اس وقت پورا ملک منہ میں انگلیاں
دبائے ایک بار پھر ٹی وی کے آگے بیٹھا ہے، لوگ ”اوپن سیکرٹس“ کے اس طرح
اظہار پر نہ صرف ششدر ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشان ہیں۔ کیا کوئی سوچ
سکتا ہے کہ وہ ذوالفقار مرزا جو آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کا اتنا بڑا
شیدائی بھی ہے، زرداری کو اپنا باپ بھی مانتا ہے، صدر زرداری کا احسان مند
بھی ہے لیکن صدر زرداری اور حکومت کے ناک کے بال اور اس طوطے کے بارے میں
کہ جس کے اندر حکومت کی جان سمجھی جاتی ہے، میڈیا پر برسر عام ایسے الزامات
عائد کرسکتا ہے، نہیں ہرگز نہیں، نہ میرا دل مانتا ہے نہ کسی اور ذی شعور
پاکستانی کا، کسی کا بھی ذہن کسی بھی صورت یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ
صدر زرداری کی آشیر باد کے بغیر ذوالفقار مرزا ایسی باتیں کہہ سکتا ہے جو
اس نے پریس کانفرنس میں کہہ ڈالی ہیں۔
ذوالفقار مرزا نے ویسے تو کچھ نیا نہیں کہا، پاکستان کے مقتدر حلقے، اخبار
نویس اور معتبر لوگ کہ جن کے پاس اکثر اندر کی باتیں کسی نہ کسی طرح پہنچ
جاتی ہیں وہ عرصہ دراز سے ایسے الزامات اور حقائق کے بارے میں جانتے ہیں،
نئی بات البتہ یہ ہے کہ میڈیا پر آکر ایسی بہادری اور دیدہ دلیری سے ایسا
سب کچھ کوئی اور نہ کہہ سکا اور یہ تمغہ جرات بھی بالآخر ذوالفقار مرزا کے
ماتھے کا جھومر بن گیا۔ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناءپر ذوالفقار مرزا
نے قرآن سر پر اٹھا کر ، شائد ”سچ کی گولیاں“ کھاکر سب کچھ کہہ ڈالا۔ رمضان
کے مہینے میں، روزے کے ساتھ اگر کوئی مسلمان قرآن اٹھاتا ہے تو باقی
مسلمانوں کو اس پر یقین کرنا چاہئے، یقین نہ کرنے کی کوئی وجوہات بھی نہیں
ہیں کیونکہ ذوالفقار مرزا صدر زرداری کے بچپن کے دوست، سپیکر قومی اسمبلی
کے شوہر نامدار ہیں اور سندھ کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بیک وقت
تین عہدوں سے استعفے دئے ہیں، صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے، سینئر وزیر سے
اور سینئر نائب صدر پیپلز پارٹی سندھ سے، مزے کی بات یہ ہے کہ سید قائم علی
شاہ جو اس وقت وزیر اعلیٰ اور پیپلز پارٹی سندھ کے صدر بھی ہیں، انہوں نے
مرزا صاحب کے تمام استعفے منظور بھی کرلئے ہیں۔ مرزا صاحب کے پاس یقینا
معلومات کا ایک خزانہ ہے جس کا منہ انہوں نے ایسے کھول دیا ہے جیسے پٹاری
سے سانپ نکالا جاتا ہے، اب دیکھیں یہ سانپ کس کس کو ڈستا ہے یا مرزا صاحب
سے کوئی بڑا سپیرا اس ناگ کو دوبارہ سے پٹاری میں بند کرنے میں کامیاب
ہوجاتا ہے، یہ آنے والے چند دنوں میں ظاہر ہونے والا ہے۔
ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنس اور بعدازاں میڈیا سے بات چیت کے دوران ہی
مختلف قسم کے رد عمل سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں جن میں سے کچھ سنجیدہ اور
کچھ یقینا غیر سنجیدہ ہیں۔ رحمان ملک نے ان کو اپنا چھوٹا بھائی قرار دیتے
ہوئے کہا ہے کہ مرزا صاحب غصے میں کچھ بھی کہہ دیتے ہیں اس لئے وہ ان کی
بات کا برا نہیں مانتے اور یہ کہ ان کی کارکردگی عوام دیکھ رہے ہیں۔
ذوالفقار مرزا نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لعنت بھیجتے ہیں ایسے بڑے
بھائی پر۔ پاکستان کے عوام مرزا صاحب کی جانب سے رحمان ملک پر بھیجی جانے
والی لعنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی سوچتے
