آج سے جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب سابق آرمی چیف ہو
گئے۔جنرل باجوہ وہ واحد آرمی چیف تھے جن کو وقت کے وزیراعظم نے ان کی مدت
ملازمت میں توسیع دی ۔اور ایسے ہی انہوں نے زندگی کے چھ سال افواج پاکستان
میں بطور آرمی چیف رہے اور اپنے خدمات سرانجام دیے۔ جنرل باجوہ ان چھ سالوں
میں سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا کے سرخیوں میں رہے۔سابق وزیراعظم عمران خان
اپنی نے دور حکومت میں ان کی نیکیوں کے پل باندھتے تھے، حتاکہ وہ یہ بھی
کہتے تھے جنرل باجوہ نے ملکی معیشت اور ملکی خارجہ پالیسی میں بھی اپنا
کلیدی کردار ادا کیا۔ اور باز حلقوں کی طرف سے یہ بھی دعوی کیا جاتا تھا کہ
عمران خان کا دور حکومت باجوہ نواز حکومت ہے ۔اور اس دورانیہ میں اپوزیشن
کو لوہے کے چنے چبائے گئے۔ اپوزیشن کو " Political Victimisation " کا
سامنا کرنا پڑا اور اپوزیشن نے اس کا بھی قصور وار ان کو سمجھا، بہرحال اگر
اس بحث میں پڑے تو ایک پوری کتاب لکھنی پڑے گی۔ اب بات کرتے لفظ باجوہ کے
بارے میں،تاریخ میں لفظ باجوہ کو عجیب نظر سے دیکھا جائے گا۔ جب بھی کسی کے
سامنے لفظ باجوہ آجاتا ہے، تو زبان سے مثبت کم منفی الفاظ زیادہ نکلتے ہیں۔
باجوہ صاحب وہ واحد آرمی چیف رہے ہیں پاکستان کی تاریخ میں، جس پر حسب
ذائقہ سب پارٹیوں نے سب شتم کیا۔ میرے نزدیک جنرل باجوہ ان جرنیلوں کے لسٹ
میں آتا ہے جنہوں آئین پاکستان کو اپنے لیے ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھا اور
جمہوری معاملات میں مداخلت کو ایک مشغلہ سمجھ جس میں جرنل اسلم بیگ ،جرنل
پرویز مشرف اور باجوہ صاحب سر فہرست ہیں ۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کے
پاکستان میں لفظ باجوہ ایک گالی بن چکی ہے، اور اس کا کریڈٹ قمر جاوید
باجوہ صاحب کو جاتی ہے۔ عمران خان کو مین ایک کریڈٹ دوں گا۔ وہ کریڈٹ یہ کے
آئین و جمہوریت کے ساتھ کھیلنے والوں کو کنٹینر پر چڑھ کر ان کو بے نقاب
کیا اور ان کو رونے پر مجبور کیا۔ باقی باجوہ صاحب کی غلطی یہ تھی کے انہوں
سیاسی معاملات میں مداخلت کی جس کا ثمر وہ تاحیات کھائیں گے۔جب تک وہ آرمی
چیف رہے ہم نے افواج کی عظمت کی خاطر ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا، مگر اب
ہم کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ گزشتہ ماہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں خطاب کرتے
ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب نے ایک بہترین بات کی کہ ہر پاکستانی کو
آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے مگر اس میں کچھ باؤنڈریز ہیں، آپ مجھ پر
تنقید کریں مگر میرے ادارے پر تنقید نا کریں یعنی میری شخصیت پر آپ بات
کریں مگر میرے منسب پر بات نا کریں۔ ویسے ہی ہم جنرل باجوہ صاحب کے ذات پر
بات کرنے کا حق رکھتے ہیں مگر افواج پاکستان یا بطور سربراہ افواج پاکستان
پر تنقید نہیں کر سکتے۔ تاریخ گواہ ہے آئین و جمہوریت کو جنہوں نے کچھ نہیں
سمجھا وہ رسوا و ذلیل ہوئے۔
پاکستان زندہ آباد
پاکستان آرمی زندہ
|