چین میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی

چین کی جانب سے اپنے کووڈ19 انسداد وبا ردعمل کی ایڈجسٹمنٹ اور پابندیوں میں نرمی کے بعد ملک کے سبھی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں میں بھی نمایاں تیزی آ رہی ہے۔ اہم تجارتی شہر غیر ملکی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے انہیں معمول کی پیداواری سرگرمیوں کی منظم بحالی کو آسان بنانے کے لئےدرکار لازمی حمایت فراہم کی گئی ہے۔اس ضمن میں بہت سی مقامی حکومتیں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے تشہیری سرگرمیوں کا انعقاد کر رہی ہیں یا کاروباری وفود کو بھیجنے کے لئے چارٹر طیاروں کا انتظام کر رہی ہیں.

ابھی گزشتہ ہفتے ہی، چین نے اپنے کووڈ 19 ردعمل کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کے ایک نئے سلسلے کا اعلان کیا تھا، جس سے لوگوں کو سفر کرنے اور عوامی مقامات میں داخل ہونے کے لئے آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔وسیع پیمانے پر یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چین کی جانب سے حالیہ اقدامات سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت کو ٹھوس فروغ ملے گا ، جو کووڈ 19 کے دوبارہ عروج کے باعث رواں سال دباؤ میں تھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی ترقی نہ صرف خود چین کے لیے ثمرات لا رہی ہے بلکہ عالمی معیشت میں ایک مضبوط تحریک بھی فراہم کر رہی ہے اور باقی دنیا کے لئے بے پناہ نئے مواقع پیدا کر رہی ہے ۔چین کی معاشی لچک 2020 میں وبائی صورتحال کے دوران بھی دیکھی گئی تھی ، جب یہ مثبت نمو کی حامل دنیا کی واحد بڑی معیشت تھی۔آج چین کھلونے اور فرنیچر سے لے کر میکانی آلات اور آٹوموبائل تک ، دنیا کے لئے مختلف اقسام کی معیاری مصنوعات فراہم کر رہا ہے جبکہ دنیا میں دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے ۔چین کی درآمدات نے 2021 میں دنیا کی درآمدی نمو میں 13.4 فیصد کا حصہ ڈالا ، جس سے عالمی معاشی بحالی کو فروغ ملا ہے۔ ملک کے بڑھتے ہوئے متوسط آمدنی والے گروپ سے مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب کو فروغ ملا ہے۔درآمدات میں زبردست اضافے سے نہ صرف چینی عوام کے ذریعہ معاش کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے بلکہ برآمدات پر مبنی ممالک میں نمو اور روزگار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس کے طور پر، چین دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے جامع صنعتی نظام کا حامل ملک ہے، جو اسے عالمی صنعتی چین میں ایک اہم شراکت دار بناتا ہے.

حقائق کے تناظر میں کووڈ 19 عالمگیر وبا اور مختلف عالمی و علاقائی تنازعات کے باعث عالمی معیشت کو اس وقت متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔اس صورتحال میں چین نے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لئے ٹھوس حمایت فراہم ہے ، جس میں خام مال ، پیداواری صلاحیت ، لاجسٹکس اور فروخت سے متعلق معاونت شامل ہے۔ اپنی صنعتی چین کو لچکدار رکھتے ہوئے ، چین نے عالمی سطح پر افراط زر کے دباؤ کو کم کرنے میں بھی مدد کی ہے۔یہ بات غور طلب ہے کہ چین کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی اضافی قدر نے 2010 میں پہلی مرتبہ امریکہ کو پیچھے چھوڑا، اور اس کے بعد سے عالمی سطح پر مسلسل پہلے نمبر پر ہے.ٹھوس انفراسٹرکچر چین کی صنعتی طاقت کے پیچھے اہم عوامل میں سے ایک ہے ، یہی وجہ ہے کہ چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا فائیو جی نیٹ ورک، تیز رفتار ریلوے سسٹم اور ایکسپریس وے نیٹ ورک موجود ہے۔صنعتی اپ گریڈ کو آسان بنانے کے لئے تکنیکی جدت طرازی کو آگے بڑھانے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں جس میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔ آج چین اپنی صنعتی طاقت، مضبوط بنیادی ڈھانچے اور 1.4 ارب صارفین کے ساتھ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے لئے تیزی سے اہم ترین منزل بن چکا ہے۔ملک میں ایف ڈی آئی 2021 میں 173.5 بلین امریکی ڈالر ہوگئی ہے ، جس کی اوسط سالانہ شرح نمو 4.8 فیصد ہے۔چین نے مسلسل پانچ سالوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے اپنی منفی فہرست کو مختصر کی ہے ، جس سے مالیاتی خدمات ، مینوفیکچرنگ اور الیکٹرانک انفارمیشن جیسے شعبوں میں غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے اپنی بڑی گھریلو مارکیٹ کو مستقل طور پر کھولا ہے اور آزاد تجارت کو آسان بنانے والے ادارہ جاتی انتظامات کو فروغ دے کر باقی دنیا کے ساتھ اقتصادی تعاون کو مسلسل آگے بڑھایا ہے۔ آج، چین ملک بھر میں 21 پائلٹ فری ٹریڈ زونز قائم کر چکا ہے، جس سے غیر ملکی کاروباری اداروں اور ان کی مصنوعات کو چینی مارکیٹ میں داخلے کا دروازہ ملا ہے۔ چین نے 26 ممالک اور خطوں کے ساتھ 19 آزاد تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں ۔ چین اور اس کے آزاد تجارتی شراکت داروں کے مابین تجارتی حجم 2021 میں ملک کے کل تجارتی حجم کا 35 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔چین نے دنیا کے سب سے بڑے آزاد تجارتی معاہدے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کے نفاذ کو فعال طور پر فروغ دیا ہے، اور کثیر الجہتی اور آزاد تجارت کو مزید فروغ دینے کے لئے جامع اور ترقی پسند ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ اور ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ معاہدے میں شمولیت کی بھی کوشش کر رہا ہے. چین کا ہدف ہے کہ اگلے 15 سالوں میں اپنی متوسط آمدنی والی آبادی کو 800 ملین سے زائد تک بڑھایا جائے جس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ باقی دنیا کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے آزاد تجارتی تعلقات ، معیاری بین الاقوامی مصنوعات کی مضبوط گھریلو طلب ، غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے نئے مواقع پیدا کرے گی جس سے عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کو رواں رکھنے میں بھی نمایاں مدد ملے گی۔چین کی یہ کاوشیں عالمی معیشت کی بحالی کے لیے بھی ایک اہم شراکت اور ایک بڑے ذمہ دار ملک کی عمدہ عکاسی ہیں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 618605 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More