ہیں کہ لعنت کے حقدار تو یقینا بہت سے دوسرے حکومتی زعماء بھی ہیں جنہوں نے
رحمان ملک کو کراچی میں قتل عام کا ٹھیکہ دے رکھا ہے، وہ مقتدر حلقے بھی
لعنت کے حقدار ہیں جنہوں نے رحمان ملک کو وزیر داخلہ بنا رکھا ہے اور جو ان
”خدمات“ کے اعتراف میں انہیں تمغوں سے نواز رہے ہیں، رحمان ملک شائد لعنت
کو بھی اپنے لئے ”تمغہ“ ہی خیال کررہے ہیں، لعنت کا تمغہ اور وہ بھی ماہ
رمضان المبارک میں، اس کا ”مزا “ ہی دو آتشہ ہے۔
عام پاکستانی بالعموم اور کراچی کے درد دل رکھنے والے پاکستانی بالخصوص یہ
سوچ رہے ہیں کہ ذوالفقار مرزا کی حالیہ پریس کانفرنس کا مقصد کیا ہے، وہ
کیا بات ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر رحمان ملک اتنا برا شخص ہے (پاکستان کے
عوام کو ویسے اس بات میں کوئی شک بھی نہیں) تو وہ صدر زرداری کا دست راست
کیوں ہے، وہ بینظیر بھٹو کے اتنا نزدیک کیوں تھا، بینظیر بھٹو ہر معاملہ
میں رحمان ملک کو ساتھ کیوں رکھتی تھیں، بقول شاہین صہبائی کیا رحمان ملک
کے پہلے بینظیر بھٹو اور اب زرداری سے کاروباری تعلقات ہیں یا رحمان ملک کے
پاس ایسی گرانقدر معلومات ہیں جن کے افشاءہونے سے ڈر کر اسے ساتھ رکھنا
مجبوری ہے؟ وہ رحمان ملک جس کی نہ کوئی جائیداد سندھ میں ہے، نہ کوئی
کاروبار سندھ میں ہے، نہ اس کا سندھ کی دھرتی سے کوئی اور تعلق ہے تو اس کو
پیپلز پارٹی نے سندھ سے سینیٹر کیوں بنوا رکھا ہے؟ آخر کوئی تو وجوہ ہوں گی
جو رحمان ملک کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایک اور رائے یہ ہے کہ رحمان
ملک چونکہ آئی ایس آئی کا بندہ ہے اس لئے ذوالفقار مرزا کے ذریعہ سے صدر
زرداری نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ نپا تلا داﺅ
آزمایا ہے۔ پہلی بات یہ کہ رحمان ملک کے آئی ایس آئی کے ساتھ تعلقات کی وجہ
سے اسے نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ آئی ایس آئی اور فوج ”بیک فٹ“ پر چلی جائے،
دوسری بات یہ کہ سندھ میں قوم پرستوں نے جو بھرپور اور موثر ہڑتال کی تھی
اور جس کی وجہ سے پورے ملک کے ساتھ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کا گراف کافی
نیچے آچکا تھا اس کا توڑ کیا جاسکے اور اس میں وقتی طور پر انہیں کامیابی
بھی حاصل ہوگئی ہے اور اندرون سندھ ذوالفقار مرزا کی جے جے ہونا شروع ہوگئی
ہے، یاد رہے کہ سندھی قوم پرستوں سے آج کل مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز
شریف کے بھی بڑے قریبی رابطے اور تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ
کراچی اور حیدر آباد میں ایک اور فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی جاسکے تاکہ
آئندہ الیکشن میں ایک بار پھر ایم کیو ایم بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوجائے
اور راوی چین ہی چین لکھنا شروع کردے کیونکہ متحدہ نے حکومت میں آنے جانے
اور قلابازیاں لگانے سے اپنا تاثر کافی حد تک پہلے ہی خراب کرلیا ہوا ہے
اور اگر فوج کی موجودگی میں صاف اور شفاف الیکشن ہوتے ہیں (صاف اور شفاف
صرف اس حد تک کہ نہ تو فرشتے ووٹ ڈال سکیں اور نہ گن پوائنٹ پر ووٹ ڈلوائے
جائیں)تو یقینا متحدہ کراچی اور حیدر آباد میں اس طرح کلین سویپ نہیں کرسکے
گی جیسا اس کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
کچھ سنجیدہ حلقے یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ کہیں ذوالفقار مرزا نے اس پتلی
