بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایاکہ وَ لَاتَأْکُلُوْا
أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِہَآ اِلَی
الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوا فَرِیْقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ
وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲:۸۸۱)ترجمہ:”اورتم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے
کے مال نارواطریقے سے کھاؤاورنہ ہی حاکموں کے ان کواس غرض کے لیے پیش کرو
کہ تمہیں دوسروں دوسروں کے مال کاکوئی حصہ قصداََ ظالمانہ طریقے سے کھانے
کاموقع مل جائے“۔سورہ انفال میں اللہ تعالی نے حکم دیاکہ یٰٓاَیُّہَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ
تَخُوْنُوْٓا اٰمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۸:۷۲) ترجمہ:”اے
لوگوجویمان لائے ہوجانتے بوجھتے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اور
اپنی امانتوں میں (باہم) خیانت نہ کرو“۔قرآن مجید میں ایک اور مقام پراللہ
تعالی نے حکم صادر کیاکہ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ
لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ وَ لَا تَکُنْ
لِّلْخَآءِنِیْنَ خَصِیْمًا(۴:۵۰۱)ترجمہ:”اے نبیﷺ ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف
نازل کی ہے تاکہ جوراہ راست ہم نے آپ کو دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے
درمیان فیصلہ کریں اورآپﷺ بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ
بنیں“۔بددیانت لوگوں کو اللہ نے سختی سے سرزنش دی کہ وَ اِمَّا تَخَافَنَّ
مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَآءٍ اِنَّ اللّٰہَ
لَا یُحِبُّ الْخَآءِنِیْنَ(۸:۸۵) ترجمہ:”اگرکبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت
کااندیشہ ہوتواس کے معاہدے کواعلانیہ اس کے آگے پھینک دو یقیناََ اللہ
تعالی خائنوں کوپسندنہیں کرتا“۔
آپ ﷺ نے ایک بارفرمایاکہ ”لاایمان لمن لاامانۃ لہ“ترجمہ:”جس شخص میں
ایمانداری نہیں اس میں ایمان نہیں“۔آپ ﷺ کے ایک خطبے کااقتباس ہے کہ”جوکوئی
بھی ناجائز ذرائع سے مال کمائے گااور اس میں سے خرچ کرے گاتواسے برکت نہیں
دی جائے گی،اگراس میں سے خیرات کرے گاتوقبول نہیں ہو گی اوراس میں سے جو بچ
جائے گا وہ جہنم کی طرف اس کا توشہ سفرہوگا“۔ایک اورموقع پرآپ ﷺ نے
مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایا”جس کسی کو اللہ تعالی نے رعیت کی
(کوئی)ذمہ داری سونپی اور وہ اس حال میں مراکہ خیانت کرنے والاہواتواللہ
تعالی نے اس پر جنت حرام قراردی ہے“۔آپﷺنے ایک صاحب قبرکے بارے میں اطلاع
دی کہ اس نے بیت المال میں سے ایک چادر کی بددیانتی کی تھی اور اب وہ چادر
آگ بن کراس پر بھڑک رہی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک موقع پر
آپﷺ نے فرمایا”کل لحم انبتہ السہت فالناراولی بہ“ترجمہ:”ہروہ گوشت جوحرام
مال سے پرورش پائے اس کے لیے زیادہ بہترجگہ دوزخ کی آگ ہے“۔سوال کیاگیاکہ
