ریاست کی اہم تین بنیادیں ہوتی ہیں، جن کے ذریعے ریاست کو چلایا جاتا ہے۔
پہلی بنیاد مقننہ:
مقننہ میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو ریاست میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے
قانون سازی کرتے ہیں.
دوسری بنیاد عدلیہ:
عدلیہ کا کام ہے قوانین کی تشریح کر کے ان قوانین کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔
تیسری بنیاد ایگزیکٹو:
ایگزیکٹو کا کام یہ ہے وہ ان دونوں کے فیصلوں پر عمل کراتی ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ ان تینوں بنیادوں میں فرق کیا ہے؟
١۔ مقننہ
مقننہ وہ لوگ ہیں جو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قوانین بناتے ہیں خواہ وہ ایوان
بالا سے ہوں یا ایوان زیریں سے۔
٢۔ عدلیہ
عدلیہ میں یہ تمام عدالتیں آتی ہیں: سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، فیڈرل شریعت
کورٹ اور لوئر کورٹ۔
٣۔ ایگزیکٹو
ایگزیکٹو میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو ملکی اہم امور کو سنبھالتے ہیں اور
ایڈمنسٹریشن کا کام کرتے ہیں۔ ایگزیکٹو ایک وسیع ادارہ ہے جس میں تمام
بیوروکریسی آتی ہے بشمول بری،بحری و ہوائی عسکری قیادت۔
پاکستان کے کل تین ادارے ہیں۔
پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹو اور عسکری قیادت ایگزیکٹو کا ایک حصہ ہے،
پاکستان کے آئین کے مطابق عدلیہ اور ایگزیکٹو پارلیمنٹ کے ماتحت ہیں، یعنی
جو لوگ پارلیمنٹ میں اکثریت رکھتے ہیں وہ ان کے بارے اختیارات اور دیگر
معاملات پر قانون سازی کرنے کان حق رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل
کرنے والے حکومت بناتے ہیں اور وہ ہی پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹو میں
اعلی عہدوں پر تقرریاں کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے وزیراعظم کو اکثریت کے بنیاد پر
منتخب کرتے ہیں۔ اور وزیراعظم اپنی کابینہ تشکیل دیتا ہے۔ اور صدر مملکت کو
بھی وزیراعظم منتخب کرتا ہے اکثریت کے بنیاد پر۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو
صدر مملکت وزیراعظم کے استصواب رائے سے منتخب کرتا ہے ۔
سپاہ سالار وطن (آرمی چیف) کو منتخب کرنا صرف و صرف وزیراعظم کا حق ہے۔
ایگزیکٹو اور عدلیہ کے ملازمین کو ماہانہ بنیادوں پر تنخواہیں دی جاتی ہیں
اور ان کی ریٹائرمنٹ بھی ہوتی ہے، جس پر ان کو کافی مراعات دیے جاتے ہیں ،
اور ان کو تا عمر پینشن اور دیگر سہولیات دیے جاتے ہیں۔
مقننہ کو یہ شرف حاصل نہیں صرف وہ مدت ملازمت تک تنخواہیں و دیگر سہولیات
حاصل کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ پاکستان میں آئے روز میڈیا و سیاسی میدان
گرم دکھائی دیتی ہے۔
وہ موضوع ہے:
”آرمی چیف کی تقرری“۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف آرمی چیف کی تقرری کو کافی متنازعہ بنایا
گیا ہے، حالانکہ وہ اس تقرری کے بارے میں کسی بھی اینگل سے کوئی بات کرنے
کا حق نہیں رکھتے ہیں۔
کچھ مہینوں سے اسٹیبلشمنٹ کو پاکستانی سیاست میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی
ہے، کچھ طبقوں کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے بارے مثبت تو کچھ طبقوں کے طرف سے
منفی باتیں کی گئی ہیں۔ اور یہ الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ
ملکی سیاست پر اثرانداز ہو رہی ہے، اور یہ الزام بھی چیئرمین تحریک انصاف
کی طرف سے لگائی گئی ہے۔
موجودہ وقت میں عمران خان اپنی کافی تقریروں مین افواج پاکستان کے سربراہان
کے خلاف عجیب الفاظ استعمال کر چکے ہیں۔ جن میں انہوں نے میر جعفر و میر
صادق کے الفاظ بھی کسے ہیں، اور سپاہ سالار کا نام لے کر کافی ایسی باتیں
کی جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔
مختلف سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کی طرف سے عمران خان کے دور حکومت کو آرمی
نواز حکومت بھی تصور کیا گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ ایک سیاہ ترین تاریخ رکھتی ہے۔ جس کی
شروعات فیلڈ مارشل ایوب خان نے کی پھر جنرل یحیی خان، پھر اس کے بعد جنرل
ٹیکا خان، جن کو تاریخ میں Butcher of Bengal کے نام سے پکارا گیا ہے، اور
بلوچستان میں بھی ایک آپریشن کر کے آج تک اس علاقے کو سیاسی و اقتصادی طور
پر جہنم بنا دیا گیا ہے.
