شہباز شریف کی امپورٹڈ حکومت میں پاکستان میں کرپشن اپنے
مکمل عروج پر ہے۔ ایک سروے کے مطابق شہباز شریف کی امپورتڈ حکومت نے گذشتہ
24 سالوں میں بدعنوانی کے تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ بدقسمی سے
ایشیا۔بحرالکاہل کے علاقے میں پاکستان کو پانچویں کرپٹ ترین ملک کا درجہ
دیا گیا ہے جو قابل شرم بات ہے۔ اس کے علاوہ پانامہ لیکس میں نواز شریف اور
اس کے خاندان کی کرپشن منظر عام پر آئی جو پاکستان میں ہونے والی کرپشن اور
بدعنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
حکمرانوں کی لوٹ مار اور سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل میں
پھنسے عوام مسلسل اس استحصالی نظام اور خستہ حال ریاستی اداروں کا شکار
ہوتے رہے ہیں۔ اسی نظام کے زوال اور بوسیدگی نے کرپشن کو پورے سماج کا ایک
لازمی حصہ بنا دیا ہے۔ اس وقت سماج کے ہر حصے میں کرپشن ایسے سرایت کر چکی
ہے جیسے انسانی جسم میں خون۔ ایسے میں سرمایہ داروں کی لوٹ ماراور عالمی
مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو برقرار رکھتے ہوئے کرپشن کو ختم کرنا ناممکن
ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ سرمایہ
داروں کی محنت کشوں کے استحصال، ٹیکس چوری اور بجلی و گیس چوری وغیرہ سے
لوٹی ہوئی تمام دولت ضبط کرنی ہوگی، تمام سامراجی قرضے ضبط کرنے ہوں گے،
معیشت کے تمام کلیدی شعبوں، تمام صنعتوں اور جاگیروں کو مزدوروں کے جمہوری
کنٹرول میں دینا ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار
اس ریاست کامکمل خاتمہ کر کے اور اس کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک مزدور ریاست
قائم کرنا ہو گی۔
ظاہری چمک دمک اور عیش ونشاط کی محافل میں اُلجھا ہوا انسان اپنی اوقات
بھول چکا ہے۔ وہ اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز ذرائع اختیار
کرتاہے۔اپنے ماحول اور معاشرے م یں رہنے والوں کا حق مارتاہے۔ وہ ہر جائز و
نا جائزطریقے سے حرام کی دولت کما کر خود کو دوسروں سے اعلیٰ رتبے کا
خواہاں ہوجاتاہے۔ اپنے نفس کی تسکین کے لیے وہ بدعنوانی کا راستہ اختیار
کرتاہے۔اپنی حیثیت سے بالا تر ہو کر لوٹ مار، قتل و غارت گری، ڈاکہ زنی،
چوری، رشوت اور اپنے اختیار ات کے ناجائز استعمال سے وہ چند روزہ زندگی کو
اُلجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر لیتاہے اور تمام عمر کیلئے لعنتی قرار
پاتا ہے اور مرتے دم تم تک اسکی پیشانی پر بد کرداری کا داغ لگ جاتا ہے۔
‘پنجاب کے70فیصد افراد‘ وطن کیسرکاری اداروں میں اپنے کاموں کیلئے جانے کے
بعد اس بات پریقین رکھتے پائے گئے کہ اِن محکموں میں کرپشن موجودہے‘مقامی
این جی او کے اِس سروے کے دوران ایسے واقعات بھی بیان کئے گئے کہ لوگوں نے
سرکاری ملازمین کو رشوت لیتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ور انہیں رنگے
ہاتھوں پکڑا گیا مگر محکمہ اینٹی کرپشن کے اہلکاروں نے رشوت وصول کرکے ان
کیسوں میں ایسیجھول رکھے کہ یہ لوگ عدالت میں جا کر بری ہو گئے یا پھر ان
مقدمات کو دوران تفتیش ہی ختم کر دیا گیا اور داخل دفتر کر دیا گیا۔۔ یہ
بات بھی علم میں لائی گئی ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن مقامی اور باہر سے آئے
مظلوم شہریوں کی کرپٹ افراد کے خلاف اکثر رپورٹس پر کارروائی کرنے سے ہی
گریزاں رہاہے۔
ایک سروے میں معلوم ہوا ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن کی گریزپائی‘ کی وجہ کرپشن
کا گراف کم دکھانے کیلئے کی گئی ایک پلاننگ بتائی جاتی ہے۔ تاکہ محکمہ
اینٹی کرپشن کی کارکردگی کا معیار بہتر نظر آئے۔
ہمیں بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ایک ہونا ہے اور سرکاری محکمون میں چھپی
ہوئی ان کالی بھیڑوں کو آشار کرنا ہوگا۔ مقاصد کے حصول کے لیے ایمان داری،
محنت، حب الوطنی اور خلوصِ نیت بہت ضروری ہے۔ سماجی انصاف کا راستہ
بدعنوانی کے خاتمہ سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے
اخلاقی اقدار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے جسکے لئے اینٹی کرپشن محکے میں
چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کی نشاندہی بھی بہت ضروری ہے۔
لالچ اور ہوس نے کرپٹ پاکستانیوں کو امیر اور ملک کو غریب کر دیا ہے۔ فلک
بوس عمارات، قیمتی چمچماتی گاڑیاں، شادی بیاہ کی تقریبات میں شہ خرچیاں اس
بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ سب کچھ حرام کی کمائی سے ہی ممکن ہے۔ اِن
کے پس منظر میں کرپشن کا حاصل کردہ مال کارفرما ہے۔ مکروہ چہرے، لبوں پر
آیت کلام پاک، الفاظ مین چاشنی، زبان پر الحمد و ﷲ، ماشا اﷲ اور اﷲ کرم
کریگا کے الفاظ سجائے، ماتھے پر نشان، ہاتھ میں تسبیح نماز اور روزے حج کے
پیچھے چھپے یہ قبیح چہرے اپنی ان چالوں کے زریعے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں
جانے دیتے۔
اگر ہم کرپشن کے ناسور سے صحیح معنوں میں چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو
کرپشن کے خاتمے سے لے کر روٹی اور روزگارکی فراہمی تک تمام بنیادی ضروریات
صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے وقت کی فوری
ضروت ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تعمیر ہے جو محنت کشو ں کی ابھرنے والی
انقلابی تحریکوں کو یکجا کرتے ہوئے انہیں سرمایہ داری اور اس کی تمام
غلاظتوں کے خاتمے تک لے جا سکے اوراس ملک میں ایک سرخ سویرا طلوع کرکے
کرپشن سے چھٹکارہ دلانے میں اپنا کردار ادا کریے ہوئے اس لعنت سے چھٹارہ
دلا سکے۔
|