حرام مال کیاہے تو آپ ﷺنے ارشادفرمایا”الرشوۃ فی الحکم“ترجمہ:”(کسی بھی قسم
کا)فیصلہ کرنے کے لیے رشوت قبول کرنا“۔حضرت عمروبن العاص کہتے ہیں کہ میں
نے آپﷺ کو فرماتے ہوئے سنا”جس قوم میں سودعام ہوجاتاہے وہ خشک سالی میں
مبتلاہوجاتی ہے اورجس قوم میں رشوت عام ہوجاتی ہے اس پردشمن کارعب طاری
ہوجاتاہے“(مسندامام احمدبن حنبلؒ)۔رشوت کے بارے زبان زدعام و خاص یہ حدیث
نبویﷺ ہے کہ”الراشی والمرتشی کلاھمافی النار“ترجمہ:”رشوت دینے والااورلینے
والا دونوں دوزخی ہیں“۔ایک اور حدیث نبوی ﷺ کے مطابق وچولے (کمشن خور) کے
بارے میں فرمایا”لعن اللہ الراشی والمرتشی والرایش“ترجمہ:”رشوت لینے
والے،رشوت دینے والے اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پراللہ تعالی کی
لعنت ہے“(المعجم الکبیر الطبرانی1415)۔فقہ اسلامی کی اصطلاح میں رشوت سے
مراد وہ مال ہے جوحق کو باطل کرنے کے لیے یا باطل کو حق کرنے کے لیے
دیاجائے“۔
بدعنوانی کی متعدد اقسام ہوسکتی ہیں اور ان تمام تراقسام کاسرچشمہ
سیکولرجمہوریت کاسیاسی نظام ہے۔انسانی جمہور کبھی بھی حق پر نہیں
ہوسکتاکیونکہ اللہ تعالی نے بحیثیت مجموعی انسانوں کے بارے میں کہ دیاہے کہ
”ان الانسان لفی خسر“ترجمہ:”بے شک تمام انسان نقصان میں ہیں“،ظاہرہے اس
نقصان سے بچنے والے اقلیت میں ہوں گے۔سورۃ یوسف میں اللہ تعالی نے فرمایا
ہے کہ وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّاوَ ہُمْ
مُّشْرِکُوْنَ(۲۱:۶۰۱) ترجمہ:”ان کی اکثریت اللہ تعالی کواس طرح مانتی ہے
کہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتی ہے“۔ایک اورجگہ فرمایا وَ اِنْ تُطِعْ
اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضَ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنْ
یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۶:۶۱۱)
ترجمہ:”اوراے نبیﷺاگرآپ ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے جوزمین میں
بستے ہیں تویہ اللہ تعالی کے راستے سے آپ کو بھٹکادیں گے کیونکہ یہ محض
گمان پر چلتے ہیں اورقیاس آرائیاں کرتے ہیں“۔اسی سورۃ میں آگے چل
کرفرمایاوَ اِنَّ کَثِیْرًالَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآءِہِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ
اِنَّ رَبَّکَ ہُوَاَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ(۶:۹۱۱) ترجمہ:”بکثرت لوگوں
کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنیاپرگمراہ کن باتیں
کرتے ہیں ان حد سے گزرنے والوں کو آپﷺ کارب بہت اچھی طرح جانتاہے“۔ اسی طرح
سورۃ مومنون میں اس طرح فرمایاکہ اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ
جَآءَ ہُمْ بِالْحَقِّ وَ اَکْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ کٰرِہُوْنَ(۳۲:۰۷)
ترجمہ:”کیایہ انﷺکو مجنون کہتے ہیں،نہیں بلکہ ان کے پاس حق آیاہے اور ان کی
اکثریت (دعوت)حق کو ناپسندکرتی ہے“۔سورہ شعراء میں یوں فرمایا کہً وَمَا
کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۶۲:۸) ترجمہ:”ان میں سے اکثریت ایمان
والے نہیں ہیں“۔قرآن مجید نے کل انسانی تاریخ کی کچھ اقوام کاذکر کیاہے جن
میں اللہ تعالی نے خود چنیدہ و برگزیدہستیاں مبعوث کیں،یہ انبیاء علیھم
السلام تھے جن پر فرشتہ جبریل علیھم السلام اللہ تعالی کی طرف سے وحی لے کر
اترتاہے،اللہ تعالی نے ان اعلی ترین ہستیوں کو بطور مثال کے پیش
کیاہے۔اگرانبیاء علیھم السلام تشریف نہ لاتے تو جنگل کابادشاہ انسان
ہوتا۔ان تمام مقدسات و احترامات کے باوجود اگر یہ انبیاء علیھم السلام اپنی
اپنی اقوام میں انتخابات لڑتے تو بری طرح ناکام ہو جاتے۔حضرت نوحؑ اپنی قوم
کے سرداروں سے بری ہارجاتے،حضرت شعیب ؑ اور حضرت ہود ؑ کی توشاید ضمانتیں
ہی ضبط ہو جاتیں اورحضرت لوط ؑ،حضرت صالح اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں اور
بجائے خود آپ ﷺ اگر مکہ میں انتخابات میں حصہ لیتے تو جیتنا کسی طرح بھی
ممکن نہیں تھا۔ان حالات میں جب کہ کتاب اللہ اور انبیاء علیھم السلام کو
سیکولرجمہوریت کا یہ نظام مسترد کررہاہے تو یہاں سے دیانت داری،ایمان
داری،امانت و دیانت اورشرافت وتقوی اور قرب الہی و نجات دارین کیوں کر ممکن
ہو سکتی ہے؟؟؟
سیکولرجمہوری نظام کل بدعنوانیوں اور بددیانتیوں کی جنم بھونی ہے۔یہ نام
نہاد جمہوریت دراصل سرمایادارانہ نظام کا متعاون ایک سیاسی نظم ہے جس سے
سرمایاداروں کو ہی ہمیشہ فائدہ ہو سکتاہے۔اب یہ ایک تاریخی سبق بن چکا ہے
عام عوام اس نظام سے کبھی بھی آسودہ،خوش حال اور بہرہ مند نہیں ہو سکتے۔ایک
ایسا شخص جس کی ترجیحات میں اللہ تعالی اور اسکا رسول ﷺ اور فلاح انسانیت
آخری درجے تک بھی کہیں موجود نہیں ہیں اورسونے اور چاندی کے ڈھیروں میں
درہم و دینارکے بل بوتے پر ایوان اقتدارمیں پہنچتاہے تو کیادیانتداری،امانت
و دیانت اور شرافت اور تقوی کی بنیادپر وہ اپنے انتخابی اخراجات پورے
کرسکتاہے؟؟؟یہی سرمایادارانہ نظام اس کو چور راستے دکھاتاہے کہ وہ اپنے
گزشتہ انتخابات کے اخراجات بھی پورے کرے،اپنا منافع بھی اکٹھاکرے اور آنے
والے انتخابی معرکے کے لیے بھی اپنا خزانہ بھررکھے۔یہ منزل اسے سوائے
بددیانتی وبدعنوانی کے کبھی بھی نہیں مل سکتی۔اس کی آئندہ کامیابی کے لیے
لازمی ہے کہ اس کی عوام اس سے خوش رہے،پھراگروہ اپنے انتخابی حلقے میں
ناجائزوظلم پر مبنی مقدمے والوں کا ساتھ نہیں دے گا،لوگوں کی غلط فرمائیشیں
پوری نہیں کرے گا،دھونس،دھاندلی،بے ایمانی،سفارش اور رشوت سے لوگوں کی
نوکریاں نہیں لگوائے گا،اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگاکر سرعام ان کی
پگڑیاں نہیں اچھالے گا اور اخبارات و دیگر ذرائع مواصلات کو بڑی بڑی رقوم
کھلا کر اپنے حق میں جھوٹی خبریں نہیں لگوائے گاتو کیسے ممکن ہے کہ وہ اگلے
انتخابات میں کامیاب ہو؟؟؟سیکولر جمہوری نظام صرف بدعنوانی کی ہی پرورش
کرسکتاہے۔وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جنہیں اس سیکولر جمہوری سیاسی
