ترکی و قطر ہمارے ہیروز اور اسرائیل ان کا حلیف

اس آرٹیکل میں اپنی ملک کو آئڈیئل بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اور ملکی خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے پر کہا گیا ہے۔

ترکی و قطر ہمارے ہیروز اور اسرائیل ان کا حلیف

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر "فی فا ورلڈ کپ'' کے چرچے آسمان کو چھو رہے ہیں اور بیشتر طبقوں کی طرف سے اس کے بارے میں مثبت تو کچھ طبقوں کی طرف سے منفی اثرات نظر آ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا ترکی کو مسلمان ممالک میں پذیرائی حاصل تھی اور صدر اردگان کو پاکستانی لوگ امیر المومنین کے لقب سے پکارتے تھے، اور یہ بھی کہتے تھے آنے والا وقت ترکی کا ہے وہ اسلام کو غالب لائے گا ،حالانکہ ترکوں نے ایک تاریخ رقم کی ہوئی ہے تاریخ کے اندر۔ وہ دیندار بھی تھے اس کے ساتھ عیاش بھی تھے، وہ عورتیں یورپ کی پسند کرتے تھے اور حکمرانی عربوں والی چاہتے تھے، مگر بدقسمتی سے وہ اس سلطنت عثمانیہ کو قائم نہیں رکھ سکے۔ مگر مصطفی کمال عطا ترک جیسے لوگوں کی صف سے طیب اردگان کا پیدا ہونا بھی ایک معجزہ تھا۔ لوگ یہی کہتے تھے دیکھو ترکی نے اردگان کے زیر نگرانی میں کافی کامیابیاں پائیں، مگر انہیں پتہ نہیں تھا امریکہ نے 9/11 کے بعد جو افغانستان کے ساتھ کیا اس اتحاد میں پاکستانیوں کے امیر المومنین رجب طیب اردگان بھی شامل تھے یعنیNATO فورسز میں ترکی بھی شامل تھی ۔اور ایک وقت میں وہ یورپی یونین کے رکن بھی رہی ہیں، جس یورپ یعنی مغرب کو ہم آئی روز مسلمان دشمن ملک سمجھتے ہیں ہمارے ہیرو ان کے اتحادی رہے ہیں، ترکی کو یہ شرف بھی حاصل ہے اس کا کچھ حصہ یورپ میں ہے تو کچھ ایشیا میں اور اس وجہ سے وہ روشنی میں مومن اور اندھیرے میں مغربی لونڈا لگتا ہے ۔ اور سب سے بڑی بات پاکستانیوں کے امیر المومنین نے امت مسلمہ کے ذہنی، جسمانی، مذہبی اور معاشی دشمن یعنی اسرائیل کے ساتھ گھرے تعلقات ہیں اور اچھی خاصی تجارت بھی کرتے ہیں اور ماضی قریب میں ترکی اور اسرائیل کے صدور کے ملاقات کے بہترین تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ NATO, EU اور اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات اور ان ممالک سے امداد لینے والے اور تجارت کرنے والے بھلا کیسے ان کے خلاف اٹھ سکتے ہیں؟ یہ تمام باتیں آن دی رکارڈ پر موجود ہیں
اب بات کرتے ہیں نئی ابھرنے والے ہیرو قطر کی جو ہالیہ دنوں میں مسلمان کے بہت قریب دکھائی دے رہے ہیں ۔ قطر ایک خلیجی ملک ہے جس کی کل آبادی تیس لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہے اور اس کی آمدنی کا ذریعہ گیئس اور تیل ہے ۔ کچھ سال پہلے قطر پر کچھ پابندیاں عرب ممالک کی طرف سے لگائی گئی اور الزامات عائد کیے گئے کہ وہ ایران کا ساتھ دے رہا ہے اور سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ لہٰذا کچھ عرصہ پابندیوں کے بعد عرب ممالک نے اس پر سب پابندیاں ختم کر دی۔ قطر بیک وقت تین عالمی طاقتوں کے ساتھ اتحاد میں ہے، امریکہ، چائنا اور روس ان ممالک کے ساتھ قطر کی بڑی معاشی تعلقات ہیں۔ قطر معاشی طور پر مسلمان ممالک میں امیر ترین ملک ہے قطر بھی اپنے آپ کو اسلامی ہیروز میں شامل دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے قطر ترکی کی طرح اسرائیل کا دوست ہے اور 1996 کے بعد قطر نے اسرائیل سے تجارت شروع کی اور اسرائیلی شہری بغیر ویزہ کے قطر آ سکتے ہیں۔ اور "فی فا ورلڈ کپ "کے دوران اسرائیل سے قطر برائے راست ہوائی پروازیں آئین گی۔ اب ہمیں اپنے خارجہ پالیسی پر غور کرنے کی ضرورت ہے ہم کیوں ایسے نہیں کر سکتے دن کو دشمن اور رات کو ساتھی۔ اور قطر کے امیگریشن ویب سائٹ سے مین نے یہ کچھ لیا ہے جو آپ پڑھ سکتے ہیں "
اسرائیل کے شہریوں کو قطر میں داخل ہونے کے لئے ویزا کی ضرورت نہیں ہے، اور وہ لامحدود مدت تک ملک میں رہ سکتے ہیں۔
اسرائیل کے شہریوں کو قطر میں داخل ہونے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہے اگر وہ اسرائیل کے علاوہ دیگر ممالک سے آرہے ہیں۔ اسرائیل سے قطر میں داخل ہو رہے ہیں تو اسرائیل کے شہریوں کو پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔
" source https:/www.qatarimmigration.org/check-requirements/israel.