اس دوران حبیب جالب نے یہ اشعار لکھے تھے:
" اٹھو پنجاب کے لوگو! بلوچستان جلتا ہے
بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے
لیکن یہ پنجاب ہے پیارے
دل جلتا ہے تو جلنے دے
آنسو نہ بہا فریاد نہ کر"
جنرل ضیاء الحق نے تیسری مارشل لاء لگائی اور اس کے پاس ایک ایسا گر تھا جس
کے بہکاوے میں سب پھنس جاتے تھے وہ گر تھا ”اسلام کارڈ“ استعمال کرنا۔ اور
اس نے اسلام کے نام پر ایک طاغوتی جنگ لڑی جس کے ثمرات پاکستان اب تک بھگت
رہا ہے تحریک طالبان پاکستان کی شکل میں، اس امریکی جنگ یعنی نام نہاد
افغان جہاد کے بعد ہزاروں بے گناہ لوگ اس جنگ کے آتش نظر ہو گئے۔
اس جرنیل کے بارے میں بھی مرشد حبیب جالب نے اپنے قلم کو تکلیف دی فرمایا:
"ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں ، خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم ، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا"
پرویز مشرف جیسے جرنیلوں کو ملکی آئین کے ساتھ کھیلتے دیکھا گیا اور جسٹس
افتخار چوہدری جیسے ججز نے ان کون چور دروازے سے جمہوریت پر حملہ کرنے کی
دعوت دی، لال مسجد جیسے واقعات بھی پیش آئے اور اس دور میں بھی DO MORE کے
بدلے ڈالر لیکر مظلوم پشتونوں کو تباہ و برباد کیا گیا۔
دیر و سوات جیسے علاقے جو جنت کے کبھی دریچے ہوا کرتے تھے ان کو جہنم سے
بدتر کر دیا اس ظالم نے۔
اب ان شخصیات کی غلطیوں سے یہ تو قطعی مطلب نہیں کہ ہم افواج پاکستان کو
برا بھلا کہیں۔ حالانکہ ان جرنیلوں کو اس مقام تک پہچانے والے لوگ بھی
مقننہ و عدلیہ کے ہی لوگ تھے جن کے نام تاریخ کے سیاہ بابوں میں درج ہیں۔
اور آج بھی لوگ ان کے ناموں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان جرنیلوں نے
سیاسی نرسریاں قائم کیں اور اپنے من پسندیدہ لوگوں کے ذریعے ملک کو یرغمال
بنایا اور عوم ان کے لیے ہائے ہائے کے نعرے لگاتی رہی۔ جمہوریت کا لبادہ
اوڑھے کچھ جماعتیں جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اپنی تاریخ کے مطابق باوفا
ہونے کے ثبوت دیتے ہوئے اس تاریخ کو مزید تقویت دیتے ہیں ۔اور جب اقتدار سے
ہٹائے جاتے ہیں تو ان ہٹانے والوں کے بجائے پورے ادارے کے خلاف برملا
پروپیگنڈے کرتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے عمران خان صاحب نے ایک جگہ پر کثیر تعداد میں لوگوں کو خطاب
میں کہا کہ:
"نواز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانا چاہتا ہے اور وہ اس کے لوٹے ہوئے
پیسے کو صاف کر کے دیگا"
اور ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ: " میں میرٹ پر آرمی چیف چاہتا ہوں"
تو اس بیان کے جواب میں خواجہ آصف صاحب جو موجودہ گورنمنٹ کے منسٹر بھی ہیں
انہوں نے کہا:
"عمران نے نواز شریف کے میرٹ کو ایکسٹینشن دی اور اب وہ کہتا ہے نواز شریف
میرٹ پر بندے نہیں لاتا"
اور کچھ دنوں پہلے DG ISPR اور DG ISI نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس
میں انہوں نے یہ کہا کہ "آرمی چیف نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم سیاست میں نہیں
آئیں گے ہم اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھائیں گے لہذا ہمیں سیاسی معاملات میں
