موجودہ حکمران اور آنے والا وقت

۱۱۔ اکتوبر کا دن خدا خدا کرکے آخر کٹ گیا ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی معرکہ العقاب ہو۔ اسپین کے مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کرانے کی عیسائی استرداد کے سلسلے کی ایک اہم جنگ جو خلافت موجدین اور عیسائیوں کے اتحاد کے ما بین تیرہویں صدی میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں عیسائیوں نے فیصلہ کن فتح حاصل کی اور اسے اسپین میں مسلم اقتدار کے خاتمے کے سلسلے میں اہم موڑ قرار دیا جاتاہے۔ عیسائیوں کی اس تیاری اور مسلمانوں کے خلاف یورپ کے اعلان جہاد کے بارے میں سنا تو مراکش اور اندلس سے مسلمان افواج جمع ہونا شروع ہو گئیں اور چھ لاکھ کی یہ فوج اپنے اندرونی خلفشار اور افواج کی بددلی اور اپنی دانستہ حرکات کا شکا ہو کر بری طرح شکست سے دو چار ہوئیں اور ناصر الدین بمشکل ایک ہزار سپاہی میدان جنگ سے بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوسکا۔پاکستان میں بھی لاہور کے حلقے 122کو مسلم لیگ نون اہم موڑ قرار د ے رہی ہے اور معرکہ العقاب کیطرح بمشکل مسلم لیگ نون بھی اس انتخابی معرکے میں چند ہزار ووٹ سمیٹ کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی اور ایک بری شکست سے دو چار ہونے سے بال بال بچ گئی۔ مسلم لیگ نون نے سرکاری خزانے اور تمام سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق جنہیں الیکشن کمیشن نے 2013ء کے انتخابات میں گڑ بڑ کے سلسلے میں نا اہل قرار دے دیا تھا ضمنی الیکشن میں بمقابلہ علیم خان چند ہزار ووٹ لیکر یہ معرکہ یقینی طور پر مار لیا تو لیا ہے مگر اسکے با وجود یہ مسلم لیگ نون کی شکست ہے کہ وہ اپنے 30-35ہزار ووٹوں سے محروم ہو گئی۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ مسلم لیگ نون کیلئے انتہائی شرمناک شکست ہے کہ سرکاری مشینری اور خزانے کو الیکشن کی بھٹی میں جھونکنے کے باوجود وہ علیم خان کے مقابلے میں وہ کوئی خاطر خواہ لیڈ نہیں لے سکی اور یہ اسکے لئے بغلیں بجانے اور خوشی کا نہیں بلکہ غور و فکر اور ندامت کا مقام ہے کہ اتنی طاقت کے استعمال کے باوجود حکومت میں رہتے ہوئے بھی اتنی کم پذیرائی کہ عوام نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے مگر اب یہ مسلم لیگ نون پر موقوف ہے کہ وہ اپنی اس دو چّلو جیت پر کچھ پشیمان ہوکر اپنی پالیسیوں میں کچھ تبدیلی لائیگی یا پھر اپنے ہی زعم میں گرم سخن رہیگی اور یہ آنے والے وقت میں اسکے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ اس معرکہ العقاب کو سر کرنے کے بعد اب ہمیں ایسا لگ رہا ہے جیسے اس معرکے کے بعد پاکستان کی سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی حالت میں بہتری آجائیگی۔ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہونگی، اندھیرے چھٹ جائینگے، خوشحالی کا دور دورہ ہوگا، محنت کش معاشی محرومیوں سے آذاد ہو کر آسودگی سے رہ رہے ہونگے، پسماندگی کا خاتمہ ہو جائیگا، جمہوریت کا پھل ہر کسی کو اسکی دہلیز پر مل رہا ہوگا، استحصالی طاقتیں اپنی موت آپ مر جائینگی، صحت اور تعلیم ہر کسی کیلئے یکساں ہوگی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ اقتدار کے سامراجی اور نراجی حکمران اس جیت کے نشے میں اللے تللے اڑا رہے ہونگے اور وہ سب معرکہ آراء نعرے لگانے والے، جھنڈے اٹھانے والے، ڈھول کی تھاپ پر پاگلوں کی طرح ناچنے والے اور کاندھوں پر بانس کی لمبی لمبی سیڑھیاں اٹھاکر دیواروں پر انکے بینر لگانے والے ایک چائے کے کپ اور بریانی کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کرکے مونچھوں کو تاؤ دیکر پھر اسی گندی نالی کے کیڑے کیطرح رینگ رینگ کر اپنی قسمت کو کوس رہے ہونگے کہ یہ ہے انکا مقدر۔ جب تک محروم طبقات کو انکی پسماندگی سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہوتا، معاشی اور اقتصادی طور پر ترقی نہیں ہوتی، بنیاد پرستی اور دولت کی ہوس گیری ختم نہیں ہوتی یہ جیت عوام الناس کیلئے ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارا بوسیدہ اور اذیت ناک استحصالی نظامِ حکومت ایک ایسا اژدھا ہے جو ہر طرف اپنا پھن پھیلائے ہمارے سماج میں غریبوں، محنت کشوں اور بے روزگاروں کو اپنے زہریلے اور استحصالی نظام سے تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے۔ آنے والا وقت اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ آنے والا وقت مسلم لیگ نون کیلئے انتہائی مشکل ہوگا اور مسلم لیگ نون کی حلقہ 122کی معمولی جیت اب شکست میں تبدیل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور الیکشن 2018ء اور بلدیاتی انتخابات اسے ناکوں چنے چبوا دیگا کہ اب عام عوام یہ بات جان چکے ہیں کہ موجودہ حکمران نہ تو اس قوم سے مخلص ہیں اور نہ ہی انہیں پاکستان سے کچھ لینا دینا ہے وہ تو بس اس ملک پر حکومت کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہوئی موجودہ حکومت کی پالیسیاں اور آنے والے وقت میں انتہائی تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہوتی ہوئی یہ جماعت اپنے آخری سانس لے رہی ہے اور نوجوان نسل اپنی پوری آب و تاب کیساتھ ایک ایسے انقلاب کی تیاری میں مصروف ہے جو تاریخ کا رخ موڑ کر سوشل ازم کا راستہ متعین کریگا اور معیشت کو طبقاتی طور پر شکست دیکر نام نہاد موجودہ سرمایادارانہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔

موجودہ حکمرانوں کی مزدور دشمن پالیسیاں، جھوٹے وعدے، دہشت گردی کی جنگ اور اسمیں منافقانہ چالیں، خارجہ پالیسی میں ناکامی، حکومتی رٹ کا ُپُھس پُھسا پن، بین الااقوامی تعلقات میں جھول ایسا لگتا ہے کہ کٹھ پتلیوں کو نچانے اور ملکی نظام کو چلانے میں ایک غیر مرئی طاقت اپنا کردار کر رہی ہے اور اسکا تمام کریڈٹ نواز حکومت اپنے نام کرکے عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہے حالانکہ یہ بات زبان ذد عام ہے کہ راحیل شریف کی جرنیلی نے ان سب کی پتلونیں گیلی کر دی ہیں۔ مگر ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ یہ سب ایک زبان ہو کر سب کچھ اپنے نا م کرکے آنے والے وقت کیلئے دہشت گردوں کے خلاف ایک پیج پر اکٹھے ہونے کا جھوٹا نعرہ بلند کرنے والے شاید یہ بھول گئے ہیں کہ کل تک دہشت گردوں کی جھولی میں بیٹھ کر ان سے پینگیں بڑھانے والوں کے مکروہ چہرے اب قوم کے سامنے آشکار ہو چکے ہیں اور اب آنے والا وقت شاید جرنیلوں کیلئے نرم گوشہ تو رکھتا ہو مگر انکے لئے شاید کوئی اچھی خبر نہ ہو کیونکہ اب عوام امن چاہتی ہے اور وہ کوئی بھی دے عوام کو اس سے سر و کار نہیں۔ حالات اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور در پردہ ملکی نظام کو چلانے، دہشت گردوں سے نبٹنے اور خارجہ پالیسی کے مرتب کرنے میں موجودہ حکومت کا کردار بری طرح فلاپ ہو چکا ہے۔ ایسے میں ہمارے وزیر آعظم کے لئے آنے والے حالات موجودہ واقعات کی روشنی میں انتہائی مشکل ہونگے۔ کسی بھی ریاست کے انتظام و انصرام کو چلانے کیلئے عقلمند، دانا، با شعور، مخلص اور ملک و قوم سے محبت کرنے والے حکمرانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے مگر ہماریے یہاں تا حال کوئی ایسا حکمران نہیں آیا جو ان خوبیوں کا حامل ہو۔ ہمارے ملک میں موجودہ نظام کو چلانے والے وہ لوگ ہیں جو ایک انتہائی چالباز، مکرو فریب کے بے تاج بادشاہ اور اسلام کے نام پر عیارانہ چالیں چلنے والے اس جنریل کی گود میں پل کر جوان ہوئے ہیں جن میں بدرجہ اتم وہ سب مکروہات پائی جاتی ہیں جو ایک ملک اور قوم کو تباہ کرنے والے حکمرانوں میں ہوتی ہیں۔ جو محب وطن پاکستانی اس ملک کو ایک کامیاب اور ترقی پسند ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں انہیں انتہائی سنجیدگی سے حکمت عملی میں تبدیلی لانا ہوگی اور ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن کے ذریعے نمائشی، لولی لنگڑی اور غیر حقیقی جمہوریت سے چھٹکاراہ حاصل ہو سکے۔ ہماری ترجیحات میں بین الاقوامی معیشت اور سیاسی انتظامات سر فہرست ہونے چاہئیں جو ہر قسم کے غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوں اور ہم اپنی پالیسیاں از خود مرتب کرکے ملک اور قوم کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکیں۔ ہمارے موجودہ حکمران قیمتوں کو تو عالمی سطح تک لیجانے کے معاشی فلسفے پر کاربند ہیں مگر دوسری طرف وہ ہمارے معاشی ڈھانچے کے بنیادی لوازمات جن میں غربت کا خاتمہ، صحت اور تعلیم سب کیلئے یکساں، بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی اور لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور اجرتوں میں بین الاقوامی معیار کے مطابق اضافہ کرنے کیلئے کوشاں نہیں جس سے موجودہ حکمرانوں کی اپنے ملک اور قوم سے وابستگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ آنے والا وقت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اگر ہمارے حکمران اسی روش پر کاربند رہے تو وہ اپنی نا عاقبت اندیشی سے ایک بار پھر اس ملک کو ان غیر مرئی طاقتوں کے حوالے کر دینگے جو انتخابات نہیں بلکہ طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155674 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.