نظام سے کسی اچھی،محب وطن اور دیانت دار قیادت کی توقع ہے۔یہ نظام امیروں
کے شوق سیاست کوپوراکرنے کے باعث بدعنوانی و بددیانتی کے راستے دولت کے
انبارلگانے کے لیے غریب پر ناجائز لگان لگالگاکر غریب کو غریب تر اور امیر
کو امیر تر کرنے کاباعث ہے کیونکہ بنیادی طوریہ سرمایادارانہ نظام کاہی حصہ
ہے۔
سیکولرجمہوری نظام سے جنم لینے والی بدعنوانی صرف اسی نظام تک ہی نہیں رہتی
بلکہ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی بدترین لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اپنے پیٹ
کادوزخ بھرنے کے لیے اور اگلے بڑے انتخابات میں اپنی کامیابی،چھوٹے
انتخابات میں اپنے بیٹوں کی کامیابی اور مقامی انتخابات میں اپنے
بھانجوں،بھتیجوں اوردامادوں کی کامیابی کے لیے وہ بہت بڑے پیمانے پر ریاستی
اداروں اور ان کے اہل کاروں کو خریدتاہے،کیونکہ اس کے بغیر اس کی بدعنوانی
کی پردہ پوشی اور اگلی کامیابیاں ممکن نہیں۔چنانچہ ان مکروہ مقاصد کے حصول
کے لیے وہ اپنے بڑوں کی آشیربادسے چھوٹے سےبڑے تمام اہل کاروں کی قیمت
لگاتاہے،اداروں کو خریدتاہے،انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال
کرتاہے،ریاست کی اخلاقی،نظریاتی،دفاعی اورتعلیمی وانتظامی بنیادیں کھوکھلی
کرتاچلاجاتاہے اور بدعنوانی کی بنیادوں پرملک و ملت کو الو بناکراپناالو
سیدھاکرتاچلا جاتاہے۔سیکولرجمہوریت کے نمائندوں نے اپنے حلقہ انتخاب کے
تمام اداروں میں اپنے من پسند کے اہلکارتعینات کرائے ہوتے ہیں،ان سے اپنی
من مرضی کے اقدامات پر دستخط کرواتے ہیں اورانہیں بھی بدعنوان بناکر انہوں
نے ایک ریاست میں کئی ریاستیں بنارکھی ہیں اور بددیانتی کاسرطان نیچے سے
نیچے تک سرائت کرتاچلاجاتاہے۔حتی کہ اس آسمان نے وہ وقت بھی دیکھاکہ اس
سیکولر جمہوری نظام کے نام نہادمنتخب نمائندوں کے سامنے ریاست کے اعلی ترین
حسبہ و قضا کے ادارے بھی بے بس نظر آئے اورجب ریاست کی نیا ڈوبتی ہوئی نظر
آتی ہے تو جہازسے چوہوں کی طرح چھلانگ لگا کر ملکی سرحدوں سے دوراپنی محفوظ
پناہ گاہوں میں سدھار جاتے ہیں۔بدعنوانی کے ایسے ایسے طریقے سرمادارانہ
نظام نے انہیں سکھائے کہ خزانے خالی ہو گئے لیکن بڑے بڑے سراغ رساں ادارے
بھی اس بدعنوانی کا سراغ لگانے میں اس لیے ناکام نظر آئے کہ چوروں نے کوئی
نشان ہی نہ چھوڑاتھاکہ کھوجی اس تک پہنچ پاتا۔نسل در نسل ایک طبقہ ہے جس نے
سیکولر جمہوریت کے راستے بدعنوانی کے ذریعے پورے نظام اور پوری ریاست کو
یرغمال بنارکھاہے۔اس نسل اور اس کے لگتوں سگتوں کی پانچوں گھی میں ہیں،سر
کڑھائی میں اورپاؤں شہدمیں ڈوب چکے ہیں جب کہ زندہ باد زندہ بادکے نعرے
لگانے والے غربت و جہالت وبیماری و پسماندگی واستحصال کی اتھاہ گہرائیوں
میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔
بدعنوانی روکنے کے لیے شرق و غرب سے صدائیں بلندہوتی ہیں کہ نظام بدل
دیاجائے۔جتنے بھی نظام بدلے جائیں گے بدعنوانی ختم نہیں ہو سکے گی۔بدعنوانی
کاحل حجاج بن یوسف نے اپنے ابتدائی خطاب میں پیش کیاتھا جب اسے والی