اور سننے میں آیا ہے قطر اسٹیڈیم میں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینی جھنڈے لہرائیں گے، کیا ان جھنڈون جھنڈوں کے لہرانے سے فلسطین کو کچھ فائدہ ہوگا؟ دیکھا جائے تو ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ہم کسی کے خارجہ پالیسی پر تنقید کریں۔ مگر ہمیں یہ حق تو حاصل ہے کہ ہم جس مسئلہ پر اپنی خارجہ پالیسی خراب کیے بیٹھے ہیں کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ اپنی بات منوانے کا یا امیر المومنین ترکی اور نئے اسلامی ہیرو قطر کی طرح ان کو تسلیم کر کے پھر ان سے گلے اور شکوے کریں۔
قطر نے "فی فا ورلڈ کپ " کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے کی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو بھی پروموٹ کیا، اور اپنی عربی ریتی رواج یعنی روایتی موسیقی اور ڈانس سے شائقین کان استقبال کیا۔ اب پاکستانی مسلمانوں کو تو صرف قرآن مجید کی تلاوت نظر آئی اور باقی جو کچھ ہوا وہ خیر ہر گھر میں ہوتا ہے۔ دیکھنا چاہیے ہم جس کو ہیروز مانتے ہیں کیا وہ حقیقت میں ہمارے ہیروز ہیں یا اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دیکھا جائے پاکستان میں ملک ریاض ایک مانی ہوئی شخصیت ہیں وہ رائل اسٹیٹ کے ٹائکون مانے جاتے ہیں، کچھ لوگ اس کو فرعون کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کچھ اس کو مسیحا مانتے ہیں۔ کراچی بحریہ ٹاؤن میں پاکستان کی بڑی مسجد تعمیر کروا دی اور کافی اولڈ ہاؤس بھی بنوائی ہیں، اب کیا ہم اس کو قطر و ترکی کی طرح ہیرو مانیں یا فرعون کیونکہ مذہبی کام تو تینوں نے کیے ہیں، ان کا امریکہ و اسرائیل سے دوستی بھی ہے اور تجارت بھی کرتے ہیں،
اور ملک ریاض لوگوں کے زمین پر قبضے کرواتا ہے اور بڑی بڑی مسجدیں اور فلاحی ادارے بھی بناتا ہے۔

علامہ محمد اقبال کا ایک شعر یاد آیا ہے،

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

پاکستان کے ہر گلی محلے میں ایک ایسا حکیم تو ضرور ہوتا ہے جو مردانہ کمزوری کا علاج کرتا ہے اور ہلیے میں وہ ایک با ریش بزرگ سا ہوتا ہے مگر جن چیزوں سے وہ تلہ یہ تیل بناتا ہے ان کو وہ ان کو زندہ جلاتا ہے۔ ویسے ہی پاکستان میں آئے روز کچھ پارٹیاں اسلامی پھکی بیچتے ہیں اور کہتے ہیں امریکہ مردہ آباد، اسرائیل مردہ آباد، مغربی فتنہ مردہ آباد۔ مگر یہ کہتے ہوئے ان کی زبان سوکھ جاتی ہے جس کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات ہیں وہ ممالک مردہ آباد، جس کے ساتھ اسرائیل کے تجارتی تعلقات ہیں وہ مملک مردہ آباد۔ اگر ایسے کہیں تو ان کے ہیروز بھی اس زد میں آتے ہیں۔ بہرحال ہمیں چاہیے ہم اپنے ملک کو ہیرو بنانے کا سوچیں اور پورے کا پورا کوشش کریں۔ دنیا کے ساتھ چلیں اور اپنے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات استوار کریں ، اور کسی کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کریں ہاں جب ہم طاقتور ہو جائیں پھر ہم مداخلت و سازش نہیں بلکہ مزاحمت کریں گے۔ میرے نزدیک مذہب و قومیت ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو جو استعمال کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ ہمارے ہیروز اپنے مفادات کی خاطر ان کے شانہ بہ شانہ ساتھ ہیں اور ہم ان کے لیے سوشل میڈیا پر تالیاں بجانے میں مصروف ہیں۔ ترکی اور قطر ہمارے مسلم برادرز ہیں ناکہ ہمارے لیے ہیروز۔ جس ملک میں پاکستانی کو ایک عرصہ دراز لگ جائے ورکنگ ویزا لینے کے لئیے اور اس ملک میں عالم اسلام کے خاص دشمن کے لوگوں کو بغیر ویزہ کے اجازت ہے وہ بھی سیر وتفریح کے لے یعنی عیاشی، اور ہمیں سمجھنا چاہیئے ہماری کیا اوقات ہے ان کے سامنے۔ ایک اور بات ان پھکی بیچنے والوں کے لیے کہ یہ بات ان کو سمجھنا چاہیے دنیا ہمیشہ تعلقات مفادات کی بنیاد پر رکھتی ناکہ مذہب کے بنیاد پر۔ ہمیں چاہیے ہمارا نعرہ ایسا ہونا چاہیے۔

"ہمیں دوسرے ممالک کے معاملات اور مذہب کی بنیاد پر کسی تنازع کے بغیر پوری دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے"

شاید آپ لوگوں کو اس بات سے اتفاق نا ہو مگر حقیقت یہی ہے سب سے پہلے اپنا سوچو، جب دوسروں سے زیادہ طاقت موجود ہو تو پھر کچھ کرنے کا سوچو۔


 

Fida Hussain Gadani Baloch
About the Author: Fida Hussain Gadani Baloch Read More Articles by Fida Hussain Gadani Baloch : 4 Articles with 2237 views I am Fida Hussain Gadani Baloch, a law student and social activist. .. View More