ایک دور تھا کہ ہم خط لکھنے کے بعد اس کے جواب کا انتظار
شروع کردیتے تھے تاکہ تسلی ہو جائے کہ ہمارا پیغام پہنچ گیا اور پھر اس خط
کا جواب بھی دیا جاتا تاکہ اگلے بندے کو بھی اطمینان ہو کہ اسکا خط مل گیا
یہ ایک ایسا سلسلہ تھا جو چلتا ہی رہتا کچھ خط بغیر ٹکٹ بھی ارسال کردیے
جاتے تھے جسکے پیسے وصول کرنے والا خوشی سے دیتا تھا ہمارے بعض دیہاتوں میں
تو خط لکھنے اور پڑھنے کے لیے کوئی پڑھا لکھا بندہ بھی ڈھونڈنا پڑتا تھا
پھر وقت نے پلٹا کھایا تو تعلیم تھوڑی سی عام ہوئی مگر پھر بھی کئی کئی میل
پیدل چل کر سکول جانا پڑتا غربت اتنی کہ پاؤں میں چپل تک نہ ہوتی تھی اس
دور کے بچے آج بوڑھے ہوچکے ہیں شادی بیاہ کا سدہ دینے کے لیے گاؤں کا نائی
سپیشل جاتا اور اسے اس کام کے لیے کم از کم ایک ماہ لگا جاتا بعض جگہ پر
اسے رات بھی بسر کرنا پڑتی اس دور کے نائی کی بڑی سخت ڈیوٹی ہوتی تھی گاؤں
کا حکیم اور ڈاکٹر بھی وہی ہوتا تھا بچوں کے ختنوں سے لیکر چھوٹے آپریشن تک
وہ کردیا کرتا تھا پورے گاؤں میں گھوم پھر کر حجامت اور شیو مفت میں کرنا
بھی اسکی ذمہ داری ہوتی تھی مگر ہر چھ ماہ بعد کسی نہ کسی فصل کے آنے پر
پورا گاؤں اسے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور دیتا تھا میں نے ہوش سنبھالی تو ہمارے
گاؤں 36/DNB ہیڈ راجکاں بہاولپور میں حسین بخش جسے سبھی سینا نائی کہتے تھے
ابھی نوجوان تھاشادی بیاہ اور خوشی غمی میں پورے گاؤں کا ساتھی ہوتا تھا
پیغامات پہنچانے کے ساتھ ساتھ کھانے پکانے کا انتظام چار پائیاں اور بسترے
اکھٹے کرنے کا انتظام مہمانوں کے لیے ناشتے سے لیکر رات تک کے کھانے کا
انتظام اور حقہ چلانے کا انتظام بھی اسی کے پاس ہوتا تھا اور تو اور پورے
گاؤں کا وہ ریڈیو بھی ہوا کرتا تھا اور موبائل بھی پورے گاؤں کی خبریں اسی
کے پاس ہوتی تھیں جہاں بیٹھا بوریت ختم ہو جاتی مزے مزے کی باتیں سناتا کئی
کئی سال ایک ہی استرا استعمال کرتا کبھی پتھری پر رگڑ کر کبھی چمڑے پر
اورپھر ہاتھ کی ہتھیلی پر رگڑ کر اسے تیز کرتا شیونگ کریم کا تو تصور تک
نہیں تھا صرف پانی سے بال نرم کرنے کے بعدبڑی مہارت سے استرا چلاتا حسین
بخش کو دیکھے بہت عرصہ بیت گیا اﷲ اسے اپنی حفظ امان میں رکھے پرانے دور کی
نایاب نشانیاں ہیں یہ لوگ بات شروع ہوئی تھی خط سے جسے ایس ایم ایس نے ختم
کردیا نہ اب وہ سدے دینے والا نائی رہااور نہ ہے خط کے جواب کا انتظار رہا
اب ہر پیغام موبائل کے زریعے میسج کر دیا جاتا ہے جو گھنٹوں میں نہیں منٹوں
میں بھی نہیں بلکہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دوسرے بندے تک پہنچ جاتا ہے
ایس ایم ایس کی اس ایجاد کو آج 30 سال مکمل ہوگئے موجودہ عہد کی اہم ترین
ایجاد جس کے بغیر اب بیشتر افراد کو اپنی زندگی نامکمل محسوس ہوتی ہے جی
ہاں ٹیکسٹ میسج بھیجنے کی سہولت کو 30 برس مکمل ہوگئے ہیں۔شارٹ میسج سروس
جسے ایس ایم ایس کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے کی دنیا بھر 30 ویں سالگرہ
منائی گئی ہے 3 دسمبر 1992 کو دنیا کا پہلا ایس ایم ایس برطانیہ میں بھیجا
گیا تھا اس پہلے میسج میں نیل پاپ ورتھ سیما گروپ کے ایک ٹیسٹ انجینئر نے
ساتھی رچرڈ جارویس کے اوربیٹل 901 فون پر ''میری کرسمس'' بھیجا تھا جو اسے
موصول ہوا تھا یہ میسج کمپیوٹر کے ذریعے ٹائپ کر کے ارسال کیا گیا تھا
