پاؤں قریب آتا
محسوس ہوا۔کافی کی مہک کے ساتھ فضا میں موتیئے کی خوشبو مدغم ہونے لگی موسم
کی خنکی تھی یا انجانی سی الفت کا احساس ہڈیوں میں سنسناہٹ سی اترتی محسوس
ہوئی ۔سایہ قریب آیا تو افسر ہمدانی دم بخود رہ گئے ماضی خزاں رسیدہ پتوں
کی طرح شاخ سے ٹوٹ کر اڑتا ہوا انکے بالکل سامنے تھا ۔ایک حسین ماہ جبین
ماہ رخ انکے سامنے تھی جسکی کالی سیاہ ریشمی زلفیں ناگن کی طرح ہوا میں
لہرا رہی تھیں۔بڑی بڑی نرگسی آنکھوں میں الفت اور تراشیدہ لبوں پر دل پذیر
مسکراہٹ تیر رہی تھی۔یہ وہی پری وش تھی کہ جسے ایک زمانے سے ہمدانی نے ٹوٹ
کر چاہا تھا آور ان یادوں کی کرچیاں آج بھی انکے دل میں چبھن محسوس ہوتی
تھیں۔
وہ انکی کلاس فیلو تھی ۔دونوں میں زندگی بھر ساتھ نبھانے کے عہد و پیمان
بھی ہوئے تھے ۔مگر وہ وعدے وفا نہ ہوسکے تھے ۔اسکا دبئی کے ایک امیر کبیر
تاجر کا رشتہ آیا اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کر وہ پیا دیس سدھار گئی ۔ہمدانی سے
کیئے گئے زندگی بھر ساتھ نبھانے کے عہد و پیماں قسمیں دولت کی چکا چوند کے
سامنے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے ۔افسر ہمدانی اس انہونی سی ملاقات پر جہاں
حیران تھے وہیں بے پناہ خوش بھی تھے مگر آج بھی دل کی بات زبان پر لانے سے
قاصر تھے۔بہر کیف خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے اسی میں گفتگو جاری تھی
زمانے بے معنی ہوچکے تھے۔ماضی حال مستقبل کی تقسیم اپنی وقعت کھو چکی
تھی۔سرد ہوائیں ساکت ہوگئیں وقت تھم سا گیا ۔ بے رنگ پتے ہوا میں معلق
ہوگئے ۔بارش کے ننھے قطرے آسمان سے ٹپکے تھے یا آنکھوں کے چشموں سے پھوٹ کر
رخسار وں پر بہہ رہے تھے۔وقت کی غلام گردشوں میں مسافر محو سفر تھے۔ایسے
میں اچانک افسر ہمدانی کی نظر اس ماہ رخ کے پیروں پر پڑی ۔اسکے پیر الٹے
تھے۔
الٹے پیر الٹے پیر الٹے پیر !!؛
چیخ افسر کے گلے میں پھنس کر رہ گئی ۔ دماغ میں بجلی سی کوندی اور وہ الٹے
پیر واپس اندر لاوئنج کی طرف بھاگے جہاں حال کی یکسانیت سے بیزار یو کر وہ
بالکونی میں ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے پہنچے تھے ۔ بچپن میں پڑھی الف
لیلہ کی کہانیاں آج بھی انہیں اچھی طرح یاد تھیں جن میں اکثر چڑیلیں من
پسند صورتوں میں قریب آجاتی ہیں مگر انکی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اسکے پیر
الٹے ہوتے ہیں ۔چڑیل کی اصل حقیقت اور ان کہانیوں کی حکمت آج ہمدانی پر
عیاں ہوچکی تھی ۔الٹے پیر تو دراصل استعارہ ہیں خوف کا بزدلی کا بیوفائی کا
۔ہر انسان میں عشق کی پر پیچ سنگ و خشت وادیوں کو عبور کرنے کا حوصلہ نہیں
ہوتا کیونکہ عشق آساں نہیں ہوتا بس اتنا ہی سمجھ لیجئے کہ یہ ایک آگ کا
دریا ہے جس میں ڈوب کر جانا ہوتا ہے۔بیوفا لوگ ساتھ نبھاتے نہیں بلکہ راستے
کی مشکلات دیکھ کر جلد گھبرا جاتے ہیں اور الٹے قدموں پلٹ جاتے ہیں ۔
آج کی ملاقات ہمدانی کے تخیل کی پرواز تھی خواب تھا یا حقیقت یا داستان الف
لیلہ کی کوئی کڑی چڑیل کی اصل حقیقت ہمدانی کو اچھی طرح سمجھا گئی۔طلسم
ہوشربا میں جو پیچھے مڑ کر دیکھتا تو پتھر کا بن جاتا تھا ۔آج بھی جو شخص
ماضی کا اسیر بنکر ژندہ رہتا ہے اس کا نہ صرف حال اچھا نہیں گزرتا بلکہ
مسقبل بھی تاریک ہو جاتا ہے ۔
ہمدانی کی اکھڑی ہوئی سانسیں اب کافی حد تک بحال ہوچکی تھیں۔۔ کافی کا مگ
ابھی تک ہاتھ میں تھا مگر کافی بالکل یخ ہوچکی تھی ۔ہمدانی کی بوجھل نگاہیں
ابھی تک زمین پر گڑی ہوئیں تھیں ۔اچانک یہ نگاہیں دیدہ زیب منقش سینڈل میں
موجود شوخ رنگ کی Nail Polish سے آراستہ خوبصورت اور دلکش پیروں پر جاکر
تھم گئیں ۔
پیر بالکل سیدھے تھے۔ !!!!! ۔سیدھے پیر تو پریوں کے ہوتے ہیں ہمدانی کی
زندگی میں ایک پری شامل تھی اور وہ اتنی مدت میں اسے پہچان ہی نہ سکے۔
ہمدانی خوشی سے اچھل پڑے۔ VARSACE کی مدھر خوشبو نے گرم کافی کی مہک کے
ساتھ ملکر ہمدانی کے دل و دماغ میں کیف و نشاطِ بپا کردیا ۔زندگی کی ساری
تلخیاں پچھتاوے ختم ہوگئے۔
"آپ کب سے ٹھنڈی کافی لیئے بیٹھے ہیں میں آپ کیلئے گرم لائی ہوں " ۔افشین
نے ٹھنڈی کافی کا مگ ہاتھ سے لے لیا اور گرما گرم مگ ہاتھ میں تھما دیا
۔ایکدم بادل بھی مسکرانے لگے بارش پھر برسنے لگی سفیدے کے درخت پھر سے
جھومنے لگے۔ہمدانی کو زندگی حسین لگنے لگی۔ شاید کافی زندگی میں اس سے پہلے
اتنی اچھی کبھی نہیں لگی تھی ۔
ایم ایم سعید
|