ایک جادو تو ہمیں بھی آ گیا ہے، بندہ غائب کر دیتے ہیں۔
آپ کے دیدہء حیراں کے لئے عرض ہے کہ اس کے لئے قبرستان میں چلہ کاٹنے کی
ضرورت ہے نہ ہی مرغ_سیاہ کی، بس ایک خاص علم آنا چاھئے۔ شنید ہے کہ اس علم
سے بعض کاری گر تو بندیاں بھی اڑا رہے ہیں۔
روئے سخن جو ان کی طرف ہو تو رو سیاہ( تر)
ہم بندہ کیسے غائب کرتے ہیں، آئیے بتا دیتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ کبھی
کبھی شاعری سے شغف رکھنے والے اہل_ذوق ہم سے رابطہ فرماتے ہیں کیونکہ ان کے
بھی پہلوئے دل میں اونچا اڑنے کی خواہش گدگدی کر رہی ہوتی ہے۔ دراصل وہ ہم
سے اصلاح کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ہم کوئ استاد تو نہیں کہ اصلاح سے انہیں
ممنون و مقروض کر سکیں لیکن پھر بھی ہاں کر دیتے ہیں کہ چلو امیدوار کو
ابتدائی اسباق سے کچھ نہ کچھ تو زیر_بار_شاعری لا ہی سکتے ہیں۔ تکلف بر
طرف، ہمارے خلوص پر صرف وہ لوگ ہی شک کے تیر چلا سکتے ہیں جو 'شریف وہ ہے
جس کو موقع نہیں ملا' کے دل و جان سے قائل ہوں۔
عہد و پیماں کی رسم کے بعد امیدوار کا ہلکا سا امتحان ہوتا ہے۔ حسب_توقع وہ
تیرنے کے بجائے بحر میں ڈوبا نمودار ہوتا ہے، ہم اسے حوصلہ دیتے ہیں ، اس
کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے علم_عروض(علم_شاعری) کے بنیادی رموز
سے آگاہی دے دیتے ہیں اور امیدوار حیرت کی ٹھنڈی موجوں میں غوطے کھانے لگتا
ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ دل_ناتواں پر کیا کیا گزرتی ہو گی ، آخر ہم بھی تو
ہاتھ پاؤں مارنے والے رہ چکے ہیں۔ کبھی ہم بھی( اپنے استاد_محترم مولانا
صبا حسنی مرحوم کا نام ڈبونے سے قبل) اپنی دھواں دار بے وزن شاعری سے ماحول
گرم فرمایا کرتے تھے۔ بہرحال اکا دکا شوقین ہی دو قدم ساتھ چل پاتے ہیں اور
پھر وہ بھی ہرن ہو جاتے ہیں۔ کر دیا نا بندہ غائب!
اب تہی داماں ہم یہ سوچتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا، کیوں ان آٹھ آٹھ ہیروں کو
ہم تراش نہ سکے چنانچہ ایک ہی جواب آتا ہے کہ اس کی دو ہی وجوہات ہیں ، اول
ہماری ضد کہ عروض ہی سے سکھانے کی، نوازنے کی ابتداء کریں گے، دوم ان کا
اصرار و اسرار کہ وہ تن آساں ہی رہیں گے۔
رہزنِ ہمّت ہُوا ذوقِ تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تُو، گلشن میں مثلِ جُو ہوا
اقبال
|