ہماچل پردیش : جی 20 سے ٹی 20تک

وطن عزیز میں الیکشن دراصل ایک تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ انتخابی ماحول میں عوام اپنے دکھ درد بھول کر جشن کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ پہلے صرف پارلیمانی الیکشن پورے ملک کو متاثر کرتے تھے اور دیگر انتخابات کےاثرات ریاست یا شہر تک محدود رہتے تھے۔ اب ذرائع ابلاغ کی مدد سے بی جے پی علاقائی انتخاب کو بھی ملکی سطح پر اچھال دیتی ہے مثلاً منی پور جیسے دور دراز کے صوبے کی خبریں بھی قومی سطح پر نشر ہوسکتی ہیں اور حیدرآباد بلدیہ کا انتخاب موضوع بحث بن سکتا ہے بشرطیکہ وہاں کمل کے کھلنے کا امکان ہو۔ اس تناظر میں ایسا لگتا ہے گویا ہماچل میں الیکشن ہوا ہی نہیں اور اس کے نتائج کی بابت بھی ممکن ہے یوں لگے کہ ان کا اعلان ہی نہیں ہو ا۔ گجرات سے بی جے پی پر امید ہے اس لیےہماچل کے نتائج کو اس کے نیچے دفن کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہاں بھی بازی الٹ جائے تو پھر کیا ہوگا ؟ کوئی مسئلہ نہیں ایک نیا ہنگامہ کھڑا کرکے پردہ پوشی کردی جائے گی کیونکہ بقول غالب؎
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

گودی میڈیا کو بی جے پی کے حق میں خبر دینے کے لیے جومعاوضہ ملتاہے اس سے زیادہ پیسے سنگھ کے خلاف آنے والی خبروں کو دبانے کے لیے ملتے ہیں۔ اپنے حق میں مثبت ماحول سازی کے لیے یہ زعفرانیوں کی ایک ضرورت ہے۔ اسی لیے ہماچل الیکشن میڈیا سے تقریباً غائب ہے ۔گجرات میں بھی اگر کوئی انہونی ہو جائے تو وہاں کے نتائج کو ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دیا جائے گا۔ عوام وخواص کے الیکشن کا سرور چونکہ ایک افیون بن چکا ہے اس لیے ذرائع ابلاغ اسے بیچ بیچ کراپنا کاروبار چلاتے ہیں یعنی اپنی ٹی آر پی بڑھاتے ہیں ۔ اس کا براہ راست تعلق اشتہارات کی تعداد اور نرخ سے ہوتا ہے ۔ ٹی وی چینل پراشتہارات کی مقدار کا دارومداراس کی مقبولیت یعنی ناظرین کی تعداد پر ہوتاہے اور نرخ بھی اسی کے لحاظ سے طے پاتا ہے۔ اسی لیے مختلف ٹی وی چینلس الگ الگ اداروں سے انتخابی سروے کروا کر ان جائزوں کی مدد سے اندازے پیش کرتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول پر کی اشاعت پر 12 نومبر سے 5 دسمبر تک پابندی لگاکر یہ دھندا چوپٹ کر دیا ۔

