بی جے پی ہٹائو۔۔۔آخر کون ہٹائیگا

ملک بھر میں اس وقت ہر ایک سیاسی پارٹی کا ایک ہی ایجنڈاہے کہ ملک سے بی جے پی ہٹائو اور دیش بچائو۔لیکن سب سےبڑا سوال یہ ہے کہ آخر بی جے پی کو کون ہٹائیگا،کیونکہ بی جے پی کو ہٹانے کے چکرمیں ہر ایک سیاسی پارٹی اپنے اپنے امیدوارکو میدان میں اتارنے کیلئے تیارہوجاتی ہے،جبکہ بی جے پی ایک طاقت بن کر تمام تنکوں کا مقابلہ کرتی ہے،جس کی وجہ سے بی جے پی ہٹانے کا جو ایجنڈہ لوگ پیش کرتے رہتے ہیں وہ ناکام ہوجاتاہے۔کچھ ہی مہینوں میں کرناٹک میں بھی اسمبلی انتخابات آنےو الے ہیں،جس کیلئے ابھی سے سیاسی جماعتیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنےلگی ہیں۔کانگریس،جے ڈی ایس ،ایم آئی ایم،ایس ڈی پی آئی کے علاوہ اور بھی کئی سیاسی جماعتیں اس دفعہ میدان میں اترنے کی تیاری کررہی ہیں۔ان تمام سیاسی پارٹیوں میں سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کاتذکرہ کیاجائے تووہ کانگریس اور جے ڈی ایس ہیں۔ان دونوں سیاسی جماعتوں کے تعلق سے جائزہ لیاجائے توکئی ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جہاں پر ماضی میں ان دونوں پارٹیوں نے ہی ایک دوسرے کو ہرانے کی کوشش کی ہے۔کہیں کانگریس نے جے ڈی ایس کو بہت کم فرق سے ہرایاہے تو کہیں جے ڈی ایس نے کانگریس کو ہرانے میں اہم رول اداکیاہے۔کرناٹک میں یہ دونوں پارٹیاں ہی ایک دوسرے کوہراکر بی جے پی کو اقتدارمیں آنے کاموقع دیتی رہی ہیں۔وہیں دوسری جانب انتخابات کے قریب چند ایسی تنظیمیں وادارے قائم ہوجاتے ہیں جو سیکولر ووٹوں کو پھوٹنے سے بچانے کیلئے کمربستہ ہوجاتی ہیں اور لوگوں کے درمیان جاکر سیکولر ووٹوں کے اتحادکی خاطر اپیلیں،گزارشیں،جلسے اور بیٹھک کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،ان میں خاص طورسے مسلمانوں کی تنظیمیں اُبل کر آتی ہیں۔دراصل اس طرح کی اپیلیں اور اتحاد قائم کرنے کیلئے پچھلے کئی سالوں سےکرناٹک کی مسلم متحدہ محاذ اور انٹلکچیول گروپ (دانشوروں کاگروہ)ووٹروں اور مسلمانوں کے درمیان جاکر بیداری لانے کاکام کرتے رہے ہیں۔ہوناتویہ چاہیے کہ ووٹروں کو متحد کرنے سے قبل ایسی تنظیمیں اور گروہ کانگریس،جے ڈی ایس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کرتے ہوئے ایک منصوبہ بنائیں جوفرقہ پرست جماعتیں کو شکست دینے کیلئے کافی ہو۔اس منصوبے میں اس بات کوترجیح دی جائے کہ جہاں پر کانگریس کااثرورسوخ ہو،کانگریس کاامیدوار مضبوط ہو اور لوگ اُس امیدوار ماننے کے ساتھ ساتھ امیدوارالیکشن کے بعد بی جے پی چھلانگ لگانےوالانہ ہو،اُس کی تائید کی جائے۔اگر کسی علاقے میں جے ڈی ایس کا امیدوارمضبوط ہو اور وہاں کانگریس کمزور ہو تو اُس علاقے میں کانگریس کو برائے نام امیدوارپیش کرنے کیلئے فیصلہ لینا ہوگا۔اسی طرح سے او رکسی علاقے میں کوئی اور پارٹی کاامیدوار اپنی طاقت رکھتاہوتو اُسے کامیاب کرنے کیلئے کانگریس وجے ڈی ایس کو پیچھے ہٹناہوگا،تبھی بی جے پی ہٹائو کا نعرہ کامیاب ہوسکتاہے،ورنہ سیکولر پارٹیاں تنکوں میں بٹ جائینگی اور بی جے پی ڈھیلہ بن کر رہ جائیگی۔محاذ جیسی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ سطح پرسیاسی پارٹیوں کومتحدکریں،کیونکہ ووٹران تو سیکولر حکومت کو ہی نافذ کرناچاہتے ہیں،لیکن میں بڑا تو بڑا کے چکرمیں سیکولرووٹ بکھرجاتےہیں۔اس کے علاوہ محاذ جیسی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر اس بات پر بھی دبائو ڈالیں کہ مسلم اکثریتی حلقوں میں مسلم امیدواروں کوموقع دیاجائے اور ان امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے تمام پارٹیاں اپنی جانب سےجدوجہد کریں،نہ کہ ٹکٹ دیکر اپنے ہاتھ کھڑے کرلیں۔ویسے بھی اب تک بی جے پی کاخوف دکھا دکھاکر مسلم قیادت کوکمزور کردیاگیاہے،اب مزید خوف دکھانے کے بجائے ایسی تعویذ پیش کی جائے جس سے خود بی جے پی میں خوف پیدا ہوجائے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.