موہن بھاگوت : بھارت وشوگروتو بنے مگر سپر پاور نہیں

ہندی کی اصطلاح ’وشو گرو‘کا قریب ترین انگریزی ترجمہ’سپر پاور‘ہے۔ اس لیے ہندوستان کے وشو گرو بننے کا مطلب سپر پاور بننا ہی ہے۔ ایک سال قبل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے چھتیس گڑھ کے منگیلی ضلع میں منعقدہ گھوش کیمپ کی اختتامی تقریب میں کہا تھا کہ وشو گرو بھارت کی تعمیر کے لیے ہم سب کو مل کرچلناہوگا ۔ سبھی لوگوں اس کو سپر پاور بننے کی ترغیب سمجھا ۔وہاں موجود شرکاء کو اپنے آباؤ اجداد کی تعلیمات کی یاددہانی کے بعد وہ بولے تھے کہ’’ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم بھارت کوعالمی گرو بنانے کے لیے ہم آہنگی اور تال میل کے ساتھ آگے بڑھیں گے جو پوری دنیا کو امن اور خوشی دیتاہے‘‘۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے امسال مئی میں بنگلوروکے اندر نروپا تھنگا یونیورسٹی کا افتتاح کرتے وقت نوجوان نسل پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت کووِشوگرو بنانے کے لیے اپنی طاقت کو بروئے کار لائیں۔ آزادی کا امرت مہوتسو وہ موقع ہے جب ہماری اگلی نسل کو2047 تک جبکہ آزادی کے 100 سال پورے ہوں گے، ملک کو عالمی سطح پر سرفہرست لےجانے کا پختہ عزم کرنا چاہئے۔
وزیر داخلہ اورسر سنگھ چالک سے ایسے ہی پرجوش بیانات کی توقع ہوتی ہے لیکن ایک سال کے بعد موہن بھاگوت بھول گئے کہ انہوں نے پچھلے سال کیا کہا تھا اور اس کے متضاد بیان دے کر عوام و خواص کو چونکا دیا۔ بہار کے سارن ضلع میں ملکھا چک گاوں کے اندر مجاہدین آزادی کی پذیرائی کے لیے منعقد کی جانے والی ایک تقریب میں انہوں نے کہا دنیا کے لوگ کہہ رہے ہیں ہندوستان سپر پاور بننے جارہا ہے۔ میں کہہ رہا ہوں ہوں ہندوستان کو سپر پاور بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تضاد بیانی سے قطع نظر تحریک آزادی کی یاد میں منعقد کی جانے والی تقریب میں موہن بھاگوت کو بلایا جانا خود اپنے آپ میں ایک بھیانک تضاد ہےکیونکہ آزادی کی جدو جہد میں آر ایس ایس نےمثبت کردار اداکرنے کے بجائےانگریزوں کو فائدہ پہنچایا تھا اس کے باوجود وہ ضلع سارن کے تاریخی ملکھا چک گاوں میں کیوں پہنچ گئے ۔

سر سنگھ چالک نے ملکھا چک گاوں کے تحریک آزادی میں بڑے کردار کی تعریف و توصیف کرنے کے بعد فرمایا وہاں پر نرم اور گرم دونوں قسم کی جماعتوں کے مجاہدین نے آزادی کی حکمت عملی بنائی تو خود اپنی تاریخ سے ناواقف سنگھ کے پرچارک امید کررہے تھے کہ وہ کہیں گے کانگریس کے نرم اور سنگھ یا کم ازکم ہندو مہا سبھا کے گرم لوگوں کا اس سرزمین سے تعلق رہا ہے لیکن وہ دیانتداری سے بولے مہا تما گاندھی اور بھگت سنگھ بھی یہاں آچکے ہیں۔ اس کا مطلب گاندھی جی نرم دل اور بھگت سنگھ گرم دل کے نمائندے تھے۔ سنگھ تو گاندھی جی کا اس قدر بڑا دشمن ہے کہ آج بھی ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہےلیکن بھگت سنگھ بھی اشتراکی نظریات کے حامل تھے جس کو یہ لوگ ملک کا دشمن سمجھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سنگھ یا مہا سبھا کے لوگ اس انقلابی گاوں کے قریب کیوں نہیں پھٹکے ؟ تحریک آزادی کے دوران وہ کیا کررہے تھے؟؟ اور اگر اس وقت وہ لوگ اس سے دور رہے تو آج وہاں کیا کررہے ہیں ؟؟؟ کیا یہ مگر مچھ کے آنسودوسروں کی قربانی پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا نہیں ہے ؟؟؟؟

