عبوری صوبہ یا گلگت بلتستان کی تقسیم

گلگت بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن اور حکمران جماعت نے متفقہ طور پر بھاری اکثریت سے عبوری صوبہ کی قرار داد 9مارچ 2021کو منظوری کیں۔ قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ آئین پاکستان میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے اور ریاست کے تمام ادارے بشمول ایوان بالا اور زیریں میں مناسب نمائندگی دی جائے ۔ عبوری صوبے کی قرار داد کی مخالفت نواز خان ناجی نے کی ، نواز خان ناجی کے متعلق بس اتنالکھ سکتا ہوں کہ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ قراردادکی کثرت رائے اور باہمی ہم آہنگی سے منظوری ،حکومت اپنی کامیابی تصور کررہی ہے ۔ اپوزیشن او ر حکومتی نمائندوں کا یہی ماننا ہے کہ عبوری صوبہ گلگت بلتستان کی 72سالہ محرومیوں کے اژالے کی جانب پہلا قدم ہے ۔صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان عبوری صوبہ کو خان صاحب کے وژن کی عملی تکمیل گردانتے ہیں اور اپنے وعدوں اور دعووں کی عملی تفسیر قراردے رہے ہیں ۔ صوبائی حکومت عبوری صوبہ کے اس مشن کی تکمیل کو اپنا ہدف اولین سمجھ کر سنجیدگی سے کام کررہی ہے۔ عبوری صوبے کی فائل وزیراعظم ہاوٴس پہنچ چکی ہے،قرارداد کی کاپی اسپیکر قومی اسمبلی کے بھی سپر د کی جاچکی ہے ، وزارت داخلہ سمیت سیکیورٹی ادارے اور بالعمو مقتدر حلقے مناسب اقدام کے لیے تاویلیں گھڑرہے ہیں۔ فی الحال ملکی سیاسی اور کرونائی حالات سے کنفیوژڈ وزیراعظم کی توجہ اس جانب مبذول نہیں ۔ عبوری صوبہ کو لیکر جی بی کے اہل علم ودانشوروں کے درمیان بے لاگ تبصرے جاری ہیں ۔کہیں اس کو محرومیوں کا اژالہ اور 72سالہ انتظار کی ساعتوں کا خاتمہ سمجھاجاتا ہے ۔ تو وہی چند دانش ور عبوری صوبہ کو گلگت بلتستان کی جغرافیائی وآئینی حیثیت اور وسائل پر شب خون مارنے کے متراف گردانتے ہیں ۔ تیسرا طبقہ قوم پرستوں کاہے ان کا نظریہ واضح ہے کہ گلگت بلتستان اقوام متحدہ کے متنازعہ علاقوں کے لیے مروج قوانین کے مطابق عبوری اور آئینی صوبہ نہیں بن سکتا ۔ ان تمام نظریات کو ایک جانب کر کے ہم عبوری صوبے کے فوائد ،اس کے پس منظر و پیش منظر ،حکمت عملی اور عبوری صوبہ کے بعد گلگت بلتستان کا مستقبل اور جغرافیہ پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں گے ۔یہ بات واضح ہوجائے کہ عبوری صوبہ کیا ہے ؟ عبوری صوبہ بھی عام صوبہ کی مانند آئینی و قانونی صوبہ ہے ۔ عبوری صوبہ کی قراردادکی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد گلگت بلتستا ن بھی پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح آئینی صوبہ ہوگا ۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ گلگت بلتستان کے ساتھ عبوری کا لفظ لکھا جائے گا ۔وہ تمام اختیارات جو آئین پاکستان کے تحت دوسرے صوبوں کو حاصل ہیں ، تاوقتیکہ کشمیر کا فیصلہ نہیں ہوتا جی بی کو بھی حاصل ہونگے ۔لیکن عبوری کا لفظ اس لیے لکھا جائے گا کہ اس کا مکمل فیصلہ ہونا باقی ہے ۔ عبوری کا لفظ انڈیا ، اقوام متحدہ ،یورپی یونین اور کشمیریوں کے پریشر کو کم کرنے کے لیے لکھا گیا ہے ۔ دوسرا سوال یہ کہ کیا حکومت واقعی گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنا نے جارہی ہے؟ یا لفظ عبوری کے نام پر حسب سابق لالی پاپ دکھا رہی ہے؟ اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت پریشان اور کنفیوزہے کہ کیا جائے ۔ اگر تو حکومت آئین کے آرٹیکل (B)1میں باضابطہ ترمیم کرکے جی بی کو عبوری صوبہ کا درجہ دیتی ہے۔ تو پھر حکومت واقعا سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔آئین کے آرٹیکل (B)1 میں ترمیم کے بعد ہمیں تمام اختیارات اور سہولیات حاصل ہونگی جو دیگر چاروں صوبوں کو حاصل ہیں ۔ بصورت دیگر لفاظی کی حدتک عبوری صوبہ ہوگا ،لیکن حالات وہی ہونگے ، آئین کے آرٹیکل میں تبدیلی کیے بغیر عبوری صوبہ اعزازی ہوگا ، یعنی حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی تو دے گی مگر اعزازی،اعزازی یعنی سلیکٹیڈ ،آئین کے آرٹیکل میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے جو کہ حکومت کے پاس نہیں ۔اعزازی ممبران اسمبلی کی کسی بھی کارروائی میں دخل کا اور اپنی رائے کے اظہار کا اختیار نہیں رکھتے ،جو صم بکم کے مصداق ہونگے ، جن کا کام اسمبلی کی دیواریں تکنے،پرکشش تنخواہ اور مراعات لینا ہوگا۔اسمبلی میں اعزازی نمائندگی کا مطلب دیگر تمام ریاستی اداروں میں جی بی کی نمائندگی نہیں ہوگی اور نہ ہی این ایف سی ایوارڈ ملے گا ۔ آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ دو اور بہ مشکل تین نشستیں جی بی کو ملیں گی ، کیا یہ دو تین نمائندے ہمار ے مسائل کو حل کرنے میں کامیا ب ہونگے ؟ فیصلہ آپ پر۔ سینیٹ میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے اور یہ یاد رہے یہ عبوری شوربے کے بعد سینیٹ کی نشستیں حاصل کرنے کے لیے گلگت بلتستا ن میں جو عالمی خریدو فروخت کی منڈی لگے گی وہ تاریخ ساز ہوگی ۔ اب رہا سوال عبوری صوبہ کیوں بنایا جارہاہے ؟ اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں ؟ اس کا گلگت بلتستان کے مستقبل اور جغرافیہ پر کیا اثرات نمودار ہونگے ؟ سوالات سنجیدہ اور غور طلب ہیں ۔ان سوالات پر غور کرنا ہرباشعور گلگت بلتستانی پر لازم ہے ۔ اگر مختصر لفظوں میں رقم کروں تو یہی کہونگا کہ وفاق گلگت بلتستان میں جاری اپنے ناجائز کاروبار اور غیر قانونی قبضہ جات کے جواز کے لیے عبوری کی سمت پیش قدمی کررہا ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بہت جلد یہ عبوری صوبہ ترقی کے منازل چھوتا ہوا ہزارہ صوبے کی شکل میں تکمیل کو پہنچے گا اورگلگت بلتستان کی جغرافیائی سر حدودکو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا جائے گا ۔ ہزارہ صوبہ جو متوقع ہے ۔ ایبٹ آباد ، مانسہرہ بے شام ،کوہستان ، دیامر ، گلگت ، ہنزہ ،نگر ،غذر اور چترال پر مبنی ہوگا ۔ استور اور بلتستان جو کہ واقعی میں متنازعہ ہیں ، جن کی سرحدیں لداخ اور کشمیر سے ملتی ہیں کو متنازعہ حیثیت میں صیح وصالم رکھا جائے گا ۔ان تمام مذوموم مقاصد کے قیام کے لیے عبوری صوبہ کی لالی پاپ دی جارہی ہے ۔اعلاوہ ازیں اگر حکومت کی نیت خالص ہوتی تو وہ متنازعہ علاقوں کے تمام حقوق اور وسائل فراہم کرکے گلگت بلتستانیوں کے مسائل کا حل یقینی بناتی ،لیکن ایسا نہیں ہے ،عبوری صوبہ دراصل لائسنس ہے ،جی بی میں جاری وفاقی گورکھ دندوں کو مزید تقویت بخشنے کے لیے ۔ جو متنازعہ حقوق بہتر سالوں میں نہ دے سکے ، کیا ان سے آئینی حقوق کی توقع رکھنا عبث نہیں ،اگر عبث ہے تو پھر ہم گلگت بلتستان کی تقسیم پر خاموش کیوں ہیں ۔ بولتے کیوں نہیں ؟؟؟
 

Abdul Hussain Azad
About the Author: Abdul Hussain Azad Read More Articles by Abdul Hussain Azad: 6 Articles with 2096 views عبدالحسین آزاد کا تعلق گلگت بلتستان ضلع استور تری شنگ سے ہے۔ عبدالحسین آزاد کا شمار پاکستان کے کم عمر نوجوان کالم نگاروں میں ہوتا ہے ۔ آپ سماج ومعاشرہ.. View More