کیونکہ اس وقت تک ٹیلی فون میں کی بورڈ کی سہولت نہیں تھی جسکے بعدبتدریج
160 حروف پر مشتمل ایس ایم ایس کا استعمال عام ہوگیا تھا اور ایک وقت ایسا
بھی آیا جب صارفین روزانہ اربوں ایس ایم ایس بھیجنے لگے بلا شبہ پہلا ایس
ایم ایس 1992 میں ارسال کیا گیا مگر اس کا تصور 1980 کی دہائی کے شروع میں
سامنے آیا تھاجسے موبائل فون پر اسے بھیجنے میں کئی سال لگے۔1994 میں نوکیا
2010 نامی ماڈل کے متعارف ہونے کے بعد ایس ایم ایس کا استعمال زیادہ ہونے
لگا کیونکہ اس میں آسانی سے پیغام تحریر کرنا ممکن تھا 90 کی دہائی کے
موبائل فونز میں نمبروں والے کی بورڈ ہوتے تھے اور ہر نمبر کے ساتھ 2 یا 3
انگلش حروف منسلک ہوتے تھے۔مثال کے طور پر C لکھنے کے لیے 1 کے ہندسے کو 3
بار ٹائپ کرنا پڑتا تھااب ایس ایم ایس کی سروس واٹس ایپ اور ایسی دیگر ایپس
کے سامنے دم توڑتی جارہی ہے مگر گوگل کی جانب سے اسے نئی زندگی دینے کی
کوشش جارہی ہے ایس ایم ایس کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل کی جانب سے
میسجز ایپ میں گروپ چیٹس کے لیے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن فیچر کے اضافے کا
اعلان بھی کیا گیایہ فیچر انفرادی چیٹس کے لیے تو پہلے سے دستیاب تھا مگر
اب گروپ چیٹس کے لیے اسے متعارف کرایا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ گوگل نے یہ
اعلان بھی کیا ہے کہ میسجز ایپ میں صارفین بہت جلد پیغامات پر کسی ایموجی
کے ذریعے ری ایکشن کا اظہار کرسکیں گے مختصر پیغام یاپیغام رسانی جسے عام
طور پر ایس ایم ایس کہا جاتا ہے زیادہ تر ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل
ڈیوائس سسٹم کا ٹیکسٹ میسجنگ سروس کا جزو ہے یہ معیاری مواصلاتی پروٹوکول
استعمال کرتا ہے جو موبائل آلات کو مختصر ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ کرنے
دیتا ہے ایس ایم ایس ٹیکنالوجی ریڈیو ٹیلی گرافی سے ریڈیو میمو پیجرز میں
شروع ہوئی جو معیاری فون پروٹوکول استعمال کرتی تھی جسکی کی تعریف 1986 میں
گلوبل سسٹم فار موبائل کمیونیکیشنز (GSM) سیریز کے معیارات کے حصے کے طور
پر کی گئی تھی ایس ایم ایس بہت سے سیلولر نیٹ ورکس پر تجارتی طور پر شروع
ہوا جس نے ٹیکسٹ کمیونیکیشن کے طریقہ کار کے طور پر دنیا بھر میں بے حد
مقبولیت حاصل کی 2010 کے آخر تک SMS سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ڈیٹا
ایپلی کیشن تھی ایک اندازے کے مطابق 3.5 بلین فعال صارفین یا تمام موبائل
فون صارفین کا تقریباً 80 استعمال تھایہ سروس صارفین کو 160 حروف تک کے
پیغامات GSM موبائل پر بھیجنے اور وصول کرنے کی اجازت دیتی ہے 2013 میں
عالمی ایس ایم ایس پیغام رسانی کے کاروبار کی مالیت کا تخمینہ 240 بلین
امریکی ڈالر سے زیادہ تھا جو موبائل پیغام رسانی سے حاصل ہونے والی تمام
آمدنی کا تقریباً نصف تھا ہے اب وٹس ایپ نے اس پیغام رسانی میں مزید جدت
پیدا کردی ہے اور جو قربت کے دور ہوا کرتے تھے اسے دوریوں میں تبدیل کردیا
گاؤں میں اب نہ سینا نائی نظر آتا ہے اور نہ ہی ڈیرے داریاں رہ گئی اس ترقی
نے جہاں دوریاں ختم کردی وہیں پر دوریاں بھی پیدا کردی ہم پرانے دور کے حق
میں تو نہیں مگر پرانے لوگوں کی قدر ضرور کریں جن کے پاس معلومات کا خزانہ
ہے وہ بھی اپنوں کا۔
|