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار نے اپنی سماجی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا اور سنا ہے جیل بھی گئے۔ اس کے بعد غالباً انہیں کانگریس کے ساتھ آزادی کی جنگ میں شامل ہونے کے خطرات کا اندازہ ہوگیا ۔ اس زمانے میں کانگریس کے بطن سے نکلی ہوئی سبھاش چندر بوس کی فارورڈ بلاک بھی موجود تھی ۔ اس میں شمولیت کانگریس سے بھی زیادہ پر خطر تھی کیونکہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جدو جہد کی قائل تھی۔ سبھاش بابو تو برطانیہ کےعالمی دشمنوں سے تعاون لینے کی خاطر آزاد ہند فوج بنائی تھی ۔ انہوں نے جلاوطن حکومت قائم کرنے کا جرأتمندانہ فیصلہ بھی کیا تھا ۔ ڈاکٹر ہیڈگیوار کے سامنے ہندو مہاسبھا کا متبادل بھی موجود تھا جس کے رہنما ونایک دامودر ساورکر کو حکومت برطانیہ اشتعال انگیزی کے الزام میں جیل بھیجا تو وہ نہ صرف معافی مانگ کر باہر آگئے بلکہ تاحیات وفاداری کا عہد کرلیا اور وظیفہ پاتے رہے۔ مسلم لیگ دستوری دلائل کی بنیاد پر نئے ملک کو قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی ۔ ایسےمیں ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ہندووں کی تہذیب و ثقافت کےتحفظ کی خاطر بے ضرر غیر سیاسی تنظیم قائم کی ۔

آریس ایس کا قیام انگریزوں کے لیے دو طرح سے مفید و معاون تھا۔ اول اس کے ذریعہ ہندو سماج کا ایک بااثر طبقہ آزادی کی جنگ سے بلاواسطہ کنارہ کش ہوجاتا تھا ۔ اس کا دوسرا فائدہ انگریزوں کی کاٹو اور بانٹو والی حکمت عملی کا فروغ تھا ۔ یہی وجہ ہے انگریزی سامراج نے آر ایس ایس کے کام میں کبھی رکاوٹ پیدا نہیں کی بلکہ در پردہ حمایت کی۔ آزادی کے بعد ان لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر جن سنگھ بنائی لیکن جب محسوس ہوا کہ محض خدمت خلق کے ذریعہ انتخابی کامیابی ممکن نہیں تو فرقہ وارانہ تنازعات مثلاًیکساں سیول کوڈ ، گئو کشی پر پابندی ،آئین سے کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ اور رام مندر جیسے مسائل اٹھائے گئے۔ مودی یگ میں وہ سب ایک ایک کرکے ختم ہوتے جارہے ہیں ۔ رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی ہے اس لیے وہ سیاسی مدعا نہیں رہا۔ گئوکشی پر جس خطے میں سیاست کی گئی تھی وہاں قانون بن گیا اور اس سے کسانوں کے لیے مسائل پیدا ہوگئے۔ کشمیر کی دفعہ370 ختم ہوجانے کے باوجود وہاں سے تشدد کی بیخ کنی نہیں ہوسکی اور اب تو لداخ اور جموں سے بھی اس کی بحالی کا مطالبہ ہورہا ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کے معاملےکو بی جے پی ریاستی سطح پر چلا کر ووٹ بٹور رہی ہے۔

