ریلوے کی زبوں حالی

پاکستان ریلوے کی حالت زار سرکار کے دیگر محکموں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی خستہ حال ہے۔ کرپشن کی فراوانی اور ارزانی نے ریلوے کو آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ریلوے پاکستان کا واحد رسد اور نقل حرکت کا وہ واحد ادارہ ہے جس نے ملک بھر کے دیہی قصبوں چھوٹے شہروں کو بڑے شہروں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔1990 کی دہائی میں 10 لاکھ مسافر روزانہ ٹرینوں کے زریعے سفر کرتے تھے۔بسوں کے مقابلے میں گاڑیوں کا کرایہ کم جبکہ سہولیات زیادہ تھیں۔ریلوے کسی زمانے میں منافع کمانے والا ادارہ تھا مگر1980 کے بعد ریلوے کو افسر شاہی اور ریلوے کی کرپٹ کنگ بیوروکریسی نے سفاکانہ انداز میں لولا لنگڑا کیاکہ آج تک اسکی کمر سیدھی نہ ہوسکی۔درجنوں مسافر گاڑیوںں اور مال بردار بوگیوں کے انجن ہمیشہ کے لئے بند ہوچکے۔محکمہ فنانشلی طور پر دیوالیہ ہوگیا ہے۔ ریلوے کھربوں کے قرضوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ ہر سال اربوں روپے کا خسارہ وبال جان بن چکا ہے۔ اگر پاکستان کے پردھان منتری گیلانی ایک ماہ قبل ریلوے کے منہ میں پانچ ارب کی گرانٹ کا دانا نہ ڈالتے تو کوئی گاڑی لائنوں پر خراماں خراماں محو پرواز نہ ہوتی۔ریلوے کی مغلیہ بیوروکریسی کے شاہانہ ٹھاٹھ بھاٹ دیکھ کر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ریلوے کی آمدنی کا سترفیصد افسران کے شکم کے جوف جہنم میں چلا جاتا ہے۔ریلوے کی زبوں حالی اور بربادی کے نوحے دیکھنے و سننے کے باوجود کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔درویش نے درست کہا ہے کہ اگر میر کاروں کے دل سے احساس زیاں مفقود ہوجائے تو ایک طرف نہ صرف پورا کارواں رک جاتا ہے تو دوسری طرف بانگ درہ مدھم پڑجاتی ہے۔تنزل پزیری کے دور سیاہ میں دور دور تک روشنی کے آثار دکھائی نہیں دیتے کہ پاک ریل کاکارواں پھر سے جادہ و پیما بن جائے۔ پاکستان میں پہلی ریلوے لائن1861 میں کراچی سے کوٹری تک بچھائی گئی۔ دونوں عالمی جنگوں میں برٹش سرکار نے پاکستان کے کونے کونے میں ریلوے لائنیں بچھادیں۔یہ سسٹم جنگی اور دفاعی نقطہ نظر کی روشنی میں قائم کیا گیا۔ ریلوے ملکی سلامتی کے لئے ناگزیرہے۔گاڑیوں کے بغیر کوئی جنگ جیتنا ناممکن ہے۔دفاعی ماہرین نے ریلوے کی بربادی پر درجنوں نوحے اور مرثئیے لکھ ڈالے۔انکی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ چند خفیہ عناصر ریلوے کے vvip سیلون میں سفر کرنے والے میر جعفر اور میر صادق جان بوجھ کر ریلوے کا جنازہ نکالنے کی راہ پر گامزن ہیں تاکہ افواج کو کسی معرکے میںmobilization سے محروم کردیا جائے۔ جہاں تک ریل اور جنگ کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ قوانین اور اصول ہائے ازل سے ابد تک وہی رہیں گے۔ جنگ و جدال میں فتح کے پھریرے لہرانے کے لئے ریلوے کی افادیت مسلم ہے۔یوں تو سمندروں فضاوں اور زمینی راستوں سے نقل و حمل کے درجنوں زرائع موجود ہیں مگر ریل گاڑیوں کی اہمیت سے سرمو انکار نہیں کیا جاسکتا؟ گو کہ پاکستانی فورسز ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی سے لیس ہوچکی ہیں۔ہماری افواج روائتی جوانوں اور سامان حرب و ضرب سے مسلح ہے۔فضائی اور نیول فورس کے مقابلے میں بری افواج کا حجم بہت ہی زیادہ ہے۔ پاکستان کو آگے چل کر اگر جنگ ایسی ناگہانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو نقل و حمل کے وہی کلیے استعمال ہونگے جو دوسری جنگ عظیم کا خاصہ تھے۔گراونڈ فورسز کو اگلے محازوں تک لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے میں نصف سے زائد حصہ ریلوے کا ہوگا۔ ریلوے کی بنجر و بانجھ بنی ہوئی حالیہ پوزیشن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اب کسی محاز پر فورسز کے لئے لاجسٹک ایڈ کا فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں کالونیل دور میں ریلوے کا نظام قائم ہوا۔