لائیں " اور اس پریس کانفرنس میں انہوں جرنلسٹ ارشد شریف کے کینیا میں قتل
کے بارے میں کچھ اہم باتیں کیں، اور اس قتل پر بھی PTI کے سوشل میڈیا برگیڈ
نے افواج پاکستان کے بارے پروپیگنڈہ کیا۔اور اس سے پہلے بلوچستان میں آرمی
کے ایک ہیلی کاپٹر کے کریش ہونے کا واقعہ درپیش آیا جس میں افواج پاکستان
کے اعلی افسران موجود تھے، جس پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا برگیڈ نے عجیب
پروپیگنڈے کیے، اور مزید اس پریس کانفرنس میں DG ISI نے جن باتوں کا انکشاف
کیا وہ ایک جمہوری و سیاسی بصیرت رکھنے والے بندے کا کام نہیں ہے یعنی کچھ
جمہوریت پسند لوگوں نے آرمی کو ملکی سیاست میں اپنی کرسی بچانے کے چکر میں
مزید ایکسٹینشن دینے کی پیشکش کی۔ DG ISI نے مزید بتایا کہ: "عمران خان نے
جنرل باجوہ صاحب کو پیشکش کی کہ اگر کوئی اور آپ کو ایکسٹینشن کا آفر کر
رہا ہے تو میں آپ کو غیرمعینہ مدت تک کے لیے ایکسٹینشن دے سکتا ہوں اور
باجوہ صاحب نے اس پیشکش کو مسترد کیا اور نومبر میں ریٹائرمنٹ لینے کا
فیصلہ کیا" آرمی چیف کا سیاست سے الحیدگی کا فیصلہ اور عمران خان کے مزید
ایکسٹینشن کے آفر سے لگتا ہے کچھ تو خاص ہے۔
مندرجہ بالا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کے پاکستان کو ہمیشہ سے ایسے لوگوں نے
نقصان پہنچایا جن کو عوام کی طرف سے پذیرائی حاصل تھی۔
موجودہ وقت میں اسٹیبلشمنٹ کو اس کے لائے ہوئے لوگوں نے بدنام کیا اور
انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کے لئے کوئی کثر نہیں چھوڑا اور چھوٹے بڑے
واقعہ کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ منسلک کیا گیا ،گویا وہ ارشد شریف قتل کیس ہو
یا عمران خان پر حملہ، اور یہ الزامات بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے لگائے ہیں۔
بہرحال اب اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے وہ اپنے آئینی حدود میں رہے اور اس سے تجاوز
نا کرے۔
ایک دور تھا ”افواج پاکستان“ پاکستانی لوگوں کے دلوں میں بستی تھی مگر کچھ
غلطیوں کی وجہ سے ان کو وہ مقام اب حاصل نہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ سے امید رکھتے
ہیں کہ وہ ملکی دفاع کے لیے ملک میں عدم استحکام کے خلاف جمہوریت کا ساتھ
دیں گے۔ آرمی چیف کی تقرری حقیقت میں ایک بڑی تقرری ہے شاید یہ تقرری جنرل
الیکشن سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ 2022 میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے
اظہار لا تعلقی کرنا اور بھی ایک سوالیہ نشان ہے، اظہار لا تعلقی وہ ہی کر
سکتے ہیں جن کا تعلق ہو معاملے سے۔ امید ہے آنے والے وقت میں تمام ادارے
اپنا آئینی و قانون حق ادا کریں گے اور کوئی ادارہ کسی اور ادارے کے
اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا ورنہ 2021/2022 ان کے لیے سبق آموز
ہے۔
اب پاکستانی سرزمین پر جنرل ایوب خان، ٹیکا خان، یحیی خان، ضیاء الحق و
پرویز مشرف جیسے جرنیلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ پاکستان کو اب ان لوگوں کی
ضرورت ہے جو آئین و قانون کے ماتحت رہ کر اپنے فرائض سرانجام دیں۔ اور
موجودہ حکومت جس کو بھی آرمی چیف منتخب کرے گی ہم اس کا استقبال کریں گے
اور اس کے لیے استقامت کی دعا کریں گے۔
|