الیکشن کمیشن چونکہ مرکزی حکومت کے اشاروں پر کام کرتا ہے اس لیے یہ نظام الاوقات اس بات کا اشارہ ہے کہ ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہر مرتبہ اقتدار میں تبدیلی کی روایت ہے۔ اس لحاظ سے کانگریس کی حکومت بننی چاہیے الاّ یہ کہ بی جے پی کو اس کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا ہماچل پردیش کے رہنے والے ہیں اس لیے وہاں شکست ان کی قیادت پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردے گی ۔ ہماچل میں اس بار بی جے پی نے ایک چوتھائی ارکان اسمبلی کو ٹکٹ سے محروم کردیا اور کچھ کے حلقہ ہائے انتخاب میں تبدیلی کردی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو درجن باغی میدان میں اتر گئے۔ کانگریس کے اندر بھی بغاوت ہوئی لیکن وہ اس پر قابو پا کر 6؍ تک سمیٹ دیا گیا۔ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے اس بار تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے ہیں ۔ 2017کے اندر 17 نشستوں پر ہارجیت کا فرق صرف 1500 ووٹ تھا اس لیے باغی اور عآپ ا میدواروں کے معمولی ووٹ بھی ہار جیت کو متاثر کرسکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے ذریعہ جائزوں پر پابندی سے قبل ہماچل پر دیش پر اے بی پی چینل نے سی ووٹر کا سر وے نشر کیا تھا ۔ بی جے پی کی جانبداری کے لیے اس ادارے کے مالک یشونت دیشمکھ بدنام ہیں۔ وہ گھما پھرا کر اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرتے رہتے ہیں ۔سی ووٹر کے مطابق اس بار بی جے پی کو جملہ 68 میں سے 31تا39 تک نشستیں مل سکتی ہیں۔ یہ یقیناً پچھلی مرتبہ کی 44 سے کم ہیں لیکن حکومت سازی کے لیے کافی ہیں۔ اس کے برعکس کا نگریس کے لیے سی ووٹر نے 29 تا37 نشستوں کی پیشنگوئی کی ہے ۔ دونوں کے درمیان بہت ہی معمولی فرق ہےاس لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اس جائزے کے مطابق ویسے تو عام آدمی پارٹی کا کھاتا کھولنا ہی مشکل ہے لیکن اگر وہ کھل بھی جائے تو بات ایک سے آگے نہیں بڑھے گی۔ ویسے اندازے تو اندازے ہی ہوتے ہیں کبھی کبھار ان کا تکاّ لگ بھی جاتا ہے اور کئی مرتبہ یہ چاروں خانے چت ہوجاتے ہیں۔

ہماچل پردیش میں رائے دہندگی کے بعد بیشتر ماہرین کی رائے کانگریس کے حق میں ہے۔ معروف صحافی راکیش کپور کا مشاہدہ ہے کہ اس کانٹے کی ٹکر میں بی جے پی کے وزیر اعظم کے مقابلے کانگریس کا ہر کارکن انتخاب لڑ رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر بی جے پی ہار جائے تو وہ پارٹی کی نہیں وزیر اعظم کی شکست ہوگی۔ مودی جی باغیوں کو سمجھانے کی کوشش میں پیشگی ناکامی کا مزہ چکھ چکے ہیں ۔وزیر اعظم نے اپنے عہدے کے وقار کو خاک میں ملاتے ہوئے ہماچل پردیش میں کانگڑا( فتح پور) سے بی جے پی کے باغی امیدوار کرپال پرمار سے خود فون کر کے انتخاب نہیں لڑنے کی نہ صرف گزارش کی بلکہ حکم بھی دے دیا۔ایک وائرل ویڈیو میں انہیں ’’ میں کچھ نہیں سنوں گا، تم الیکشن سے ہٹ جاؤ، باقی ساری ذمہ داری میری...۔‘‘ کہتے سنا گیا۔ وزیر اعظم کے دھمکی بھرے پیار کے باوجود پر مار نے مودی جی کے فون پر کہی جانے والی من کی بات کو ٹھکرا کر الیکشن لڑا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابی کامیابی کے جنون نے وزیر اعظم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے؟

کانگریس اور بی جے پی کی انتخابی مہم میں فرق کا اندازہ ان کے اشتہار پر لگی تصاویر سے لگایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی نےسابق وزیر اعظم واجپائی کو یاد کرتے ہوئے ان کی تصویر لگائی اس سے مودی جی ناراض بھی ہوئے ہوں گے کیونکہ ان کے ہوتے کسی اور ضرورت ہی کیا ہے؟ اس کے برعکس کانگریس نے سابق وزیر اعلیٰ ویر بھدر سنگھ کی تصویر کے نیچے لکھا’ مجھے یاد رکھیے گا‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ بی جے پی نے یہ انتخاب قومی مدعوں پر لڑا جبکہ کانگریس نے روزمرہ کے مسائل مثلاً قدیم پنشن اسکیم، ، مہنگائی اور بیروزگاری کا سہارا لیا کیونکہ پچھلے ضمنی انتخاب میں اسے انہیں کی مدد سے کامیابی ملی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس ضمنی انتخاب کی تاریخ دوہراتی ہے یا بی جے پی پچھلے اسمبلی انتخاب کی مانند اس بار پھر جیت جاتی ہے۔