بنایاگیاتھا۔حجاج بن یوسف نے کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ میں دیکھ
رہاہوں سروں کی فصل پک چکی ہے۔سیکولرجمہوری نظام کی بے ہودہ و فرسودہ
ونالائق قیادت کوخلافت راشدہ جیسے نظام کے سربھی بٹھادیاجائے تو یہ قیادت
اس جیسے مقدس ادارے کو بھی یقیناََآلودہ کردے گی۔ڈگڈگی بجاکر تماشبینوں کو
اکٹھاکرلینے والے مداری قیادت کے لیے کبھی اہل نہیں ہو سکتے۔قرآن مجید اور
سنت رسول اللہ ﷺنے قیادت کے بہترین اصول و اوصاف بتادیے ہیں۔الشیخ المارودی
نے اپنی شہرہ آفاق کتاب”الاحکام السلطانیہ“میں ان اصول ہائے جہانبانی کو
بڑی ترتیب و تفصیل سے بیان کیاہے۔جن افراد کو قدرت نے طبعاََقائد بناکر
بھیجاہو اوران میں دیگراوصاف حمیدہ بھی موجودہوں وہی لوگ ہی اصل میں قیادت
و سیادت کے لیے اہل تر ہیں۔ایسے لوگوں کی تلاش ہی مقتدرقوتوں کااصل امتحان
ہے۔بے ہنگم اور شتربے مہارجمہوری تماشے سے اس طرح کی سنجیدہ قیادت بہت
پیچھے جاچکی ہے۔باربارکے انتخابات سے یہ نظام اور اس نظام کے پروردہ لوگ
مضبوط سے مضبوط ترہوتے چلے جائیں گے اور قوم کمزورسے کمزورتر۔نظام کی
تبدیلی اگر چہ بہت ضروری ہے لیکن اس سے پہلے نظام چلانے والوں کاانتخاب
نہایت اور اشدضرورت ہے۔
اسلام نے خلافت راشدہ کے نام سے انتہائی دیانتدارانہ نظام آسمان سے اتار کر
بطورتحفہ انسانیت کو مرحمت کیاہے۔اور اس زمین کے سینے پر اس نظام کوبڑی
کامیابی سے آزمایا بھی جاچکاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی نسبت آج اس نظام کی
پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔دنیائے انسانیت گزشتہ تین سوسالوں سے سیکولر
جمہوریت کے اثرات بد کو بھگت رہی ہے،دو بڑی بڑی جنگوں کے بعد کچھ عبرت آئی
بھی تو وہ انگلی پر گنے چنے چند ممالک کی سرحدوں تک محدود ہوکررہ گئی۔ان
ملکوں نے اپنی تمام لغویات تو برآمد کیں لیکن احسنیات کی باقی دنیاکوہوابھی
نہیں لگنے دی۔جب کہ باقی پوری دنیاکو سیکولرجمہوریت نے بدعنوانی کی ناک تک
ڈبو رکھاہے۔جس جس ملک میں یہ سیکولر جمہوریت پہنچی وہاں آکاس بیل کی
مانندبدعنوانی و بددیانتی بھی گھٹنوں گھٹنوں پہنچ گئی۔بدعنوانی کے عالمی دن
کے موقع پر انسانیت کو اس سیکولر مغربی تہذیب کے بدبودار نظام سیاست سے
رجوع کر کے اسلام کے نظام خلافت کی طرف لوٹناہوگا۔اس آفاقی نظام نے
اقتدارکو امانت کاتصوردیاہے،حاکم وقت کو مقتدراعلی کے سامنے جوابدہ
بنایاہے،عوام کو رعیت کی حیثیت دی ہے،حکومت کو عہدے کی بجائے ذمہ داری
کاپہناواپہنایا ہے اوراختیارات کو استحصال کا ذریعہ بنانے کی بجائے استحصان
کادرس دیاہے۔وہ وقت قریب آن لگاہے جب جینواکے حقوق انسانی کے اعلانیے
گوانتاناموبے کے اذیت خانوں کہ تہ میں دفن ہوجائیں گے اورمحسن انسانیت ﷺکا
آخری خطبہ اس دنیاپر امانت و دیانت کا ضامن ہو گا۔چشم بصیرت اس صبح کو بہت
قریب سے دیکھ رہی ہے جس کی پو پھٹ چکی ہے،رات اپنے آخری دموں پر ہے
اورفاران کی چوٹیوں سے بلند ہونے والا آفتاب نبوت سے روشن ماہتاب خلافت
راشدہ اس عالم انسانیت پر ضو فشاں ہوا کہ ہوا،ان شااللہ تعالی۔
|