پارلیمانی نظامِ سیاست میں سیاسی جماعتیں ایک ریڈھ کی ہڈی
کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ برسرِ اقتدار ہوں یا نہ ہوں ، مگر ان کا وجود اس
نظام کی بقا کیلئے لازم ہے۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود یہ معاشرے کو
سیاسی جمود سے پاک رکھتی ہیں اور اسے سیاسی افکار کا مردہ گھر بننے سے
بچاتی ہیں ۔ مگر ملک پاکستان میں ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جو سب سے الگ
تھلگ کسی اور ہی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ یہاں میری مراد سابق وزیر اعظم عمران
خان کی جماعت تحریک انصاف پاکستان ہے۔
بقائے باہمی اس نظامِ سیاست میں ایک بنیادی تصور ہے جس کے بغیر یہ نظام
اپنے اندر کا نظم کھو دیتا ہے ۔ عالمی سطح پر جو ریاستیں جمہوریت کی اعلیٰ
مثال ہیں وہ بقائے باہمی کو اپنے نظام کا لازمی جزو سمجھتی ہیں۔ مگر مملکتِ
خداداد میں تحریک انصاف ایک ایسے ذہنی معذور کی شکل اختیار کرچکی ہے جو
کسی طرح کے اصول و ضوابط کو سمجھنے سے عاری ہے۔اس کیلئے کسی کی مخالف رائے
قبول کرنا یا اس کا احترام کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے ۔ وہ قوتِ برداشت
سے محروم ہوچکی ہے ۔ وہ بقائے باہمی کے جملہ تصورات اور اصول و ضوابط کو
پاؤں تلے روندنے پر یقین رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کے نزدیک پاکستان میں ہر
سیاسی جماعت ملک کی غدار اور اس کی حب الوطنی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ کوئی ادارہ
ان کے ہاں قابل اعتبار نہیں۔ اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے بھی اس وقت تک قابلِ
قبول ہیں جب تک وہ اس کے حق میں ہیں ورنہ یہی عدالتیں طوائفوں کے کوٹھے
کہلائیں گی۔ الیکشن کمیشن بھی ان کے نزدیک کسی خاص سیاستدان کے گھر کا نوکر
ہے۔ مزید برآں شعور کی آخری انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی صحافی یا میڈیا گروپ
ہمارے خلاف رائے رکھتا ہے تو وہ بےایمان ، چور اور لفافہ ہے ۔
قومی دھارے سے بہت دور تحریک انصاف ایک گمنام جزیرے کی مکین بن چکی ہے جہاں
مخالف سوچ کے افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس خاص جزیرے پر اسے کسی 'غیر
انصافی' کا وجود تک قبول نہیں ۔ حتیٰ کہ آئین و قانون کے اصول و ضوابط بھی
اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ مگر ایک متفقہ سچ یہ ہے کہ اس طرح سب
سے الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کبھی آباد نہیں ہوسکتی۔ عارضی طور پر آباد ہو بھی
جائے تو اس سے کبھی بھی کوئی خیر برآمد نہیں ہوتی بلکہ اس بات کا خوف رہتا
ہے کہ اس مسجد کا امام اور اس کے مقتدی محلے میں شر انگیزی نہ پھیلا دیں۔
آئین اگر تحریک انصاف کے چند اقدامات میں رکاوٹ بنے تو گورنر پنجاب سے لے
کر ڈپٹی اسپیکر تک ایسا رویہ اختیار کرتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ آئین کی
ایسی دھجیاں اڑنے پر اگر عدالت عظمٰی متحرک ہوجائے تو اس کے لیے دنیا ہی
جہنم بنا دی جاتی ہے۔ ہائی کورٹ اس جماعت کی شان میں اگر تھوڑی سی گستاخی
کرتے ہوئے انھیں ان کی آئینی ذمہ داریاں یاد کراتی ہے تو وہ شر کا نشانہ
بنتی ہے۔ ہائی کورٹ اگر وزیراعلٰی کی حلف برداری کا مسئلہ حل کرنا چاہتی