گوروں نے ایک سرے سے دوسرے تک لائنوں کا جال بچھادیا جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ریل سسٹم تھا۔گوروں نے ایک طرف شمالی سرحدی علاقوں سے لیکر تفتان چمن اور لنڈی کوتل کے دشوار ترین پہاڑی راستوں کا سینہ چیر کر ریلوے کو وسعت دی تو دوسری جانب چمن سے نوشکی اور تفتان تک کے لق دق صحراؤں میں پانچ سو کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھا کر انکھوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔۔ماضی کے صفحات پر درجنوں ایسی لازوال داستانیں نقش پا ہیں جن میں ریل گاڑیوں نے جنگی میدان میں جیت کے نقارے بجائے۔پہلی جنگ عظیم1914 میں شروع ہوئی۔ جرمنی کائنات کا پہلا ملک ہے جس نے ایک طرف جنگوں میں ریلوے کو وسیع العریض پیمانے پر استعمال کیا تو دوسری جانب نازی دور میں ہیءنقل و حرکت کے لئے ریلوے کو ملٹری لاجسٹک سائنس کا درجہ مل گیا۔ نازی دور میں جرمنی کے چیف اف ارمی سٹافmoltikay اور اسی پوزیشن پر تین دہائیاں فائز رہنے والے جرمن آرمی چیف نے جنگی نقطہ نظر سے پورے ملک میں ریل لائنوں کا جال بچھادیا۔جرمنی نے فرانس کو1871 میں عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔جرمنی کی فتح ریلوے کے منظم نظام کا شاخسانہ تھی۔ امریکہ پہلا ملک ہے جس نے1861تا1865 تک ہونیوالی خانہ جنگی میں ریلوے کو فوجیوں اور اسلحے کی مال برداری کے لئے استعمال کیا اور تمام مطلوبہ اہداف حاصل کرلئیے۔ لاجسٹک سپورٹ کے بغیر جنگ جیتنے کے خواب دیوانے کی بڑ تو ہوسکتے ہیں کسی سپہ سالار کی منصوبہ بندی نہیں۔راشن اسلحہ ایندھن تیل جنگی پرزہ جات کنسٹرکشن میٹریل اور دیگر بنیادی ضروریات کے بغیر کوئی فوج زیادہ دیر تک میدان جنگ میں ٹک نہیں سکتی۔اگر لاجسٹک سپورٹ بحری جہازوں سے کی جائے تو یہ میدان جنگ کی بجائے ساحلوں پر پہنچتی ہے فضائی راستہ انتہائی مہنگا پڑتا ہے۔ ناٹو اور ایساف کو افغانستان میں ریلوے نظام کی عدم موجودگی سے مطلوبہ فوجی اہداف نہ مل سکے۔کابل میں ناٹو کے لئے لاجسٹک سپورٹ پاکستان کے زمینی راستوں سے پہنچائی جاتی ہے۔طالبان جنگجو ہزار ہا امریکن ٹینکرز کو منزل مقصود سے قبل آگ کے سپرد کرچکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اگر افغانستان میں ریلوے کا سٹرکچر موجود ہوتا تو ناٹو کو ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔اگر مستقبل میں پاکستان کا پالا جنگی صورتحال سے پڑا تو یہ روائتی دشمن روائتی ہتھیاروں اور روائتی طریقہ ہائے جنگ پر مشتمل ہوگی۔اگلے مورچوں پر گولہ بارود ایندھن راشن اور فوجی یونٹوں کو جنگی ایریا تک پہنچانے کے لئے ریل گاڑیوں کا کردار اظہر من التمش ہوگا۔پاکستان کا روبہ زوال ریلوے سسٹم ارباب اختیار کو چیخ چیخ کر اپنی بربادی کا ماتم کررہا ہے۔حکومت کب تک ریلوے کے لاغر ڈھانچے کو سہارا دیتی رہے گی؟ سو ڈیڈھ سال قبل قائم کی جانیوالی پٹڑیاں کب تک گاڑیوں کا جبر برداشت کریں گی۔پاک ریلوے ہزاروں ایکڑ زمینوں کی ملکیت کا حامل ادارہ ہے۔ ریلوے کی ہزاروں رہائش گاہیں اور ریسٹ ہاوسز بیکار پڑے ہیں۔شہری علاقوں میں ریلوے کے پاس کھربوں روپے کی کمرشل اراضی ہے جسکا ستر فیصد ناجائز قابضین کے پاس ہے جسے واگزار کروانا سٹیٹ کی زمہ داری ہے۔ حکومت قیمتی اراضی فروخت کرکے ریلوے کو جدید بنیادوں پر استوار کرسکتی ہے۔دوسری جانب ریل پاک ریل کی نجکاری سے ادارے کی منہدم بنیادوں کو استحکام بخشا جانا ممکن ہے۔اگر نجکاری مطلوب نہیں تو پھر ریل کا سارا نظام پاک فوج کے سپرد کردیا جائے۔پاک فوج ایک طرف غریق سمندر ہونے والے ادارے کو مسافروں کے لئے سہل بنانے کی اہلیت رکھتی ہے تو دوسری جانب آرمی دفاعی نقطہ نظر سے ریلوے کی اپ گریڈنگ سے عسکری اداروں کو ناقابل شکست بنانے کا ملکہ رکھتی ہے۔۔یاد رہے اگر ارباب بزجمہرز سیاسی اور فوجی قیادت نے ریلوے کو جدید و سائنسی انداز میں ڈھالنے اور مستحکم کرنے کی زحمت نہ کی تو پھر ہماری ریاستی سلامتی کے انجن کی بریکیں فیل ہوسکتی ہیں۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.