معروف صحافی پربھو چاولا کے مطابق اس بار انتخابی مہم کے دوران کانگریس حملہ آور نظر آئی جبکہ بی جے پی اپنی مدافعت میں لگی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیر و سیاحت کے میدان میں پیش رفت ہوسکتی تھی لیکن ریاستی سرکار نے تعمیر و ترقی کا کوئی کام نہیں کیا۔ اس لیے اسے وزیر اعظم کی آڑ میں چھپنا پڑا لیکن عوام کے اندر نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ مرکزی سرکار کے تئیں بھی ناراضی یا بیزاری پائی جاتی ہے۔ دوسرے علاقوں کی بہ نسبت ہماچل پردیش میں پنشن کا مسئلہ اس لیے اہم ہے کیونکہ وہاں ہر خاندان میں کم ازکم ایک فرد سرکاری ملازم ہے۔ ماضی میں شانتا کمار جیسے مقبول بی جے پی رہنما کو سرکاری ملازمین کی ناراضی لے ڈوبی تھی۔ پنشن کا معاملہ بیک وقت مقامی اور قومی ہے کیونکہ یہ عام لوگوں کو متاثر تو کرتا ہے مگر اس کا فیصلہ مرکزی حکومت کرتی ہے ۔ کانگریس نے اپنی انتخابی مہم میں اس کے بہانے مودی سرکار کو نشانہ بنایا۔ راہل گاندھی کی دوری اسی حکمت عملی کے تحت تھی کہ ان کی آمد سے اگر قومی مسائل پر گفتگو شروع ہوجائے تو یہ بی جے پی کے لیے مفیدثابت ہوگی ۔

پولنگ کے بعد ایک نجی گاڑی سے ای وی ایم کےملنے پر کانگریس پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔ کانگریس ایم ایل اے نند لال موقع واردات پر پہنچ گئے۔ ایک گھنٹےکی محنت کے بعد الیکشن سپروائزر بھاونا گرگ نے ان کو پرسکون کیا۔ اس سلسلے میں اسسٹنٹ الیکشن آفیسر سریندر موہن نے انتخابی عملہ کو ہدایت دی کہ وہ ای وی ایم مشین کو جی پی ایس سے لیس سرکاری گاڑی میں واپس لائیں۔ انہوں نے کانگریس کارکنوں کو اس معاملے میں کارروائی کی جو یقین دہانی کرائی تھی اس کے تحت لاپروائی کے الزام میں 6؍ انتخابی کارکنوں کو معطل بھی کر دیا ۔ ان میں پولنگ کے چار اہلکاروں سمیت دو سیکورٹی اہلکار شامل تھے۔ پرائیویٹ گاڑیوں میں ای وی ایم کو اسٹرانگ روم تک لانے پر الیکشن کمیشن نے انکوائری کی ہدایت دی اورضبط شدہ ای وی ایم کی جانچ کا حکم بھی دیا۔

ای وی ایم کے حوالے سے سوشیل میڈیا میں بے شمار افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں اور اس طرح کی لاپروائی سے ان کو تقویت ملتی ہے۔ ہماچل پر دیش جیسے ننھے سے صوبے میں بھی اس طرح کا واقعہ حیرت انگیز ہے۔ اس الیکشن کا نتیجہ جو بھی نکلے مگر اس انتخاب کو وزیر اعظم کے فون نے یادگار بنا دیا۔ مودی جی ابھی حال میں جی ٹوینٹی ممالک کے سربراہان سے ملاقات کرکے لوٹے ہیں ۔ ان لوگوں کو اگر یہ پتہ چل جاتاکہ ہندوستانی وزیر اعظم کی بات تو خود ان کی پارٹی کا باغی رکن اسمبلی بھی نہیں مانتے تو وہ کیا سوچتے ؟ اور جی ٹوینٹی کے صدر کی حیثیت سے ان کی بات کیوں مانتے؟ جی ٹوینٹی سے قبل کرکٹ کا ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ ہوا ۔ اس میں ہندوستانی ٹیم کا کپتان کی مایوسی کے چلتے جئے شاہ کی سربراہی شکست سے نہیں بچا سکی۔ ہماچل پردیش کےمایوس وزیر اعلیٰ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کچھ بھی نتیجہ ہوسکتا ہےکیونکہ مقابلہ سخت ہے۔ ایسے میں مودی جیسا ٹیم کا منیجر کیا کرلے گا ؟

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450894 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.