ہے تو گورنر صاحب الٹا عدالت کے خلاف ہی ریفرنس دائر کرنے پر بضد ہوتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ سیاست بند گلی سے راستے نکالنے کا نام ہے ، مگر تحریک
انصاف کھلے راستوں پر رکاوٹیں (کنٹینر) لگانے پر تلی ہوئی ہے۔ بقائے باہمی
جس سیاست کا زیور ہے ، تحریک انصاف اسے وقت کا ضیاع سمجھتی ہے ۔ شاید اگر
یہ زیور توشہ خانہ میں ہوتا تو تحریک انصاف اسے ضرور خرید لیتی ۔سیاست
عملیت پسندی کی متقاضی ہے ، تحریک انصاف مثالیت پسندی کی پرچارک ہے۔ سیاست
مکالمہ مانگتی ہے، تحریک انصاف خود کلامی پر یقین رکھتی ہے۔ سیاست مل بیٹھ
کر مسائل کا حل ڈھونڈنے کی سعی ہے ، تحریک انصاف کسی 'کرپٹ' سے بات کرنے
کو راضی نہیں ۔ آج شاید طاقت کے زعم میں یہ رویہ ان کا طرہ امتیاز ہے مگر
ڈر ہے کہ یہ رویہ کہیں مستقبل میں اسے سیاسی بانجھ نہ بنا دے۔
جماعت کا ماحول اور مزاج اس کے پیروکاروں کو لازمی متاثر کرتا ہے ۔ اور
پیروکار بھی جب نابینا ہوں تو یہ اثر دوگنا ہوجاتا ہے ۔ پھر ایسے میں کوئی
دلیل کارگر ہوتی ہے نہ ہی کوئی ضابطہ ۔ واحد قانون صرف یہ ہے کہ جو ہم نے
کہہ دیا وہ حدیث ہے اور واحد دلیل یہ کہ صرف ہمارے منہ سے جو نکلے وہی
صداقت ہے۔ لہٰذا اب کوئی فرد، قانون ، گروہ یا ادارہ ہمارے اس خاص ماحول کے
خلاف ہوا تو اس کیلئے کوئی جائے امن نہیں ۔
جس گمنام جزیرے پر تحریک انصاف آباد ہے اس کی فصیلوں پر یہ اقوال کندہ کیے
گئے ہیں: یہاں سب کرپٹ ہیں، صرف ہم واحد نیک ایماندار ہیں۔ تمام صحافی
لفافہ ہیں ، بس ہمارے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ دودھ کے دھلے ہیں ۔ اس کرہ ارض پر
حق صرف ہمارے ساتھ ہے ، تبھی کائنات کا ہر اک ذرہ ہمارے خلاف سازش کرنے
میں مصروف ہے۔ ہمارے علاوہ کبھی کوئی سچا تھا نہ مستقبل میں ہوگا ، ہم ہی
ہیں جو تاریک راتوں کو روشن کررہے ہیں۔ اب جب واحد روشنی ہی ہم ہیں تو ہم
کسی تاریکی کی قوت سے بات چیت کیوں کریں؟
چنانچہ تازہ تازہ خبر یہ ہے کہ نیوٹرل تو صرف جانور ہوتا ہے اور جو ہمارے
ساتھ نہیں وہ میر جعفر یا میر صادق ہوتا ہے، کرپٹ ، چور ، بوٹ چاٹ یا
لفافہ ہوتا ہے ۔ درمیان کا کوئی راستہ تو رکھا ہی نہیں گیا۔۔
تمام تر باتوں کے باوجود، تحریک انصاف اسی سیاسی نظام و سماج کا ایک جزو
ہے، کُل نہیں۔ اسے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جزیرے جتنے بھی بڑے ہوں ، بالآخر
سمندر کے رحم و کرم پر ہی ہوتے ہیں۔ جب تک سمندر خاموش ہے جزیرہ آباد ہے ۔
سمندری طوفان اور سونامی بھی سمندر میں آتے ہیں جزیرے پر نہیں۔ پاکستان
ایک مملکت ہے ، ایک سمندر کی مانند۔ بائیس کروڑ عوام اور اس کے تمام
پارلیمانی و انتظامی ادارے اس سمندر کا حصہ ہیں۔ لہٰذا بقا کا راستہ ان سب
سے انکاری ہوکر نہیں بلکہ ان سب کو قبول کرکے ہی نکلے گا ۔
گمنام جزیرے پر رہنے کی ضد موجودہ دور کی ایک قومی ریاست آخر کب تک جھیل
پائے گی؟ کیا تحریک انصاف کو بقائے باہمی کی اہمیت سمجھانا ہم سب کا فرض
نہیں ہونا چاہیے؟ تحریک انصاف کو واپس ایک شعوری راستے پر لانے کیلئے
بیرونی مدد میسر آنا شاید اب ناممکن ہے ، لہذا معاشرے اور تحریک انصاف کو
خود ہی یہ اصلاحی عمل شروع کرنا ہوگا ، اس سے پہلے کہ کہیں دیر ہوجائے ۔
|