ملکھا چک گاوں کے اندرمذکورہ تقریب کا اہتمام 300 سے زیادہ مجاہدین آزادی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی خاطر کیا گیا تھا ۔ موہن بھاگوت کے پاس ان تمام لوگوں کی پذیرائی کے لیے اب بھی حسبِ ضرورت وقت نہیں تھا اس لیے وہ مجاہدین آزادی کے چند خاندانوں کو اعزاز دے کر دربھنگہ کے کسی تنظیمی پروگرام میں شرکت کے لیے نکل گئے ۔ اس کے بعد مرکزی وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ نتیا نند رائے اور بہار اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما وجے کمار سنہا نے آخری رسومات ادا کیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنگھ کو ماضی کی طرح اب بھی تحریک آزادی کے اندر دلچسپی نہیں ہے۔ فی الحال چونکہ اپنی سرکار ہے اور آزادی سے متعلق بھاشن بازی میں کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے سیاسی فائدے کے لیے یہ ہورہا ہے۔

موہن بھاگوت نے اپنے خطاب میں یہ انکشاف بھی کیا کہ وہاں دونوں (نرم اورگرم) نظریات کے لوگوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ وہاں کے نوجوانوں نے دونوں پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرکے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہندوتوا نواز بھی وہاں جاتے تو ان کے ساتھ بھی کچھ نوجوان جڑ سکتے تھے لیکن یہ لوگ وہاں پھٹکے ہی نہیں کیونکہ طاقتور اقتدار کے سامنے الم بغاوت بلند کرنا ان بیچاروں کے ڈی این اے میں ہے ہی نہیں ۔ ملکھا چک گاوں سے جاتے جاتے بھاگوت نے اس زمین پر اپنی آمد کو خوش قسمتی سے تعبیر کیا لیکن کاش کے سنگھ کے لوگ اس وقت وہاں جاتے جب آزادی کی جدوجہد جاری تھی اور اس کے لیے جان و مال قربانی دی جارہی تھی لیکن بزدل ہندوتوا نوازوں سے اس کی توقع کرنا ہی غلط ہے۔

سر سنگھ چالک کے خطاب کا سب سے اہم حصہ ہندوستان کے سوپر پاور بننے سے متعلق تھا ۔ ان کے پاس اس کے غیر ضروری ہونے کی دلیل یہ تھی کہ جو بھی ملک سپر پاور بنا ہے اس نے دوسرے ممالک پر ڈنڈا چلایا ہے۔ ڈنڈے سے یاد آیا کہ سنگھ کی شاکھا میں بھی تو لاٹھی چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ موہن بھاگوت کو بتانا چاہیے کہ وہ تربیت اگر ڈنڈا چلانے کے لیے نہیں دی جاتی کیا صرف دکھاوے کی خاطر کی جاتی ہے؟ موہن بھاگوت کے مطابق کسی سپر پاور نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ انہوں نے بتایا پہلے روس لاٹھی چلاتا تھا ، اب امریکہ چلا رہا ہے اور چین بھی یہی کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح امریکہ کی اجارہ داری کے خاتمے کا اشارہ کرکےانہوں نے گویا چین کو مستقبل کے سپر پاور کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ۔

موہن بھاگوت نے یہ انکشاف بھی کیا کہ یوکرین کی سرزمین پر امریکہ اور روس کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس بات کو اگر درست مان لیا جائے اس کا مطلب ہوگا کہ جس طرح یوکرین کو امریکہ اپنے مقاصد کی خاطر روس کے خلاف استعمال کررہا ہے اسی طرح مستقبل میں چین اور امریکہ کے تصادم میں ہندوستان کو بلی کا بکرا بنایا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر خدا نخواستہ ایسا ہوگیا تو اس وقت ہندوستانی عوام بھی یوکرینی لوگوں کے مانند پریشان ہوں گے۔ ایسے میں سنگھ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو درست حکمت عملی سجھائے لیکن شاید مودی جی ان کی سن کر نہیں دیتے۔ دنیا میں بھکمری ، غربت اور صحافتی آزادی جیسے مختلف جائزوں میں پچھڑنے والے مودی جی کے نئے ہندوستان کا سپر پاور بننا ویسے بھی محال ہے اس لیے سپر پاور نہیں بننے کا مشورہ انگور کھٹے والی بات بھی ہوسکتی ہے۔ اپنے بیان کا منشاء تو سر سنگھ چالک ہی واضح کرسکتے ہیں۔ ویسے ان کے متضاد بیانات سے گمان ہوتا ہے؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1216659 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.