تماشے کے آخری ایکٹ کا اغاز تو نہیں کردیا جس کا انجام (خاکم بدہن) پاکستان
کے ٹکڑے کرنے کی مذموم سازش ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کے بھرپور
معدنی وسائل کی وجہ سے امریکہ اور اس کے حواری جس سازش پر کام کررہے ہیں
اسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر سب کچھ ”سٹیج“ کیا جارہا ہے؟ کیونکہ
یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے
شاندار وسائل سے نوازا ہے کہ اگر ہم اپنی سمت صحیح کرلیں تو ہمارا ہاتھ
”نیچے“ سے دنوں میں ”اوپر“ آجائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ کراچی کے آس پاس زیر
سمندر تیل کے اتنے وسیع ذخائر موجود ہیں کہ ہماری ضروریات کے لئے عرصہ دراز
تک بہت کافی ہیں، تھر میں ایسا شاندار کوئلہ موجود ہے جس سے ہم ہزاروں سال
تک بجلی اور ڈیزل پیدا کرسکتے ہیں، وزیرستان میں بھی تیل و گیس کے وسیع
ذخائر موجود ہیں، بلوچستان میں دنیا کے بہترین سونے اور تانبے کے ذخائر
ہماری راہ تک رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ انہی وسائل کی وجہ سے پوری
دنیا امریکہ کی سربراہی میں ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہے جبکہ ہمارے سیاسی
راہبران راہزنوں کا بھیس دھار چکے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ذوالفقار مرزا
کی اس چال کے بعد کراچی میں آگ و خون کی وسیع ہولی کا آغاز مطلوب ہو تاکہ
اس ڈرامے کا جلد از جلد ڈراپ سین ہوجائے؟ تاکہ کراچی کو باقی ملک سے کاٹ کر
ایک علیحدہ ”کھلا شہر“ بنا دیا جائے جہاں امریکہ کے کٹھ پتلی اور براہ راست
ملازم لوگ حکومت کریں تاکہ پاکستان کو دفاعی اور اقتصادی طور پر ختم کیا
جاسکے اور کم از کم فوری طور پر کراچی کے ساحلوں کا تیل نکالا جاسکے۔ مجھے
ڈر لگتا ہے، ہر اس پاکستانی کے دل میں ڈر سما چکا ہے جو تنہائی میں سوچتا
اور کڑھتا ہے، جو کبھی کراچی کے معصوموں کے لئے آنسو بہاتا ہے تو کبھی سرحد
اور فاٹا کے بے گناہوں کے لئے، کبھی پنجاب اور کبھی بلوچستان و کشمیر کے
مظلوموں کے لئے، ہم ڈر رہے ہیں کہ اگر اس وقت بھی پاکستان کے عوام نے،
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور محب وطن لیڈروں نے، اعلیٰ عدلیہ، چیف جسٹس
اور آرمی چیف نے کچھ نہ کیا، سب دیکھتے ہی رہے تو اس ڈرامے میں مزید رنگ
بھرے جاتے رہیں گے، کٹھ پتلیاں اپنا کام کرجائیں گی.... خدانخواستہ....
لیکن مجھے یقین ہے کہ کوئی اور سمجھے یا نہ سمجھے، کوئی اور جاگے یا نہ
جاگے، کوئی اور اٹھے یا نہ اٹھے، اس ملک کے وہ جوان ضرور اٹھ کھڑے ہوں گے
جو اپنے بزرگوں سے شاکی ہیں، اس ملک کے وہ محب وطن ضرور غفلت کی نیند سے
جاگیں گے جنہوں نے ماضی میں غلط لوگوں کو مسند اقتدار تھما دی تھی، چیف
جسٹس پہلے ہی از خود نوٹس لے چکے ہیں، آرمی چیف کو بھی نوٹس لینا پڑے گا،
اگر ذوالفقار مرزا کی باتوں میں سچائی اور وزن ہے تو ہر اس شخص کو قانون کے
کٹہرے میں لانا ہوگا جس نے حالات کو بگاڑنے اور بدیسی قوتوں کو کھل کھیلنے
کے لئے مواقع فراہم کئے، کسی کو معاف نہیں کیا جانا چاہئے، ذوالفقار مرزا
کو بھی نہیں، کیونکہ اگر انہوں نے ساری باتیں سچی کی ہیں تو آج سے پہلے وہ
کہاں تھے، وہ اس سے قبل بھی الزام لگا کر معافیاں مانگ چکے ہیں، اگر
الزامات درست تھے تو کیسی معافی؟ میرا اپنی قوم سے، نوجوانوں سے پرزور
مطالبہ ہے کہ خدارا اب بھی ہوش کے ناخن لے لو، جاگ جاﺅ، اب نہیں تو کب جاگو
گے؟ |